مسلمانوں کی آبادی سے متعلق کئی مفروضے پھیلائے گیے

Spread the love

مسلمانوں کی آبادی سے متعلق کئی مفروضے پھیلائے گیے : ایس وائی قریشی

نئی دہلی (یو این آئی ) مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کے مفروضہ کو اعداد و شار کی روشنی میں مسترد کرتے ہوئے سابق چیف الیکشن کمشنر شہاب الدین یعقوب قریشی نے کہا کہ آبادی بڑھنے کی وجہ غربت، جہالت اور بے روز گاری ہے ۔

یہ بات انہوں نے گزشتہ دیر رات اپنی کتاب دی پاپولیشن متھ پر منعقدہ گفتگو میں پرزنٹیشن پیش کر تے ہوئے کہی ۔

اس کا اہتمام سینئر علیگز کر یٹیوفورم نے کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جوں جوں شرح تعلیم میں اضافہ ہوا اور غربت میں کمی آئی شرح پیدائش کم ہوتی گئی۔

انہوں نے کہا کہ مسلمان پہلے 45 فیصد خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرتے تھے جب کہ ہندو 54 فیصد اور مسلمانوں میں شرح پیدائش 2.61 فیصد تھی جب کہ ہندوؤں میں 2.13 فیصد ۔ دونوں کی شرح پیدائش میں معمولی فرق ہے ۔ جب کہ پورے ملک میں یہ مفروضہ پھیلا یا گیا کہ 2029 میں مسلمان ہندوستان میں اکثریت میں آ جائیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ 1990 میں مسلمانوں میں شرح پیدائش کم ہوکر 1.1 فیصد رہ گئی جب کہ ہندوؤں کی اس سے کچھ ہی کم ہے ۔

انہوں نے کہا کہ 1951 میں جہاں ہندوؤں کی آبادی 26 کروڑ تھی وہیں 80 کروڑ سے زائد ہے ۔

انہوں نے مسلمانوں پر تعدداد ازدواج (ایک سے زائد شادی کے الزام کومسترد کرتے ہوئے اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا کہ 15.2 ہندو ایک سے زائد شادی کرتے ہیں جب کہ بدھسٹ 9.70 فیصد اور مسلمانوں میں ایک سے زائد شادی کرنے کی شرح محض 5.75 فیصد ہے ۔

انہوں نے کہا کہ آبادی بڑھنے اور زائد بچے پیدا کرنے کا تعلق تعلیم ، غربت، بے روزگاری اور طبی سہولت کے فقدان سے ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کیرالہ سماجی اور طبی سہولت کے لحاظ صف اول کی ریاستوں میں شمار ہوتا ہے اس لیے وہاں شرح پیدائش 1.56 فیصد ہے جب کہ بہار اور اس جیسی ریاستوں میں شرح 3.41 فیصد ہے ۔

یہاں ہندو اور مسلمان دونوں ایک ساتھ دوش بدوش ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح دولت مند 1.6 فیصد بچے پیدا ہوتے ہیں جب کہ غریب گھرانے میں 3.2 فیصد ہوتے ہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زائد بچے پیدا ہونے کا تعلق مذہب سے نہیں ہیں امیر،غریب تعلیم ، جہالت اور بے روزگاری سے ہے ۔

حکومت ہند کے سابق جوائنٹ سکر یٹری خواجہ شاہد نے کتاب کے حوالے سے کہا کہ اس کتاب کو ہندو مسلم کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے ۔ زائد بچہ پیدا ہونا ایک قومی مسئلہ ہے اور اسے قومی مسئلے کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں دیئے گئے اعداد وشمار اور مشورے سے آبادی کو کنٹرول کرنے اور خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کرنے میں مدد ملے گی ۔

انہوں نے کہا کہ کیرالہ خاندانی منصوبہ بندی سب سے کام یاب ہے ۔ سیاست دانوں اور پالیسی سازوں کو اس پر توجہ دینی چاہیے ۔ رکن پارلیمنٹ کنور دانش نے کہا کہ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے یہ کتاب میرے معلومات میں اضافہ کرتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *