بشری کمزوریاں کیا ہیں
بشری کمزوریاں کیا ہیں ؟
اللہ تبارک و تعالی نے اپنی ہر مخلوق کو کچھ ایسی خصوصیات عطا کی ہیں جن کی مدد سے وہ نہ صرف اپنی غذا حاصل کرتا ہے بلکہ دشمنوں سے اپنا بچاؤ بھی کرتا ہے۔ صاحب کو زہر کی پوٹلی،ہرن کو تیز رفتاری،شیر کو بے پناہ طاقت اور گینڈے کو بے انتہا سخت کھال عطا کر کے ان کی نسلوں کی محفوظ رہنے کا سامان مہیا کیا ہے۔
انسان جسمانی اعتبار سے بہت زیادہ مضبوط نہیں ہے لیکن وہ قدرت کی بے حد حسین تخلق ہیں ہیں جس سے ہم اشرف المخلوقات ( اللہ تعالی کی پیدا کی گئی تمام چیزوں میں سب سے زیادہ اہم اور افضل حیوان ناطق) بھی ہیں ۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ گویا دنیا کی دیگر تخلیقات تو کن فیکن کا مظہر ہیں۔ یعنی اس نے کہا ہو جا اور وہ ہو گئیں لیکن انسان کی تخلیق اللہ تعالی کی قوت تخلیق کا ایک نادر نمونہ ہے اللہ تعالی خود قرآن میں کہتا ہے کہ میں نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ۔ “قال يا ابليس ما منعك ان تسجد لما خلقت بيدي”( صورہ ص،۳۸:۷۵). ترجمہ: “کہا اے ابلیس کس چیز نے تجھے روکا ہے کہ تو اسے سجدہ کرے جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے” ۔
دونوں ہاتھوں سے پیدا کرنے کا لطیف مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق اپنے خاص توجہ سے فرمائی ہے ورنہ نعوذ باللہ انسانوں کی طرح اللہ تعالی کے دو ہاتھ تصور کرنا نہ صرف ذات الہی کی توہین ہے بلکہ گناہ کی بات بھی ہے اور اللہ تعالی کے حق میں اتنی سخت برا ثابت ہونے کا خدشہ بھی ہے ۔
یہ شرف صرف انسانوں کو ہی حاصل ہے کہ اس کی تخلیق کرنے کے بعد اللہ تعالی نے اس میں اپنی روح پھونکی یہ عزت و اکرام کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں ہوا ہے۔ انسان کی عظمت صرف اس لیے ہے کہ اللہ تعالی نے اس میں اپنی روح پھونکی ہیں ورنہ وہ تو مٹی کا ایک معمولی سا قطرہ ہے اللہ تعالی سورۃالحجرمیں فرماتا ہے ” اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا”۔
انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل اللہ کے صفات کا عکس بے رحم سخاوت سلوک و احسان اللہ کے خلیفہ میں خدائی صفات سے کچھ عناصر دیے گئے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے سے عہدہ بر آ ہو سکے۔ رحم و کرم کے معاملے ہی کو لیجیے
انسان اپنی اولاد کی پرورش اور اس کی نگہداشت اس توجہ اور رحم کے ساتھ کرتا ہے۔ ماں کو محبت، رحمت اور شفقت کا مجسمہ کہا گیا ہے لیکن یہ جذبہ جو انسان کو ملا ہے خدا کے رحم وکرم کے جذبے کے مقابلے میں بے حد معمولی ہے حدیث شریف میں آیا ہے کہ ” جعل الله الرحمة مائة جزء فامسك عنده تسعة وتسعين وانزل في الارض جزءا واحدا فمن ذلك الجزء يتراحم الخلائق حتى ترفع دابة حافرها عن ولدها خشيه ان تصيبه”
ترجمہ : اللہ تعالی نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا ہے پھر ان میں سے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حصہ زمین پر اتارا ہے یہ اسی ایک حصے کی برکت سے ہے جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتی ہیں یہاں تک کہ جانور بھی اپنے بچے پر سے اپنا کھر اٹھاتا ہے تاکہ وہ اسے ضرر نہ پہنچے تو یہ بھی دراصل اسے رحمت کا اثر ہے۔
” اس میں شک نہیں کے رحمت کا صرف ١/١٠٠ واں حصہ مخلوقات کو دیا گیا ہے ہے لیکن اس تقسیم میں بھی انسان کو سب سے زیادہ حصہ ملا ہے ایک اور حدیث میں اللہ تعالی کی رحمت کو اس کے غصے پر غالب بتایا گیا ہے ہے ۔ عن ابي هريره رضي الله عنه قال “قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قضى الله الخلق كتب في كتابه فهو عنده فوق العرش ان رحمتي غلبت غضبي” ۔
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالی سب خلقت کو پیدا کرچکا تو اس نے اپنی کتاب لوح محفوظ میں جو اسی کے پاس عرش پر ہے اس میں لکھا میری رحمت میرے غصے پر غالب ہے” ۔ ان تمام خوبیوں کا مالک ہونے کے بعد کیا وجہ ہے کہ انسان انتہائی ذلیل کام بھی کر لیتا ہے
اس کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ انسان کی اپنی سرشت کی وجہ سے ہے اس کی پیدائش کے وقت چند ایسی کمزوریاں بھی اس میں ڈال دی گئی تھیں جنہوں نے اسے بلندی سے اٹھا کر پستی میں بٹھا دیا
اللہ تعالی خود قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے “خلق الانسان من عجل ” ترجمہ: انسان کو جلدی کا پتلا بنایا گیا ہے ۔
اس کا مفہوم یہ نہیں کہ اللہ تعالی نے اسے جلدی جلدی میں پیدا کیا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے مزاج میں جلد بازی کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ گویا یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسے جلدی کا پتلا بنا کر پیدا کیا گیا ہے یعنی ہر کام میں جلدی کرنا اس کی فطرت میں شامل ہے لیکن چونکہ یہ ایک طرح کی کمزوری ہے اسی لئے اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
محمد فداء المصطفٰے
دارالہدی اسلامک یونیورسٹی ملاپورم کیرلا
mohammedfidaulmustafa938@gmail.com
9037099731
-
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- دہلی میں دو طوفان
- سپریم کورٹ کا امتحان