اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم نہیں کر رہا ہے

Spread the love

اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم نہیں کر رہا ہے ؟

مشرف شمسی 

غاصب اسرائیلی فوجیوں کی سترہ سال سے محصور غزہ کی رہائش گاہوں پر مسلسل حملے جاری ہیں۔اسرائیلی غصّے میں ہے کہ فلسطینیوں کی جائز نمائندگی کرنے والے حماس کی فوجی ونگ ال اقصٰی بریگیڈ نے دنیا کی سب سے مضبوط خفیہ ایجنسی موساد کی نگاہ سے بچ کر اسرائیل کے اندر گھس کر اتنا بڑا حمله کیسے کر دیا ؟۔

اس حملے میں اب تک ایک ہزار سے زیادہ اسرائیلی کے مارے جانے کی خبر ہے جو اب تک حماس اور اسرائیلی درمیان ہوئی لڑائی میں سب سے زیادہ اموات ہے ۔

حالاں کہ جوابی کارروائی میں اسرائیل نے غزہ کی پوری آبادی کے خلاف حملھ بول دیا ہے ۔یہ مضمون جب لکھ رہا ہوں تو اسرائیل کی ہوائی اور زمینی حملے غزہ پر بدستور جاری ہیں۔ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ غزہ کے رہائشی اپنا گھر بار چھوڑ کر پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔

اسرائیلی حملے میں فلسطینی بچّے اور عورتوں کے بھی بڑی تعداد میں مارے جانے کی خبر سامنے آ رہی ہے ۔ 

امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک جس میں بھارت بھی شامل ہے حماس کے حملے کی مذمت کر چکا ہے اور اسرائیل کی جوابی کارروائی کو واجب ٹھہرایا جا رہا ہے۔

بے شک حماس کے حملے میں غزہ میں طاقت کے زور پر فلسطینی زمین پر بسائے گئے عام اسرائیلی بھی مارے گئے ہیں ۔لیکن یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کے ایک ایک شہری کو فوجی ٹریننگ حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے  ۔

پھر بھی موسیقی پارٹی پر حملھ غلط مان بھی لیا جائے تو اسرائیل بدلے میں محصور غزہ میں پہنچنے  والی واحد راستہ سےخوراک ،پانی،بجلی اور دوائیوں کی سپلائی کو بند کر دینا جنگی جرائم نہیں ہے  ۔

سترہ سال سے غزہ محصور ہے اقوام عالم کو فرق نہیں پڑ رہا ہے ۔1991 میں اوسلو سمجھوتے میں یہ طے ہو چکا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین دو آزاد ریاست ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ رہیں گے ۔

لیکن فلسطین کی بچی خُچی زمین بھی جو مغربی کنارے اور غزہ میں ہے اسرائیل مسلسل اس زمین پر اپنی ناجائز بستیاں بساتا جا رہا ہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔

لیکن اسرائیل اور حماس کے درمیان اس لڑائی کو صرف ایک غاصب ملک کے خلاف مزاحمت اور قربانی کی لڑائی کے طور نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ یہ لڑائی روس اور چین کا مغربی ایشیا میں امریکہ کی اجارہ داری کے خلاف لڑائی بھی ہے۔

شام کی خانہ جنگی میں روس کی شمولیت کی وجہ سے امریکہ شام میں اسد حکومت کو گرا نہیں سکی تھی اور  اس شکست کو امریکہ اب تک بھول نہیں سکا ہے۔

امریکا کے دباؤ میں خلیجی ممالک کی ریاستوں کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔اسرائیل ایک آزاد ملک ہے لیکن کہا جاتا ہے۔

کہ اسرائیل امریکہ کا 56 واں  ریاست ہے جو مغربی ایشیا میں امریکہ کے مفاد کو دیکھتا ہے ۔اس لیے جب بھی اسرائیل کے خلاف کسی بھی طرح کی مزاحمتی  کاروائی ہوتی ہے امریکہ اسکی حمایت میں کھل کر سامنے آ جاتا ہے ۔لیکن مغربی ایشیا میں ایران بھی اپنا وجود رکھتا ہے ۔

ایران کے خلاف ایٹمی ہتھیار کا تماشہ کھڑا کر امریکہ نے ہر  طرح کی پابندیاں لگائی ہوئی ہے ۔یہاں تک کہ اسرائیل نے ایران کے ایٹمی سینٹر پر بھی حملھ کیا ہے اس کے باوجود ایران حماس اور حزب اللہ کے ذریعے اسرائیل کو سکھ چین  سے بیٹھنے نہیں دے رہا ہے ایسا اسرائیل اور امریکہ کا الزام ہے۔

سعودی عرب کا ایران سے معاہدہ ہو چکا ہے ۔اس معاہدہ کے وجود میں آتے ہی یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی کے اندر حملےکرنا بند کر دیا ہے ۔

ایران مغربی ایشیا میں کئی محاذوں پر لڑائی لڑ رہا تھا لیکن سعودی عرب کے ساتھ سمجھوتہ ہو جانے سے ایران فرقہ واریت کی لڑائی سے آزاد ہو گیا ہے 

دراصل مغربی ایشیا میں امریکہ اور اسرائیل کے ذریعے مسلم ممالک کے درمیان کوئی نہ کوئی مذہبی فتنہ کھڑا کر جنگ کا  ماحول قائم کیا جاتا رہا ہے تاکہ امریکہ کو اپنا ہتھیار بیچنے میں آسانی ہو ۔ساتھ ہی جنگ کے خوف سے خلیجی ممالک اس پر پوری طرح انحصار کرتا رہے اور خلیجی ممالک کبھی بھی اپنے پیڑ پر کھڑا نہیں ہو سکے۔

لیکن ایران نے جب سے چین سے معاشی سمجھوتہ کیا اور خلیجی ممالک کو بھی چین کے ساتھ سمجھوتے میں شامل کرایا،نتیجہ امریکہ خلیجی ممالک پر دباؤ ڈال کر ایک کے بعد ایک خلیجی ریاست کو اسرائیل سے سمجھوتہ کرانے  پر مجبور کر رہا ہے۔سعودی عرب کا  بھی اسرائیل سے امن معاہدہ ہونے ہی والا تھا ۔

امریکہ ایران اور حماس پر الزام لگا رہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لیے حماس سے حملے کرائے گئے ہیں ۔

ہو سکتا ہے اس میں سچائی ہو کیونکہ ایک ایک تیل سے مالامال امیر خلیجی ریاست اسرائیل سے رشتے استوار کر لیتے ہیں تو فلسطینی کاز اپنے آپ دم توڑ دیگا ۔فلسطینیوں نے اس حملے سے عرب ممالک کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اسرائیل اب بھی ناقابل تسخیر نہیں ہے اُسے شکست دی جا سکتی ہے ۔

اس جنگ کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ امریکہ نے جس طرح سے روس کو یوکرین کے ساتھ جنگ میں پھنسا دیا ہے تو روس بھی چاہتا ہے کہ کسی طرح امریکہ کے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا جائے ۔جس طرح حماس کے لڑاکے نے اسرائیل کی حفاظتی حصار کو توڑ کر اسرائیل کے اندر جا گھسے وہ روس اور چین کے سائبر ایکسپرٹ کے بنا ممکن نہیں ہو سکتا ہے ۔

روس اور چین اقوام متحدہ میں آزاد فلسطین کی حق میں کھل کر بات کر رہے ہیں اور غزہ میں اسرائیل کی جارحانہ کاروائی کو فوراً بند کرنے کے لئے کھ رہے ہیں ۔

اسرائیل کو سمجھنا چاہیے جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔اوسلو سمجھوتے کے تحت ایک آزاد فلسطین ریاست جس کی راجدھانی مشرقی یروشلم ہو تسلیم کر لینا چاہیے ۔اگر اسرائیلی حکمران یہ نہیں سمجھ پائیں گے تو اس علاقے میں دنیا کے طاقت ور ممالک اپنی اپنی سیاست کھیلتے رہیں گے اور معصوم لوگوں کی جانیں ضائع ہوتی رہیں گی ۔

میرا روڈ ،ممبئی

موبائیل 9322674787

نفرت انگیز نفسیات کو پروان چڑھانے والے عوامل

42 thoughts on “اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم نہیں کر رہا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *