ہماری محتاجی ہی ہمارے لیے باعث بربادی ہے
ہماری محتاجی ہی ہمارے لیے باعث بربادی ہے
دنیاکے قیام سے لے کر آج تک اس عالم میں ایسی لاکھوں کروڑوں قوموں کا گزر ہو چکا ہے جن میں سے بہتوں کے بارے میں تو انسانوں کو پتا بھی نہیں ہے مگر یہاں ان سب قوموں کے کامیاب ہونے میں ایک ہی چیز خاص ہے اوروہ یہ کہ جن قوم کے خیالات جتنے عمدہ ہوتے ہیں ان کے اعمال اور ان کی خدمات بھی اتنی لا مثیل ولا نظیر ہوتی ہیں ۔
یاد رکھئے جو بھی قوم اپنے اور اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتی تو اسکا زوال شرو ع ہو جاتا ہے اور پھر وہ تباہ وبرباد ہو جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کانام تک باقی نہیں رہتا جس کی کئی مثالیں ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹنے سے معلوم ہو جائیں گے ۔
آج ہم دین ِ اسلام کے ماننے والے خاص طور پر جو ایشیائی ممالک میں وقوع پذیر ہیں ،کہیں نہ کہیں ہر میدان میں کسی نہ کسی کے محتاج نظر آتے ہیں کہیں پڑھائی میں تو کہیں کمائی میں،کہیں بزنس میں تو کہیں کام میں
کہیں ترقی میں تو اڑان میں اور کہیں کسی میں تو کہیں کسی میں بہر حال آج کے اس موجودہ دورمیں ہم ہر کام میں کسی نہ کسی کے محتاج ہیں اورہماری یہی محتاجی ہمیں ذلت وخوار ہونے کے اور لے جاتی ہے اورہم ہیں کہ ابھی بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہے یا د رکھئے اگر معاملہ یوں ہی رہا اور آنے والے دنوں میں ہماری حالت نہیں بدلی تو ہمیں بہت بڑا اور عظیم خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔ ایک شعر ہے
’’ سب سے گندی چیز ہے کوئی تو وہ محتاجی ہے …
سب سے اچھی چیز ہے کوئی تو وہ دلسازی ہے ‘‘
یہ شعر بھلے ہی اس قدر مزے کی نہیں ہے مگر اس کا مفہوم ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا سکتا ہے شاید ہمیں اس کا علم ہی نہیں ہے۔یہ ایک مسلم اور مجرب حقیقت ہے کہ جب کوئی بھی شخص کسی کام کے لیے کسی کا محتاج ہو جاتا ہے تو اسے اس قدر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اب وہ چیز حاصل نہیں ہونے والی ۔
آپ فرض کریں آپ کو آئی فون کا نیا موڈل فون لینا ہے اور آپ بہت ہی بے صبری سے اس گھڑی کا انتظار کر رہے ہیں جب آپ کے ہاتھوں میں وہ چمکتا ہوا آئی فون آئے گا مگر پھر آپ کو یاد آئے کہ ارے میں یہ فون لوں گا تو کیسے؟
مجھے اتنے پیسے کون لاکر دے گا ؟ آخر یہ فون مجھے کیسے حاصل ہوگا ؟اس کے لیے تو مجھے اپنے ابو سے التجا کرنی ہوگی …مگر پھر آپ کو یاد آئے ارے یار میرے ابو تو ہیں ہی نہیں ،ان تو پانچ سال پہلے ہی انتقال ہو گیا ہے اور میری تو اتنی عمر بھی نہیں ہے کہ میں پیسے کماؤں ابھی تو میں پڑھائی کر رہا ہوں …
ارے ہاں …میرے چاچا ہیں نہ ،میں انہیں بولتا ہوں شاید وہ مجھے یہ فون لے کر دے دیں پھر آپ نے اپنے چاچا سے اس چاہت کا اظہار کیا جس پر آپ کے چاچا نے منع کر دیا اور آپ مایوس ہو کر لوٹ آئے اور صرف اور صرف یہ سوچتے رہے کہ کاش میرے ابو جان آج باحیات ہوتے تو مجھے کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا …
اب آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں کہ محتاجی ایک ایسی شئی ہے جس سے ہر کوئی کتراتا ہے اور دعا کر تا کہ اللہ ہمیں محتاجی کی زندگی سے بچائے ۔پس محتاجی ایک دل جلانے والی چیز کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔
دو دن پہلے کی بات ہے اتر پردیش کے ضلع مظفر نگر سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جہاں ایک اسکول جہاں پر ہندو مسلمان اور دیگر مذاہب کے چھوٹے چھوٹے طلباء زیرِ تعلیم ہیں وہیں پر ایک کلاس کے درمیان ایک خاتون ٹیچر نے ایک چھوٹے مسلم لڑکے کو کلاس میں کھڑا کیا
اور پھر دوسرے ہندو بچوں یہ سکھایا کہ سب لوگ ایک ایک کر کے اس مسلمان لڑکے کے گال پر طمانچہ مارو جس ویڈیو کو دیکھنے کو بعد ایسا ہی محسوس ہوا کہ جیسے ہمارے سب سے بڑے جمہوری ملک ہندوستان کی جمہوریت کا کھلے عام جنازہ نکال دیا گیا ،سرِ عام اس بات کا مظاہرہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی اس دیش میں کوئی جگہ نہیں ،مسلمان اس ملک میں رہنے کے قابل نہیں ہیں ،مسلمان محکوم اور ہندو حاکم ہیں ،اس میں کبھی بھی مسلمانوں کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جائے گا ۔
ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد یکے بعد دیگرے اخباروں میں اس خبر کو چھاپا گیا اور لوگوں کے ذہن کو اور بھی مضبوط بنا دیا گیا کہ ملک میں مسلمانوں بہت خطرہ ہے اور یہ ایک حد صحیح خبر ہے ۔ یہاں ان سب باتوں کو سننے کے بعد ہمیں کچھ ہو یا نہ ہو مگر ایک بات کا احساس ضرور ہونا چاہئے کہ ہمارے ملک میں اب ہمیں کچھ ایسے اقدامات اٹھانے ہونگے جو ابھی تک کسی نے نہیں اٹھا یا اور اگر اٹھایا بھی ہے تواتنی مقدار میں کسی کو اس کی خبر نہیں ۔
سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آنے والے دنوں میں حالات اور بھی کشیدہ ہو سکتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ فرقہ وارانہ تنازعات وتعصبات دن بدن روز بروز بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔
اب ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ چھوٹے بچے جنہیں مذہب کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا ہے وہ تو اسکول بس اس لیے جاتے ہیں تاکہ انہیں علم مل سکے اب وہ چاہے دینی ہو یا دنیاوی یہ تو ماں باپ کے انتخاب پر منحصر ہے ۔
مگر جب انہیں اس طرح سے اسکولوں میں مصائب کا سامنا کر نا پڑے گا تو بھلا کون ہوگا جو اپنے بچوں کو اسکول میں( وہ ایسے اسکول میں جہاں ہندو مسلم ایک ساتھ پڑھائی کرتے ہوں)کون بھیجے گا ؟
کیا انہیں اس بات کا کوئی خوف نہیں ہوگا کہ آج جو دوسرے بچے کے ساتھ سلوک کیا گیا ہے کل کو ان کے بچوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ؟
حادثات تو ہو جاتے ہیں مگر ان حادثات کا اثر اتنا گہرہ ہوتا ہے کہ اسے صدیا ں لگ جاتی ہیں بھر جانے میں مگر اس وقت کوئی فائدہ نہیں ہو …
یاد رہے اب ہر مسلمان ماں باپ اپنے بچوں کو کسی بھی ایسے اسکول میں پڑھانے سے کترائیں گے اور ان کا یہ کترانا جائز بھی کیونکہ ماں باپ سے زیادہ اپنے بچوں کو بھلا کون چاہتا ہے !۔
آج یہ واقعہ مظفر نگر میں پیش آیا ہے کل کو یہ ہندوستان کے دوسرے شہروں میں بھی پیش آسکتا ہے تو آخر اس کا علاج کیا ہے ؟ کیا حل ہے ان مسائل کا ؟ مسئلہ تو کوئی بھی ہو ان کا حل ضرور ہوتا ہے بھلے وہ بہت مشکل ہو ۔
جس ہندوستان میں جگہ جگہ فرقہ واریت کی لہریں اپنے ارتفاعی مقام کو چھونے کو ہیں وہیں پر ملک میں ایک ایسی ریاست بھی ہے جہاں نہ تو مذہبی تشدد ہے نہ تو دشمنی ہے اور نہ ہی آہ وفگاں کے اثرات کو نکلنے یا اٹھنے کی اجازت ۔ہندوستان کی ریاست کیرلا جس کو ملک کا سب زیادہ پڑھا لکھا صوبہ مانا جاتا ہے یہاں کا تعلیمی اتنا عمدہ ہے کہ کبھی کسی کو اس مسئلے میں وقت کا ضیاع ہی نہیں کرنا پڑتا ہے ۔
یہاں جس طرح سرکاری اسکول ہوتے ہیں اسی طرح مدارس بھی ہوتے ہیں جس طرح اسکول میں دینی ودنیاوی تعلیم دونوں پڑھائے جاتے ہیں اسی طرح یہاں مدارس اسلامیہ میں بھی دینی ودنیاوی دونوں ہی تعلیم بہت ذوق وشوق سے پڑھائے جاتے ہیں
اور اس سے بھی بڑی بات یہاں پر ماہانہ رقم جمع کر نے کی بھی اس قد ر حاجت نہیں ہوتی ہے انہیں چند اصول وضوابط کی وجہ سے یہاں کے لوگوںمیں پڑھائی کو لے کر ایک حد تک سنجیدگی پائی جاتی ہے اور انہیں یہی سنجیدگی کامیابی اور ترقی کی اور لے جاتی ہے جس کی کوئی مثیل نہیں ۔
در اصل ابھی بھی اتنا وقت نہیں گزرا ہے کہ ہم چاہ کر بھی کچھ نہ کر پائیں ۔بقول ِ شاعر ’’ابھی بھی وقت باقی ہے سنبھل جاؤ مسلمانوں‘‘کیونکہ اگر ہم نے آج بھی کچھ نہ کیا تو شاید یہ اور بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا کہ ہم کچھ کر سکیں اور اپنی پریشانیوں کا کوئی حل نکالیں ۔
ہمیں ایک بات کا خاص دھیان رکھنا ہے کہ آخر ہم اپنے بچوںکو کسی ایسے اسکول میں کیوں نہ ڈال دیں جہاں دینی ودنیاوی دونوں تعلیم پڑھائی جاتی ہو اور وہاں کوئی غیر مسلم بھی نہ پڑھتا ہو (یہ کوئی عصبیت والی بات نہیں کہ کوئی اس پر اعتراض قائم کر) مگر ہمیں ایسے اسکول ملیںگے کیسے؟
ایسے اسکول تو شاید ہندوستان میں بہت کم ہیں اور ہیں بھی تو وہاں پر کوئی خاص تعلیمی توجہ نہیں دی جاتی جس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں ۔ممبئی جیسے شہر میں ہمیں ایسے بہت سے کالیج یا بہت سی اسکول ملیںگیں جہاں پر صرف اور صرف مسلمان کے بچے پڑھنے آتے ہیں اور پڑھ کر امن وسلامتی کے ساتھ اپنے گھر لوٹ جاتے ہیں ۔
ہمیں اپنے اسکول خود ہی بنانے ہوں گے ،ہمیں اپنے تعلیمی نصاب خودہی تیار کرنے ہونگے ،ہمیں اپنی زندگی کی راہیں خودہی ہموار کرنی ہوگی ،ہمیں اپنے نظام کے مطابق اپنے تعلیمی اداروں کو خود ہی بنانا ہوگا ورنہ کوئی بھی ہمیں عزت واحترا کی نظر سے نہیں دیکھے گا ۔
اگر ہمیں ذلت ورسوائی یہ بوجھ اپنے سرسے ہٹانا ہے تو ہمیں خود کی زندگی کا نظام خودہی سدھارنا ہوگا اور یہی واحد ایک راستہ رہے جس سے ہمیں کوئی ذلیل وخوار نہیں کر سکے گا ،یہی ایک راستہ ہے جس سے ہم اپنی آبرو کو بچا کر رکھ سکتے ہیں ۔
کہنے کی بات اتنی سی ہے کہ چاہے کوئی بھی بات ہو ،کوئی بھی کام ہو ہمیں اب خود ہی اس کو ہموار کرنا ہوگا ورنہ کوئی بھی ہماری مدد کے لئے نہیں آنا بقول شاعر ’’پھر ابابیل کے لشکر نہیں آنے والے ‘‘ ۔ہ
میں اب کسی بھی چیز کے لئے غیروں کا محتاج نہیں رہنا ہے اوراس کے لئے ہمیں حتی الامکان کوشش کرنی ہے پھر چاہے ہمیں کچھ بھی کرنا پڑے ،چاہے کتنی بھی مشکل راہ سے گزرنا ہو ۔یاد رہے یہ ذلت وخواری کے ایا م یوں ہی برقرار رہنے والے ہیں۔
لیکن اگر ہم اپنا انتظام خود کرلیں تو شاید اس بات کافی حد تک آرام میسر ہو سکتا ہے ۔ان سب باتوں میں خاص بات تعلیم کی ہے کیونکہ جب پڑھے گا تبھی تو بڑھے گا ورنہ کوئی ترقی کی سیڑھی پہ کیا خاص چڑھے گا ۔ایک بات ذہن نشین کرلینا ہے کہ اب جو بھی خود اختیار بننا ہے نہ کہ کسی کا محتاج کیونکہ محتاجی تو صرف ذلت ورسوائی کا باعث ہے اور کچھ نہیں !۔
سیف علی شاہ عدمؔ بہرائچی
متعلم جامعہ دارالہدی الاسلامیہ