دین اسلام کی اصل اور بنیادی تعلیم ہے
ایمان و عقائد کی حفاظت: دین اسلام کی اصل اور بنیادی تعلیم ہے
محمد افتخار حسین رضوی
اگر ہم اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیں اور ان پر غوروخوض کریں تو بحسن وخوبی معلوم جائے گا کہ دین اسلام سب سے پہلے ایمان وعقائد کو درست کرنے اور مضبوط بنانے کی تعلیم دیتا ہے۔
جب بھی کوئی شخص اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے اسلام کا مقدس کلمہ طیبہ پڑھ کر ایمان کی دولت سے مالامال ہوتا ہے، پھر دیگر عقائد سے آگاہی حاصل کرتا ہے، اور اس کے بعد اعمالِ صالحہ بجا لانے کی کوشش کرتا ہے۔ معلوم ہوا ایمان وعقائد کو مذہب اسلام میں فوقیت و اولیت حاصل ہے، بلکہ اس کے بغیر کوئی انسان مسلمان اور مؤمن بن ہی نہیں سکتا اور نہ ہی اعمالِ صالحہ قبولیت کا جامہ پہن سکتے ہیں۔ گویا ایمان وعقائد کی درستگی قبولیت اعمال کے لئے شرط اول کی حیثیت رکھتی ہے۔
مگر ایمان وعقائد کے بقا و تحفظ اور مضبوطی کے لئے اعمالِ صالحہ بھی ضروری ہیں، نیک اعمال کے سبب ایمان وعقائد کی نورانیت قائم رہتی ہے، ایمان وعقائد اگر انمول اور بیش قیمتی خزانہ ہے تو نیک اعمال مستحکم دیواریں ہیں، جو ایمان وعقائد کو سلب اور چوری ہونے سے بچاتے ہیں، جبکہ بد اعمالی اور گناہوں کی نحوست کے سبب ایمان وعقائد کے بگڑنے اور خاتمے کا قوی اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔
لہذا ایک مسلمان کا دینی فریضہ ہے کہ وہ ایمان وعقائد کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نیک اعمال بھی بجا لانے کی سعی کرتا رہے۔ اس مقصد عظیم کے حصول کے لئے اللہ و رسول جل و علا و صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن و احادیث کے احکام و ہدایات اور فرامین و قوانین کو ہمیشہ پیش نظر رکھے، تاکہ ان کی روشنی میں روئے ایمان نکھرتا رہے، گیسوئے عقائد سنورتے رہیں،اور نیک اعمال کے رنگ برنگے پھول کھلتے رہیں۔
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ایمان وعقائد کی صحت کے بغیر نیک اعمال کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا، ضروریات دین پر صدق دل سے یقین کامل رکھنا ہر ایمان والے کے لئے لازمی و ضروری ہے، اسلامی عقائد کو تمام ضروریات دین کو دل سے ماننا فرض ہے، کسی ایک ضروری دینی عقیدہ کا انکار ایک مؤمن کو دائرہ ایمان و اسلام سے خارج کرکے کفر وشرک کی وادیوں میں دھکیل دیتا ہے، تمام اعمالِ صالحہ تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ وَمَنْ يَکْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ ز وَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo (المائدة، 5/ 5)
اور جو شخص (احکامِ الٰہی پر) ایمان (لانے) سے انکار کرے تو اس کا سارا عمل برباد ہوگیا اور وہ آخرت میں (بھی) نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔
مگر حیرت و استعجاب کا مقام ہے کہ بڑے بڑے ماہرین علم و فن اور طبقہ علماء ومشائخ میں شمار ہونے عظیم شخصیات بھی شیطان و نفس کے بہکاوے میں آکر کفر وشرک کے قبیح ترین گناہ میں ملوث ہوجاتے ہیں اور ایمان سے خارج ہوکر اسلامی معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتے ہیں۔ تاریخ عالم ایسے نام نہاد عالموں کی داستان سے بھری پڑی ہے ایسے لوگوں کی وجہ سے ان کی پیروی کرنے والے بھی گمراہ ہوکر کفرستان پہنچ جاتے ہیں،
اس لئے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ ایمان وعقائد کی حفاظت کرنی چاہیے اور ساتھ ہی صحت اعمال کا بھی بھر پور خیال رکھنا چاہیے مگر اعمال سے زیادہ عقائد کو اہمیت حاصل ہے، عمل اگر خراب ہوجائے، کوئی نیک عمل چھوٹ جائے تو اس کی اصلاح ہوسکتی ہے، مگر کسی مسلمان کا ایک ضروری عقیدہ بھی اگر فاسد ہوجائے اور اس کی جگہ کوئی غلط عقیدہ ذہن وفکر میں بس جائے تو پھر اس کی اصلاح ایک مشکل ترین کام بن جاتا ہے، ایسا بدعقیدہ شخص دوسروں کا عقیدہ بھی خراب کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اس لیے ایمان وعقائد پر بار بار چرچا ہونا چاہیے، مسلمانوں کو ایمان وعقائد اور اعمالِ صالحہ کے درمیان کا فرق واضح طور پر معلوم ہونا چاہیے
کفر وشرک ایک ایسا گناہ ہے جس میں گرفتار ہونے سے مسلمان دائرہ ایمان سے خارج ہوجاتا ہے،اور کافر یا مشرک ہوجاتا ہے کفر وشرک کے علاوہ کسی دوسرے گناہ سے مسلمان دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا اس لئے مسلمان اور مؤمن ہونے کے لئے کفر وشرک سے بچنا ہر حال میں لازم ہے، تبھی وہ اسلام کے دائرے میں رہ کر مسلمانوں کی سوسائٹی میں شامل ہوسکتا ہے۔ ورنہ ایمان سے خارج ہونے کی وجہ سے اسلامی سوسائٹی سے اس کا بائیکاٹ ہوجائے گا۔ بہت سے مسلمان اعمالِ صالحہ سے تو متصف نظر آتے ہیں، بظاہر بہت متقی پرہیزگار معلوم ہوتے ہیں، مگر حیرت تب ہوتی ہے جب وہ ایمان وعقائد کے معاملے میں کمزور محسوس ہوتے ہیں، گمراہ و بددین، کفار و مشرکین اور ملحدین و مرتدین سے دوستی کرتے ہیں اور رشتہ و تعلق قائم کرتے ہیں، ایسوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں، یہاں تک ایسے باطل پرستوں کی صحبت اختیار کرکے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کردیتے ہیں۔
رب العالمین عز وجل ارشاد فرماتا ہے۔ لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّاۤ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقٰىةًؕ-وَ یُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ الْمَصِیْرُ(۲۸) ترجمہ: کنزالعرفان مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تمہیں ان سے کوئی ڈر ہو اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (51)}[المائدة: 51]
ترجمہ:” اے ایمان والو ! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک ان ہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔“
سیکورازم بچانا ہماری ذمہ داری ہے صاحب
Pingback: احساس ذمے داری سب سے بڑا سرمایہ ہے ⋆ اردو دنیا از : محمد افتخار حسین رضوی
Pingback: تقریر و تحریر کی غیر معمولی اثر پذیری ⋆ محمد افتخار حسین رضوی