تنگ ہوتی زمین بند ہوتے راستے
تنگ ہوتی زمین بند ہوتے راستے
ملک پر حکومت کرنے کے لیے جب این ڈی اے اور انڈیا جیسے محاذ قائم ہو سکتے ہیں تو قوم کی بقاء، مسلمانوں کے وقار، اس کی عزت و آبرو کی حفاظت اور حکومت میں واجب حصہ داری کے لیے کیا ہمارے رہنما سیاسی جماعتوں کے حدود کو پار کر ایک جگہ ساتھ بیٹھ نہیں سکتے ہیں؟
ظلمت شب کو مٹاؤ بہت اندھیرا ہے
چراغ فکر جلاؤ بہت اندھیرا ہے
ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی رواداری خطرے کے نشان کو تجاوز کرنے لگی ہے۔ وہ یوں کہ ہم تو ملک میں گنگا جمنی تہذیب کا حوالہ دیتے ہیں، اسے مستحکم کرنے کی سمت میں کام کرتے ہیں
لیکن ملک دشمن عناصر اسے پامال کرنے کا ایک بھی موقع نہیں چھوڑتے ہیں۔ ان کی تاریخ پرانی ہے، یہ انگریزوں کی چاٹوکاری کرتے رہے اور اپنی زمین مضبوط کرنے کے لیے بھگوا رنگ کا استعمال کرنے لگے۔ لیکن آزادی کے بعد سے نہ صرف یہ ملک آئینی طور پر سیکولر بنا بلکہ ہندوستان کے عوام کا مزاج بھی سیکولر رہا جس کی وجہ سے اسے تخریب کاری کا موقع نہیں مل سکا۔
کانگریس کی چھوٹی سی چوک، کہ بابری مسجد میں اس نے 1949 میں مورتی (بت) رکھنے کا موقع دے دیا
انہیں ایک بڑا ثبوت اور ایک بڑا ہتھیار مل گیا اور 1949 میں جس سفر کی شروعات ہوئی وہ 22 جنوری 2024 کو پایۂ تکمیل کو پہنچا۔ ہندووادی رہنما ملک کو ہندو راشٹر کا دستوری حیثیت دینے کی وکالت کر رہے ہیں جس کا ساری مسلم و سیکولر تنظیمیں مخالفت کر رہی ہیں، لیکن عملی و ظاہری طور پر ہندوستان ہندو راشٹر دکھائی دینے لگا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک مرتبہ مظفر پور بہار کے رام کرشن مشن کے سیکریٹری نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ہندو راشٹر کے اعلان کی سازگار فضا قائم ہے۔ اس کی شکایت ہم نے پروفیسر ڈاکٹر والمیکی سے کیا جو کالج آف کامرس، پٹنہ میں ہیں اور سوامی وویکا نند کے خیالات و نظریات سے کافی متاثر ہیں، ان سے اس بات کی شکایت کی کہ آپ چھپڑہ و پٹنہ ضلع میں رام کرشن مشن میں کافی متحرک ہیں
یہاں سبھی ذات و مذاھب کے لوگ علاج کے لیے آتے ہیں، آشرم انسانی خدمات کے شعبہ میں بہتر کام کر رہا ہے ایسے میں سوامی جی کا بیان؟
انہوں نے صاف کہہ دیا کہ یہ میڈیا کی گڑبری ہے۔ میں نے کہا کہ آپ پلہ نہ جھاڑیں بلکہ یہ تصور کریں کہ یہی بات اگر محمد رفیع کچھ یوں کہا ہوتا کہ ملک کو مسلم راشٹر بنانے کا اعلان کرنے کا یہ معقول وقت ہے تواس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ ان باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ اسے کچھ بھی کہنے اور کرنے کی پوری آزادی ہے اور ہمارے بولنے پر وہ آسمان سر پر اٹھا لیں گے اسی لیے کسی نے کیا خوب کہا کہ
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتا ہے تو چرچا نہیں ہوتا
دوسری مرتبہ جب 2019 میں بھاجپا انتخاب میں کامیاب ہوئی تو اس کے تمام چھپے ہوئے ایجنڈے سامنے آگئے۔ آرٹیکل 370 تو پہلے ہی منسوخ ہو چکا تھا، مندر، مسجد، یونیفارم سول کوڈ جیسے سنجیدہ معاملے وغیرہ ظاہر ہونے لگے، سی اے اے اور این آر سی کا بھوت ابھی زندہ ہے۔ رام کو بیچنے میں بھاجپا کامیاب ہوئی، اس کے نام کی ایسی مارکٹنگ ہوئی کہ ہر خاص و عام ایک ہی جھنڈا، بھگوا جھنڈا کے نیچے متحد ہو گیا۔
ہندووادی تنظیموں اور ہندووادی رہنماؤں کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ آزاد ہندوستان میں وہ مسلمانوں کی حیثیت دوئم درجہ کے شہری کی سی کردیں۔ قانونی طور پر یہ قریب – قریب ناممکن ہے لیکن عملی طور پر یہ ممکن ہو چکا ہے۔ آپ کے ساتھ ماب لنچنگ ہوتا ہے، راستے میں گھیر کر زبردستی آپ سے جئے شری رام کے نعرے لگوائے جاتے ہیں، ڈر سے آپ شکایت نہیں کرتے کیونکہ شکایت پر انصاف کم اور کاروائی کا خطرہ زیادہ ہے۔
افسوس ہمارے ہمارے تعلیمی اداروں پر بھی ان کی نگاہیں ہیں، ایسی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ ہندوستان سے مدارس کے وجود کو ختم کرنے کے لئے عدالت میں روزانہ ڈھائی گھنٹے بحث چل رہی ہے۔ اور تاریخی یونیورسٹی، سرسید احمد خاں کی وراثت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار خطرے میں ہے، اس سلسلے میں بھی معاملہ عدالت میں چل رہا ہے۔
وہیں ہندووادی رہنما صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ ایودھیا لیا، گیان واپی لیا، دیکھتے جاؤ، جہاں جہاں خدا ہے وہاں وہاں کھدے گا، بابر کے بعد اب اورنگزیب کی باری ہے، اس بیچ اورنگزیب کے آگرہ میں بنائے مسجد پر دعوہ کیا جانے لگا ہے، اس سلسلے میں محکمئہ آثار قدیمہ نے ایک آر ٹی آئی کے جواب میں دعویٰ کیا ہے کہ آگرہ میں مندر توڑ کر اورنگزیب نے مسجد کی تعمیر کرائی تھی
اسی جگہ پر شاہی مسجد آگرہ کی تعمیر ہوئی ہے۔ مسلمان غفلت میں ہیں، ساری پلاننگ اسی کے خلاف ہے اور وہ بدگمانی کا شکار ہے۔ ابھی این آر سی آنا باقی ہے، آشفتہ چنگیزی نے کیا خوب کہا ہے
پہلے ہی کیا کم تماشے تھے یہاں
پھر نئے منظر اٹھا لایا ہوں میں
کسی بھی قوم کا وجود اس کی زبان، اس کی تعلیم اور اس کے تعلیمی نظام پر منحصر کرتا ہے اور جب وہ متاثر ہو جائے تو وہ قوم کہاں ٹھہرے گی اس کا اندازہ خوابوں، خیالوں سے بالاتر ہے۔ مدارس اسلامیہ دینی تعلیم کا مرکز ہے لیکن اس پر بھی ظالموں کی نظر ہے۔ عدالت کسی ایک جزء پر بات نہیں کر رہی ہے، وہاں دینی تعلیم کے تمام دروازے بند کرنے پر بحث ہو رہی ہے
مثلاً مدارس میں جو عصری علوم کی کتابیں ہیں اس کو غیر سند یافتہ حضرات یعنی علماء کیسے پڑھا سکتے ہیں۔ چودہ سال تک کے تمام بچوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنا لازمی ہے اور ترمیمی ایکٹ کو ختم کیا جانا چاہئے۔
جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ صباحی یا مسائی تعلیم کے ذریعہ دینی تعلیم کا سلسلہ قائم رکھ سکتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ پچھلے دنوں ہی قانون نافذ ہوا ہے کہ پندرہ سال کے نیچے کے بچوں کو کوچنگ یا ٹیوشن دینا جرم ہوگا یعنی یہ راستہ بھی بند ہوچکا ہے
اور سرکار نے تعلیمی اداروں کے لیے بھی نیا نصاب جاری کر دیا ہے یعنی ہم اپنے پرائویٹ اسکولوں میں بھی دینی تعلیم دینے کے لیے آزاد نہیں ہوں گے۔ اس طرح صرف مدرسہ بورڈ کے مدارس نہیں بلکہ غیر سرکاری مدارس بھی نشانے پر ہیں۔ وہیں دوسری جانب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا معاملہ بھی کافی سنجیدہ ہے۔
عدالت عظمی میں اس کی اقلیتی حیثیت پر سوال کھڑے کئے گئے ہیں اور بحث ہو رہی ہے، عدالت کے وکلاء کے بیان اور عدالت کا رخ تشویشناک ہے۔ مودی حکومت اور اس کی معاونین تنظیموں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں صرف مسلمان ہی وائس چانسلر کیوں ہوتے ہیں؟، یونیورسٹی کے اساتذہ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کیوں ہے؟
بڑی تعداد میں، حجاب میں اور محفوظ ماحول میں مسلم لڑکیاں تعلیم حاصل کیسے کر رہی ہیں؟
اسی طرح کا معاملہ تاج محل آگرہ میں ہونے والے عرس کو لے کر بھی سامنے آیاہے۔
آگرہ شہر کے مورخ راج کشور راجے کی طرف سے دائر کی گئی آر ٹی آئی کی بنیاد پر مقدمہ دائر کی گئی ہے۔ آر ٹی آئی میں انہوں نے اے ایس آئی سے پوچھا تھا کہ تاج محل احاطے میں عرس منانے و نماز پڑھنے کی اجازت کس نے دی؟
اے ایس آئی نے جواب دیا کہ تاج محل میں عرس منانے کی اجازت نہ تو مغلوں نے دی تھی، نہ برطانوی حکومت نے اور نہ ہی حکومت ہند نے۔ اکھل بھارتی ہندو مہاسبھا نے نہ صرف عرس منانے پر پابندی کی مانگ کی ہے بلکہ عرس کے دن مفت داخلے کو بھی چیلنج کیا ہے۔ عدالت نے مخالفین کی عرضی کو قبول کر لی ہے۔
ادھر باغپت میں صوفی شیخ بدرالدین کی درگاہ کی زمین کا مالکانہ حق 53 سالوں کے لمبی سنوائی کے بعد ہندو فریق کو دے دیا گیا ہے۔ ہندو فریق کا دعوی ہے کہ یہ درگاہ نہیں ہے بلکہ یہ لکچھا گرہ ہے۔ فراق گورکھپوری نے کیا کہا ہے
شب سیاہ میں گم ہو گئی ہے راہ حیات قدم سنبھل کے اٹھاؤ بہت اندھیرا ہے ہماری عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے، روزگار کے مواقع، دستور ہند کے مطابق حاصل اظہار خیال و اپنے مطابق مذہب کو ماننے کی آزادی، سب خطرے میں ہے۔ ہمارے علماء، ملی و سماجی رہنماؤں میں اس کو لے کر شدید بے چینی ہے وہ حکومت کی تمام غیر منصفانہ، غیر دستوری فیصلوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔
اب تو وزیر اعظم نریندر دامودر داس مودی رام مندر کے افتتاح کے بعد سے اعتماد سے اتنے زیادہ لبریز ہیں کہ انہوں نے صاف لفظوں میں یہ اعلان کر دیا ہے کہ جب تیسری مرتبہ، یعنی 2024 میں ان کی حکومت بنی تو وہ بڑے فیصلے لیں گے۔
یہ بیان صاف صاف اشارہ کرتا ہے کہ وہ ہندوستان کے آئین کو بدلیں گے، یونیفارم سول کوڈ لاگو کریں گے جسے ابھی اتراکھنڈ میں نمونہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، بھارت کو ہندو راشٹر کا دستوری حیثیت دیں گے اور مسلمانوں کو دوئم درجہ کا شہری بنا کر اس کے تمام حقوق سلب کر لئے جائیں گے۔
ہمارے علماء نے ہندوستان کی آزادی کے لئے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک وقت تھا جب دلی کا شاید ہی کوئی ایسا درخت رہا ہوگا جس پر کسی عالم کو نہ لٹکایا گیا ہو۔ لیکن ہمارے سیاسی رہنما کن خوابوں و خیالوں میں مصروف ہیں۔ جب تخت ہی نہ ہوگا تو پھر تاج کون پہنے گا۔
نہ تخت و تاج نہ دولت کا تذکرہ پڑھ کر
جواں ہوا میں محبت کا قائدہ پڑھ کر
ملک پر حکومت کرنے کے لیے جب این ڈی اے اور انڈیا جیسے محاذ قائم ہو سکتے ہیں تو قوم کی بقاء، مسلمانوں کے وقار، اس کی عزت و آبرو کی حفاظت اور حکومت میں واجب حصہ داری کے لیے کیا ہمارے رہنما سیاسی جماعتوں کے حدود کو پار کر ایک جگہ ساتھ بیٹھ نہیں سکتے ہیں؟ ایسا جس دن ہوگیا قسم خدا کی نظارہ بدل جائے گا اور ان رہنماؤں کے وقار بھی بلند ہو جائیں گے۔
آج اجتماعی مفاد پر ذاتی مفاد حاوی ہے۔ وہ چاپلوسی اور ذلت کی زندگی جینے کو مجبور ہیں، اس سلسے میں بہت ہی مشہور کہاوت ہے کہ گیدر کی 100 سو سالہ زندگی سے بہتر شیر کی ایک دن کی زندگی ہے۔ علماء کرام ہمارے لیے بہترین اثاثہ ہے، وہ تیار ہیں، ان شاء اللہ ان کی فکر ہی ہمارے لیے کافی ہے، ان شاء اللہ ہم ضرور کا میاب ہوں گے۔
محمد رفیع
7091937560