مرکز کے خلاف سازشیں

Spread the love

مضمون: مرکز کے خلاف سازشیں

مدرسہ مدینۃ الرسول پیج کے شکریے کے ساتھ یہ ایک من جملہ مفید پوسٹ من و عن نقل کرکے نشر کر رہا ہوں۔ ساتھ ہی مضمون نگار کے لیے بھی دعا گو ہوں کہ ملت کو متحد و متفق دیکھنے والے ایسے لوگوں کو اللہ نظر بد سے بچائے۔

مرکز کے خلاف سازشیں:

ہندستان میں سواد اعظم اہل سنت وجماعت کو کمزور کرنے کے لیے ہمارے مخالفین نے ہم میں سے ہی کچھ کم علم ، نا اہل اور نہ کارہ لوگوں کو اپنا آلۂ کار بنا لیا ہے۔اور وہ ان سے اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے نام سے بریلوی مشین(بریلویت زدہ فرقہ وارانہ سرگرمیاں)چلوا رہے ہیں۔ جن کے چند مختلف طریقے ہیں۔(میرا حسن ظن یہ ہے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر الۂ کار نہیں بنے ہیں، بلکہ یہ سب غیر شعوری طور پر ہورہاہے- واللہ أعلم)

(١) یہ متأثر و مرعوب ذہن کے لوگ ہوتے ہیں، جو تسلسل کے ساتھ ہر موقع اور ہر پلیٹ فارم پر احقاقِ حق اور ابطال باطل کے نام پر مجادلات کا آغاز کرتے ہیں، اور اپنے قول و عمل، تحریر و قلم بلکہ ہر حرکات و سکنات سے ملت اسلامیہ کے پرخچے اڑاتے ہیں، دوریاں پڑھاتے ہیں، تلخیوں کو ہوا دیتے ہیں،نقب و عقب زنی کرکے امت میں انتشار کا سامان کرتے ہیں۔

(۲) اختلافی و فروعی مسائل ، بلکہ سماجی و فکری وچار میں بھی اپنی ممدوح شخصیت سے اختلاف کرنے والوں کو جب تک اہل سنت سے بلکہ دین و ایمان سے نکال نہ دیں، ان کی فتح کا آغاز ہی نہیں ہوتا۔مقابل کو پہلے عقیدت اور پھر عقیدے سے جوڑ کر جب تک ان کی تضلیل وتفسیق بلکہ انہیں جہنم رسید نہ کردیں وہ خود کو مسلک کا مجاہد ہی نہیں مانتے۔

(٣) یہ دراصل کم پڑھے لکھے لوگوں کا گروپ ہے جو اپنے آپ کو علامہ، مفتی ،محقق، سب کچھ کہلواتے ہیں،یہی لکھتے اور لکھواتے ہیں ۔ ساتھ ہی یہ لوگ بہت ہی ڈرپوک، خوفزدہ، معمولی روزگار والے ہوتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ اپنی ذلت ورسوائی کا کھٹکا لگا رہتا ہے، اور اس لیے یہ خالی ڈھول گروہ خود کو بلند دکھانے کے لیے معروف علماء و مشائخ کی غیبت و برائی کرتے رہتے ہیں۔ اور اپنی خودسرائی کے چکر میں وہ ملت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔ اور اپنی عاقبت کے تباہی تو اس پر مستزاد! العیاذ باللہ۔

(٤) یہ لوگ عشق رسول کا دم بھرتے ہیں جبکہ ان کا کام خلافِ سنت ہوتا ہے۔چند رپوں، اور معمولی ذاتی و سیاسی مفاد کے لیے یہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، ضرورت پڑنے پر تاویلات کے ذریعے دین کا قبلہ بھی اپنی طرف کرنے میں بھی یہ ماہر ہوتے ہیں، شریعت کی کوئی ایسی رخصت نہیں جو ان کے لیے نہ ہو اور اس کی کوئی ایسی عزیمت نہیں جو یہ دوسروں کے لیے تجویز نہ کریں۔ قول رسول أعظم: “بشروا ولاتنفروا” کا ٹھیک الٹا سمجھیں۔

رسول کونین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم جب کبھی کسی صحابی میں کوئی خرابی دیکھتے تو کبھی بھی ان کا نام لے کر عوام الناس کے سامنے اس کی اصلاح نہیں فرماتے۔ بلکہ یوں فرماتے کہ کیا ہو گیا ہے؟ کہ ہمارے لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسا ایسا کرتے ہیں۔ تو ایسا ویسا کرنے والے اپنی اصلاح کر لیتےتھے۔اور ان کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوتی تھی۔

جب کہ یہ لوگ رائے کو پہاڑ بناتے ہیں، بعض علماء و مشائخ کا نام لے کر ان پر بہتان تراشی کرتے ہیں جو کسی بھی صورت سے جائز نہیں۔ اور وہ حضرات ایسا کرکے صرف اور صرف اہل سنت کو توڑ کر کمزورکر رہے ہیں، اللہ تعالی کی پناہ!

(٥)آقائے کریم رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو گنہگاروں کی بھی عزت افزائی فرمایا کرتے تھے. بہت مشہور حدیث ہے۔ ایک صحابی جن سے شراب کی عادت نہیں چھوٹی تھی۔ وہ بار بار پکڑے جاتے اور انہیں سزا دی جاتی۔ایک دن ایک صحابی نے آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کا تذکرہ غلط جملوں سے کیا تو آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کہنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ: وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن یہ جھوٹے عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل ملاحظہ کریں۔

ابھی 10 محرم الحرام 1444ھ مطابق 9 اگست 2022 ء کو عرس علیمی کے موقع پر علامہ عبید اللہ خان اعظمی صاحب نے بہت عمدہ خطاب فرمایا۔ اہل ایمان ان کی تقریر سن کر بہت خوش ہوئے۔ جن میں عوام کے ساتھ و علماء و مشائخ بھی شامل تھے۔ لیکن مخالفین اہل سنت نے ان کے اس جملے کو”کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کو ولی عہد بنا کر غلطی کی تھی” کو توہین صحابہ سے جوڑ کر سوشل میڈیا کے ذریعے ان سے توبہ اور رجوع کا مطالبہ کرنے لگے۔

اور بعض لوگوں نے تو اور بھی بہت سارے الزامات ان پر عائد کرکے ان کی بائیکاٹ کا مطالبہ کرنے لگے۔ ایسا کرکے وہ اہل سنت کو مزید توڑنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اور ہمارے سیدھے سادھے سنی مسلمان انہیں عاشق ِ اعلی حضرت کہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں وہ لوگ بریلی شریف کی مرکزیت کو چھوٹا کر رہے ہیں۔

اگر بالفرض ان سے سبقت لسانی ہوئی بھی تھی۔ تو ہمارے اسلاف کا طریقہ رہا ہے کہ وہ وہیں اسٹیج پر ہی روک کر اصلاح کر دیتے تھے۔( ظاہر ہے ایسا کرنے کے لیے ہمت و جرأت کے ساتھ علم و بزرگی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ جو ہمارے ان بہکے ہوئے بھائیوں میں نہیں ہے)

کیوں کہ ان کا دفتر، علمی کارناموں سے خالی ہے۔ اور ان کی تنظیم و تحریک بھی دن بدن چھوٹی ہوتی جارہی ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے ان تمام علمی شخصیات کو جنہوں نے ضخیم جلدوں میں احادیث اور قرآن مقدس کی تفسیریں لکھی ہیں، کئی کئی جلدوں پر مشتمل تاریخ و سیر اور فقہ کی کتابیں لکھی ہیں،ان سب پر فتویٰ لگا کر ان کی علمی جانفشانیوں کو اپنی جہالت و نادانی کی وجہ سے صفر کر دیا ہے۔ ایسا ہی انھوں نے ان کی تحریکوں اور تنظیموں پر بھی گمراہی اور بے دینی کا فتوی لگا دیا ہے

جنہوں نے اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے تصانیف اور تحریکوں پر سیکڑوں کتابیں لکھی ہیں۔ بہت بڑے بڑے ادارے قائم کیے ہیں۔ ساتھ ہی ہزاروں مشائخ اور سجادہ نشینوں کو بھی یہ چند لوگ گمراہ اور بے دین کہتے ہیں۔ ان تمام کو جن پر ان لوگوں نے فتویٰ لگایا ہے، اگر الگ کر دیا جائے، تو بریلی شریف جو کبھی سواد اعظم کی شناخت تھی، سکڑ کر بہت چھوٹی ہو جائے گی۔

آخری بات سواداعظم مسلک اہل سنت کے تمام بزرگوں اور علما و مشایخ کے احترام و اکرام کے ساتھ پھر سے شیرازہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ملک گیر سطح پر اہل سنت کا ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے،جن میں خانقاہ رضویہ بریلی شریف کے سجادہ نشین ،اور مارہرہ کے سجادہ نشین کے ساتھ تمام خانقاہوں، اور تمام بڑے اداروں، اور مختلف جہت سے دین و سنت کے لیے کام کرنے والی تنظیموں، اور تحریکوں کو بھی شامل کیا جائے۔ اور فروعی و قدیم اختلافی مسائل و اختلافی عناصر کی لسٹنگ کرکے ہمیشہ کے لیے انہیں Banned کردیا جائے، اور فقہی پارلیمنٹ میں انہیں unparliamentary affairs تسلیم کرلیا جائے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ تو سواد اعظم اہل سنت کے ٪90 فیصد لوگوں کا اتحاد ہوجائے گا۔ اور وہ جو دس فیصد رہ جائیں گے. ان شاءاللہ

ہم مثبت فکر کے ساتھ انہیں بھی ساتھ لانے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے کہ وہ بھی ہمارے ہی ہیں۔ جب صد فیصد دنیا دار خود غرض ،مختلف الخیال سیاسی پارٹیوں میں اتحاد ہو سکتا ہے تو ہم للہٰیت کے ساتھ اپنی دنیا و آخرت کی حفاظت وہ بقا کے لیے کیوں نہیں متحد ہو سکتے؟

اور اس کے لیے بس صرف ایک اسلامی اصول کافی ہے۔ کہ اختلافی مسائل میں جو جس کو جیسا صحیح سمجھتے ہیں، عمل کریں، لیکن دوسروں کو بالجبر اپنی بات منوانے کی کوشش نہ کریں اور جہاں تک دوسروں کی غلطیوں پر انگشت نمائی کی بات ہے تو اس کا جواب وہ اسلامی فکر و دینی مزاج ہے جو ایک بندۂ مومن کو اپنی خود احتسابی میں خود کو سب سے بڑا مجرم گرداننے پر مجبور کرتا ہے، وہ خود کو سب سے بڑا خطاکار، گناہ گار، قابل معافی، قابل رحم اور عاجز سمجھتا ہے، اور ہمیشہ اپنے مقابلے میں دوسروں کے صحیح ٹھہراتا ہے۔ وہ اللہ سے صحیح معنوں میں ڈرتا ہے۔ وہ ہمیشہ “بین الیأس والرجاء” کی زندگی جیتا ہے، اللہ کی رحمت سے بڑی امیدیں اور اس کے عدل سے ڈرا سہما سا رہتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مقدس میں عیب جوئی اور عیب گوئی کوسختی سے روکا ہے۔

محمد شہادت حسین فیضی

9431538584

2 thoughts on “مرکز کے خلاف سازشیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *