ہمیں وطن عزیز کے ساتھ اپنے تشخص کی بھی حفاظت کرنی ہے

Spread the love

ہمیں وطن عزیز کے ساتھ اپنے تشخص کی بھی حفاظت کرنی ہے


جمہوری ملک میں سب سے زیادہ طاقت پارلیامنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے پاس ہوتی ہے۔ اس کے بعد عدالت، انتظامیہ اور میڈیا۔ جمہوریت کے یہ چار ستون ہیں۔

ان میں عدالت اور میڈیا خریدے اور مینیج (مسخر) کیے جا رہے ہیں۔ اور چوں کہ یہ کام بی جے پی، یعنی آر ایس ایس کی حکومت کر رہی ہے، اس لیے اس میں سب سے زیادہ استحصال مسلمانوں کا ہو رہا ہے۔ اس کی زندہ مثال خلیفۂ تاج الشرعیہ قمر غنی عثمانی صاحب قبلہ مد ظلّہ العالی ہیں

جن کا سب سے بڑا جرم، تحفظ ناموس رسالت کی خاطر سرگرمی و تحریک تھا۔ آج حضرت بے جا قید و بند میں ہیں۔ اور مسلمانوں کی سبھی تنظیمیں خوفزدہ ہوکر خاموش ہیں۔ گیان واپی مسجد بنارس۔

اور شاہی عید گاہ مسجد متھرا۔ کے مقدمات بھی اسی نظریے کے تحت قائم کیے گئے ہیں اور چلائے جا رہے ہیں۔ تاکہ مسلمان احساس کمتری اور مرعوبیت کے شکار ہو کر مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں۔ اور شاید حکومت کا منشا بھی یہی تھا۔


رہی بات پارلیامینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی، تو اس میں ہماری تعداد 1980 کے بعد سے ہر الیکشن میں گھٹتی جا رہی ہے۔ اور اس کا معاملہ ایسا ہے کہ “مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” یعنی ووٹ اور سیاست کے تعلق سے جس قدر مسلمانوں میں بیداری آتی گئی۔ اور اس میدان میں قابل و تیز طرار لوگ شامل ہوتے گئے۔

مسلم پارٹیاں بننے لگیں۔ اسی تناسب اور تیزی کے ساتھ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ہماری تعداد کم سے کم ہوتی گئی۔ اس کی اصل وجہ تو اہل سیاست ہی جانیں۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ عدالت اور صحافت کی طرح ہمارے نیتا اور مسلم پارٹیاں بھی فروخت ہو رہی ہیں۔

اور وہ نیتاجی اور قائد قوم وملت کتنے بڑے غدار ہیں جو قوم و ملت کے نام پر قائد بنتے ہیں اور اپنی ذاتی فائدے کے لیے پوری قوم کو ہی بیچ دیتے ہیں۔

نتیجتاً یہ قوم مسلم ہر دن تباہ و برباد ہو رہی ہے اور سیاسی طور پر کمزور ہوتی جا رہی ہے۔


انتظامیہ جسے ہندی میں کاریہ پالیکا کہتے ہیں۔ حالاں کے یہ بھی حکومت کے تابعدار ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اس میں امید کی ہلکی سی کرن نظر آتی ہے۔ وہ اس طرح کہ ہزارہا رکاوٹوں کے باوجود ہمارے مسلم نوجوان مقابلہ جاتی امتحانات میں شریک بھی ہو رہے ہیں

اورالحمد للہ کام یاب بھی ہو رہے ہیں۔ اگرچہ پہلے کے مقابلے میں تھوڑی سی بہتری آئی ہے کہ 2012 عیسوی میں٪2.5 فیصد مسلم افسران ہوا کرتے تھے جو اب بڑھ کر ٪3.5 سے ٪5۔4 فیصد ہو گئے ہیں

الحمدللہ۔ ہمیں اس تناسب کو بڑھا کر کم از کم آبادی کے اعتبار سے ٪14 فیصد تک لے جانا ہے۔ ان شاء اللہ۔


اس کے لیے ہر طبقہ کے مسلمانوں کو اپنی پوری جمعیت اور پوری طاقت و صلاحیت کے ساتھ مسلمان بچوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا ہوگا۔ ہماری ہر طرح کی تگ و دو تنظیم و تحریک، محنت و جدوجہد، ایثار و قربانی۔ ہر سطح کے بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ہونی چاہیے۔


ہمارا شمار آج ہندوستان میں سب سے زیادہ جاہل، اجڈ اور مفلوج قوم میں ہوتا ہے۔ معاذاللہ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مسلمان غبی، کند ذہن اور سب سے زیادہ کم عقل ہوتے ہیں۔ بلکہ میرا یہ ماننا ہے اور عقیدہ ہے کہ مسلمان دنیا کی تمام قوموں میں سب سے زیادہ ذہین، زیرک اور تیز و طرار ہوتے ہیں۔


اللہ تعالی نے انہیں اعلی درجے کا فہم و فراست عطا کیا ہے۔ اس کے باوجود ہم ذلیل و خوار اسلیے ہو رہے ہیں کہ ہم اپنی صلاحیت، اثاثہ، سرمایہ، وقت اور طاقت و قوت کا استعمال صحیح جگہ، صحیح وقت اور صحیح طریقے سے نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ ہماری صلاحیتیں افتراق و انتشار اور آپسی تخریب کاری میں صرف ہو رہی ہیں۔


ہم نے علم دین اور علم دنیا کی تفریق کرکے اور تسخیر کائنات کے علم کو مکروہ سمجھ کر چھوڑ دیا ہے۔ یہی وہ اسباب ہیں جس سے آج ہم اپنے منصب ومقام، سربلندی و حکمرانی سے گر کر محکوم، مزدور اور مرعوب ہو گئے ہیں۔

ہمیں اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ اپنی تعلیمی، اخلاقی، معاشی و سماجی حیثیتںوں کو بلند سے بلند تر کرنا ہوگا۔ تبھی ہم اپنے وطن عزیز کے ساتھ اپنی تشخص کی بھی حفاظت کر سکیں گے۔
اٹھا نہ بار گراں فرنگ کے احساں
سفال ہند سے میناو جام پیدا کر


ضرورت ہے کہ ماضی کی طرح روشن ہو مستقبل
کوئی بوذر کوئی خالد کوئی سلمان پیدا کر


محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

61 thoughts on “ہمیں وطن عزیز کے ساتھ اپنے تشخص کی بھی حفاظت کرنی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *