بچوں کی تین بہترین عادات
بچوں کی تین بہترین عادات
(قاسم علی شاہ)
مریم نے بچپن سے اپنے باپ کو کھیتی باڑی کرتے دیکھا۔ اس کے گھر کے ساتھ کافی کھلی زمین تھی جس میں وہ لوگ سبزیاں اُگایا کرتے تھے اور ہر سال منوں کے حساب سے فصل تیار ہوتی تھی۔ ایک دن مریم اسکول سے واپس آئی توماں کو پریشان دیکھا۔ اس نے ماں سے پریشانی کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگی: ’’ اس بار زمین کافی سخت ہوگئی ہے، ہم لوگ سبزیاں نہیں اُگاسکیں گے اور اتنی بڑی زمین میں ٹریکٹر کے ذریعے ہل چلوانے کی ہماری استطاعت نہیں ہے
۔‘‘ ماں کی بات سن کر وہ بھی پریشان ہوگئی لیکن پھر اچانک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ وہ اُٹھی، اپنے کمرے میں گئی اور بیگ سے کاغذ قلم نکال کرکچھ لکھنے لگی۔دودِن بعد اس کے گھر کے سامنے بہت سے لوگ جمع ہوگئے۔مریم کاباپ پریشانی کے عالم میں باہر نکلا اوردیکھا تو ان کے ہاتھوں میں کدال اور بیلچے تھے۔ اس نے لوگوں سے آنے کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے:’’ہم خزانہ کی تلاش میں آئے ہیں
۔ـ‘‘ مریم کے باپ نے حیرانی سے پوچھا:’’خزانہ۔۔ کیساخزانہ؟‘‘ لیکن لوگوں نے اس کی بات نہ سنی اوروہ جوش و خروش کے ساتھ زمین کھودنے لگے۔شام تک انھوں نے ساری زمین چھان ماری لیکن خزانہ کہیں نہیں ملا۔مایوس ہوکر وہ واپس لوٹ گئے۔رات کو مریم کے والدین کمرے میں بیٹھے بات چیت کررہے تھے کہ اتنے میں مریم بھی وہاں آگئی
۔ باپ نے اس کی طرف دیکھا اوربولا:’’بیٹا! آج تو عجیب واقعہ ہوگیا۔معلوم نہیں گائوں والوں کو کیا ہوگیا تھاکہ وہ بیلچے کدال لے کر ہماری زمین پر آگئے اورپوری زمین کھود کررکھ دی ۔‘‘ مریم مسکرانے لگی اور بولی:’’ابا! آج کی کھدائی سے آلو کی فصل لگ جائے گی یامزید لوگوں کو بھیج دوں؟‘‘ماں باپ نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگی:’’میں نے اخباروالوںکو خط لکھاتھا کہ فلاں مقام پر جو زمین ہے، وہاں ایک خزانہ چھپا ہے جس کا ذکر ایک کتاب میں بھی موجو دہے۔بس جیسے ہی وہ خط شائع ہوا، اگلے دن لوگ وہاں پہنچ گئے اورہمارے لیے زمین تیار کرگئے۔‘‘
یہ واقعہ مریم کی عقل مندی کو ثابت کرتا ہے اور ساتھ میںیہ بھی واضح کرتاہے کہ بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔وہ جیسا محسوس کرتے ہیں اس کا اظہار بغیر کسی جھجک کے کردیتے ہیں اور بعض اوقات ان کی معصوم شرارتیں دیکھ کر انسان قہقہے مارنے پر مجبورہوجاتاہے۔میں نے اشفاق صاحب سے سناتھا کہ سب کچھ ماردینا مگر اپنے اندر کا بچہ نہ مارنا۔تب میں اس بات کو نہیں سمجھا تھالیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھ پر اس کی حقیقت واضح ہوتی گئی۔مچھے پتا چل گیا کہ بچوں کے اندر کچھ ایسی صفات ہو ہیں جوبہت کمال کی ہیں۔ہر وہ شخص جو اپنے اندر کے بچے کو ماردیتاہے وہ بے زاریت کاشکار ہوجاتاہے۔اس کی زندگی بے رنگ ہوجاتی ہے اور وہ وقت سے پہلے بوڑھا ہونا شروع ہوجاتاہے۔
بچوں کی سب سے بہترین عادت تجسس ہے۔ان کی زندگی میں اکثر چیزیں نئی واقع ہورہی ہوتی ہیںاس لیے وہ بھرپور حیرت کے ساتھ ان کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ ہر چیز کے بارے میںسوال پوچھتے ہیںاور بعض دفعہ تو ایک ہی سوال دہراتے رہتے ہیں۔
ہم نے گھر میں مختلف طرح کے پرندے پالے ہوئے ہیں۔میرا بیٹا رو ز مجھ سے پوچھتاہے کہ یہ طوطاکیسے بولتاہے اور باقی پرندے کیوں نہیں بولتے؟میں اسے بتاتاہوں کہ بیٹا!طوطوں کواللہ نے کچھ الفاظ بولنے کی صلاحیت دی ہے، جب کہ باقی پرندوں کونہیں دی۔وہ پھر پوچھتاہے کہ ہمارے پاس تو ایک گھر ہے لیکن اس میں پرندوں کے11 گھونسلے کیوں ہیں؟میں اسے جواب دیتاہوں کہ جس گھر میں پرندوں کے گھرہوں،وہاں اللہ کی رحمت و برکت زیادہ آتی ہے۔
آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ جب آپ بچے تھے تب زندگی دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت آہستہ بھی گزررہی تھی لیکن جیسے جیسے آپ بڑے ہوتے گئے، ویسے ویسے زندگی کی رفتار بھی بڑھتی گئی اور آج آپ دیکھیں تو ہر شخص وقت کی تنگ دامنی کا شکوہ کرتا نظرآتاہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ وقت کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آیا۔آج بھی ایک سال میں 365دن ہوتے ہیں۔ایک دن میں 24گھنٹے، ایک گھنٹے میں 60منٹ اور ایک منٹ میں 60سیکنڈ ہوتے ہیں۔یہ ترتیب آج سے 50سال پہلے بھی یہی تھی بس ایک چیز کا فرق آیا ہے۔بچپن میں آپ کے اندر حیرت تھی، تجسس تھا اور ہر چیز کو جاننے اور سمجھنے کی خواہش تھی جو کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی۔
چناں چہ آج ہوا میں اُڑتے جہاز یاپتنگ میں آپ زیادہ دل چسپی نہیں لیتے۔درخت پر بیٹھے پرندے آپ کو اپنی طرف راغب نہیں کرتے اور سمندر میں تیرتی کشتیاں بھی آپ کو کچھ زیادہ متاثر نہیں کرتی۔آپ جلدی جلدی نئی چیزوں کی طرف بڑھتے ہیں اور اس وجہ سے آپ کو زندگی کی رفتار کافی تیز لگتی ہے۔
ہمارے معاشرے کے اکثر لوگ تجسس سے محروم ہیں۔آج آ پ کسی شخص کے سامنے کوئی نئی بات کریں تو وہ حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے منہ بنالیتاہے یاپھر کہتاہے، ہاں مجھے پتا ہے۔آپ کسی کوکوئی حیرت انگیز بات بتائیں تووہ جواب دے گا: ’’سانوں کی‘‘ (ہمیں کیا)‘‘یہ محض الفاظ نہیں بلکہ ہمارااجتماعی رویہ ہے اور اس رویے کااظہار آپ کو اکثر مقامات پر ملے گا۔
اسی وجہ سے ہمار ی قوم اپنے فرائض کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی۔ان الفاظ کے ذریعے ہم اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم اپنی آسانی کے لیے اپنا بوجھ دوسروں کے کندھوںپر ڈال دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔آج سے پانچ سو سال پہلے ’’تاریخ فرشتہ‘‘ کے نام سے برصغیرکی معاشرت پرایک کتاب لکھی گئی۔
اس میں مصنف نے لکھا ہے کہ یہاں کے لوگ اپنے گھر کا کوڑا اپنے گھر کے باہرپھینک دیتے ہیں۔اور یہ عادت آج بھی قائم ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں وبائیں بھی ایک مچھریا مکھی سے پیدا ہوتی ہیں کیوں کہ ہم صفائی کی ذمہ داری نہیں اٹھاتے۔
ہر وہ انسان جس میں بچوں جیسا تجسس ہو تو وہ زندگی سے بھرپور ہوتاہے۔تحقیق بتاتی ہے کہ متجسس انسان دوسروں کی بہ نسبت زیادہ خوش اور مطمئن ہوتاہے۔ایسے فرد میں پریشانی، تنائو اور فکریں کم ہوتی ہیں۔
ایک اور تحقیق کے مطابق تجسس والا انسان زندگی میں زیادہ کام یابیاں حاصل کرتاہے۔کیوں کہ وہ مسلسل جاننے کی کوشش کرتاہے اور اس عادت کی وجہ سے وہ دوسروں سے آگے بڑھ جاتاہے۔
تجسس والاانسان نئے لوگوں سے ملنا پسند کرتاہے۔ یہ تعلق اس کے اندر رحم دلی اور ہم دردی پیدا کرتا ہے اور وہ معاشرے کے تمام طبقات کو دوسرے لوگوں سے زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے لگتاہے۔
متجسس انسان کے تعلقات بھی زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔مثال کے طورپر ایک ڈاکٹر جب بھرپور دل چسپی اور تجسس کے ساتھ اپنے مریض سے حال احوال پوچھتاہے تو اس سے مریض کو اپنائیت کا احساس ہوتاہے اور اس کا ڈاکٹر پر اعتمادبڑھتاہے جس سے دونوں کا رشتہ مضبوط بن جاتاہے۔
بچوں کی دوسری صفت جلدی معاف کرنا اور بھول جانا ہے۔
آپ کابچہ گھر میں شرارت کررہاہے،آپ غصہ میں آکر اسے منع کرتے ہیں جس پر وہ ناراض ہوجاتاہے لیکن تھوڑی دیر بعد جب آپ اسے آواز دے کر بلاتے ہیں تو وہ ہنستے ہوئے آپ کے پاس آجاتاہے۔
معاف کرنے اور بھول جانے کی عادت جس انسان میں بھی ہوتی ہے وہ زندگی میں زیادہ پرسکون اور مطمئن ہوتاہے۔
لیکن افسوس کہ آج معاشرے میں انتقامی جذبات بڑھ رہے ہیں۔ہم دوسروں کی غلطیاں معاف نہیں کرتے بلکہ ایک لمبے عرصے تک اسے اپنے دل و دماغ میں رکھتے ہیں اور جیسے ہی موقع ملے تو اس شخص سے بدلہ لیتے ہیں۔رحم دلی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر بہت سی جسمانی و روحانی بیماریاں پیدا ہوچکی ہیں۔آج آپ کو 35سال کی عمر میں بھی ایسے لوگ ملیں گے جودل کے امراض میں مبتلا ہیں، جب کہ بہت سے لوگ بلڈپریشر اور شوگر کے مریض ہیں۔اس عمر میں یہ بیماریاں پہلے نہیں ہوتی تھیں لیکن آج عام ہوچکی ہیں۔کیوں کہ اب معاشرے میں حسد، کینہ اور انتقام بڑھ چکا ہے۔
یہاں آپ کوگاڑیوں کے پیچھے لکھا نظر آئے گاکہ ــ’’جلنے والے کا منہ کالا‘‘اور گدھاگاڑی کے پیچھے بھی لکھوایاجاتاہے:’’جل مت، کام کر‘‘جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں گدھاچلانے والے سے بھی حسد کیاجارہا ہے۔حال آنکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ بندے کے دل میںایمان اور حسد جمع نہیںہوسکتے۔(سنن نسائی: 3111)لیکن یہ سب ہونے کے باوجود بھی ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
میں نے حسد میں مبتلا ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو اپنے فوت شدہ رشتہ دار کا منہ دیکھنا بھی گوار ا نہیں کرتے۔ایسے لوگ انا سے بھرے ہوتے ہیں۔ان میں معاف کرنے کی صفت نہیں پائی جاتی اور کوئی شخص مر بھی جائے تب بھی یہ اُسے معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ایسے ہی لوگ پھر طرح طرح کی بیماریوں کا شکار نظر آتے ہیں۔
معاف کرنے اور بھول جانے والی عادت جوشخص بھی اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے تو اسے سب سے پہلا تحفہ یہ ملتاہے کہ وہ خود کو آزادمحسوس کرتاہے۔انتقام ایک بہت بڑا بوجھ ہے جس میں مبتلاشخص ہروقت اپنے دماغ پریہ بوجھ لیے پھرتاہے۔اس بوجھ کی وجہ سے اس کی سوچ منفی ہوجاتی ہے۔اس کا اطمینان ختم ہوجاتاہے۔وہ ہر وقت بے چینی کاشکار نظر آتاہے لیکن جیسے ہی وہ معاف کرتاہے تووہ اس بوجھ سے آزاد ہوجاتاہے۔
معاف کرنے کادوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے صحت بہترین ہوجاتی ہے۔تحقیق بتاتی ہے کہ جب کوئی انسان معافی والارویہ اختیار کرتاہے تو اس کا بلڈپریشر کنٹرول میں آجاتاہے، اس کا کولیسٹرول لیول بھی بہتر ہوجاتاہے، جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتاہے کہ ہارٹ اٹیک آنے کا امکان ختم ہوجاتاہے۔
معاف کرنے کا تیسرافائدہ یہ ہے کہ اس کی بدولت انسان ذہنی اطمینان حاصل کرلیتا ہے۔دوسروں کو معاف کرنے سے انسان ذہنی تنائو،بے چینی اورڈیپریشن جیسی خطرناک بیماریوں سے چھٹکاراپالیتا ہے۔
بچوں کی تیسری عادت مسکراہٹ ہے۔
بچہ فطری طورپر مسکراتاہے۔اس کی مسکراہٹ خود غرضی سے پاک ہوتی ہے۔اسی وجہ سے ہمیں بچے پیارے لگتے ہیں۔
چند دن پہلے کی بات ہے۔ڈرائیور چھٹی پرتھا اور میری بیٹی نے اسکول جاناتھا۔میں نے کہا چلو بیٹا آج میں آپ کو اسکول چھوڑآتاہوں۔راستے میں میں نے اسے اپنا موبائل فون دیا اور کہا، گوگل کے ذریعے معلوم کرو کہ انسان کے چہرے پر کتنےMuscles(پٹھے) ہوتے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد اس نے بتایا کہ انسانی چہرے پر اکیسMuscles ہوتے ہیں۔میں نے اسے شاباش دی اورکہا کہ اتنے زیادہ Muscles کی ورزش کا بہترین طریقہ مسکرانا ہے۔
زیادہ مسکرانے والے انسان کے چہرے کے یہ مسلز اچھی حالت میں ہوتے ہیں اسی وجہ سے اس کا چہرہ ہمیں تازگی سے بھرپور محسوس ہوتا ہے اور ایسا شخص جلدی بوڑھا بھی نہیں ہوتا۔
مسکراہٹ کی بدولت انسان کسی بھی مشکل ترین صور ت حال پر قابو پالیتا ہے۔آپ کا کسی کے ساتھ مسکرا کر ملنا، اس کے دل میں آپ کے لیے عزت بڑھالیتا ہے۔ آپ کی مسکراہٹ سے مخاطب انسان کی طبیعت خوش گوار ہوجاتی ہے اور آپ دونوں اپنے معاملات کو بہترین انداز میں بڑھا سکتے ہیں ۔
اگرایک بڑے ہال میں 100 لوگ موجود ہوں اور ان میں صرف ایک شخص مسکرارہا ہو تو آپ اس کی طرف اپناواضح جھکاؤ محسوس کریں گے۔ مسکرانے سے انسان کا اعتماد بڑھتاہے اوریہ اعتماد اس کی پیشہ ورانہ ترقی میں اہم کردارادا کرتاہے۔تحقیق بتاتی ہے کہ مسکرانے سے انسان کے معدہ کو خوش گواریت کاپیغام ملتاہے اور اسی وجہ سے ایسے شخص کانظام انہضام درست رہتاہے۔
یہ بھی انسان کی خصوصیت ہے کہ اللہ نے اسے Face Expression (چہرے کے تاثرات کا اظہار) کی صلاحیت دی ہے۔ یہ مسکراتاہے، قہقہے لگاتاہے اور روتا بھی ہے۔یہ نعمت دوسرے جان داروں کو نہیں ملی۔یہ بھی یادرکھیں کہ مسکرانے سے پیسے کم نہیں ہوتے،البتہ انسان کی اُمید بڑھ جاتی ہے۔دماغ میں موجود مثبت کیمیکلز کی سطح اوپر چلی جاتی ہے۔اس کی بدولت زندگی میں امکانات اور خوش حالی والی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں اور انسان مشکل حالات میں بھی مثبت، خوش اور پُرسکون رہتا ہے۔