بھاجپا کی خوبیوں سے سبق لے کانگریس

Spread the love

بھاجپا کی خوبیوں سے سبق لے کانگریس

علیزے نجف

گزشتہ دنوں ہونے والے انتخابات جسے اگلے سال ہونے والے لوک سبھا انتخاب کا سیمی فائنل کہا گیا تھا اس میں بی جے پی کی شاندار فتح نے یہ ثابت کر دیا کہ انڈیا اتحاد کے سامنے کانٹے کی ٹکر ہے اسے ابھی بھی خود پہ بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے

دوسرے یہ بھی خاموش پیغام دے دیا کہ کام یابی کے لیے محض اتحاد ہی کافی نہیں بلکہ ایسی آئیڈیالوجی کا ہونا بھی بہت ضروری ہے جس میں کہ لوگوں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے مفاد کی بات کی جائے، خواہ فتح ہو یا شکست سوائے جزوی تبدیلیوں کے انھیں بنیادی نظریات پہ ہی قائم رہا جائے محض بی جے پی کی مخالفت میں سیاسی داؤ پیچ نہ کھیلے جائیں۔

اس وقت بی جے پی انڈیا کی ایک مضبوط سیاسی پارٹی ہے اس کے رضاکار ملک کے چپے چپے میں موجود ہیں ایک طرف وہ مذہبی ہندوؤں کے ذہنوں پہ اپنی گرفت مضبوط کئے ہوئے ہے وہیں دوسری طرف یوتھ کو بھی اپنا ہمنوا بنانے میں بھی کامیاب ہو رہی ہے

کانگریس کئی سالوں تک سیاست کی بساط پہ اہم کھلاڑی رہی ہے وہ مرکز اور مختلف ریاستوں میں لمبے عرصے تک برسراقتدار رہی ہے، کانگریس کو لمبے عرصے تک ملنے والا اقتدار آزادی کی جدوجہد کے دوران گاندھی اور نہرو کی قائدانہ صلاحیتوں سے لوگوں میں پیدا ہونے والے اعتماد کا نتیجہ تھا اب وہ اعتماد بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ جیتنے میں کام یاب ہو چکے ہیں۔

کانگریس کو اب اس اعتماد کو پھر سے جیتنے کے لئے ازسر نو حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے اور ان کمیوں پہ کام کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے اسے اس پستی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ بی جے پی کو پے در پے ملنے والی یہ کام یابی محض وقتی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے نصف صدی سے زائد کی جدوجہد شامل ہے، ان کے نظریات سے اختلاف اپنی جگہ لیکن ان کی خوبیوں سے سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں محسوس کرنی چاہیے۔

بی جے پی پچھلے دس سالوں سے مرکز اور بہت ساری ریاستوں میں اقتدار میں ہے اس کے باوجود آج بھی وہ ہر چھوٹا بڑا الیکشن پوری شدت سے لڑتی ہے، ہر الیکشن کے لیے وہ پیشگی طور پہ حکمت عملی تیار کرتی ہے وہ مسلسل اپنے اوپر کام کر رہی ہے اور سماج کی تبدیلیوں پہ نظر رکھے ہوئے ہے۔ بی جے پی کا سب سے بڑا تھنک ٹینک آر ایس ایس ہے اس کی اپنی ایک آئیڈیالوجی ہے

مذہب تاریخ معاشرت سے جڑی چھوٹی چھوٹی باریکیوں کو جانچ پرکھ کر انھوں نے یہ آئیڈیالوجی بنائی ہے، اس پہ ان کی کئی سالوں کی محنت شامل ہے ایک ایک کر کے وہ اپنے سارے ہدف پورے کر رہی ہے۔

بی جے پی محض سیاسی شعبوں میں ہی متحرک نہیں بلکہ وہ ہر فیلڈ میں آئیڈیالوجیکل آرگنائزیشن رکھتی ہے جو کہ صرف شہروں میں ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے مواضعات میں بھی ایکٹو ہے جس کی وجہ سے عوامی سطح پہ ابھرنے والے نظریات کو ایڈریس کرنے میں کام یاب ہے۔

ماہر تعلیم نصاب ساز ادارہ اساس کے چیئرمین ارشد غازی سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو

مسلم گنگا جمنی تہذیبی ڈھکوسلے سے باہر نکلے

ہمیں وطن عزیز کے ساتھ اپنے تشخص کی بھی حفاظت کرنی ہے

شوسل میڈیا بلیک میلنگ

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟

 محبت وطن ایک جائزہ احادیث کی روشنی میں

بی جے پی مواقع پہ گرفت مضبوط کرنا اچھی طرح سے جانتی ہے وہ ضرورت پڑنے پہ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کرنے سے ذرا بھی نہیں کتراتی وہ اپنا مقصد حاصل کرنا اچھی طرح جانتی یے۔ بی جے پی کئی بار ووٹر لسٹ کے ہر صفحے کے لیے ایک شخص کا تعیّن کرتی ہے جس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ لسٹ مین درج ہر شخص سے رابطہ کرے اور اسے بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے راضی کرے۔ وہ ہر الیکشن جو جیتنے کے لیے دانے درمے سخنے کوشش کرتی ہے۔

بی جے پی کے پاس ایک مضبوط آئی ٹی سیل ہے جس پہ وہ کروڑوں خرچ کرتی ہے اس کی طرح وہ بھی 365 دن ایکٹو رہتا ہے،اس کے ذریعے اپنے خلاف موجود ہر خطرے کو قبل از وقت محسوس کر کے اس کا سد باب کرنے کے لئے تیار رہتا ہے، اس وقت ملک کے سبھی بڑے میڈیا ہاؤس پہ بی جے پی کا کنٹرول ہے۔

بی جے پی اپنے لیڈر اور کیڈر کو ساتھ لے کر چلنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہے وہ بدلتے وقت کے تیور کو بروقت محسوس کر کے لیڈرز کے انتخاب میں یو ٹرن لینے سے نہیں چوکتی۔ بی جے پی کی کامیابی سب سے بڑی اہم وجہ اس کا واضح اور غیر متزلزل نظریہ بھی ہے جو کہ ہندوتوا پہ مبنی ہے اس نظریے نے اس کا ہندو عوام سے ایک مضبوط تعلق بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس سے ہمیں لاکھ اختلاف سہی لیکن یہ سچ ہے کہ ایک واضح اور محکم نظریہ اپنے اندر ایک بڑی طاقت رکھتا یے۔

بی جے پی کی کامیابی کا ایک اہم عنصر اس کی مضبوط و مستحکم قیادت ہے اس کے پاس نریندر مودی کا چہرہ ہے جو کہ اکثریتی طبقے کے لوگوں میں مقبولیت حاصل کر چکا ہے، وہ اپنے وژن اور پالیسیوں میں غیر متزلزل رویے کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے، اسی کا اثر ہے کہ لوگ مقامی چہرے سے اختلاف رکھنے کے باوجود مودی کے نام پہ ووٹ دیتے ہیں۔

بی جے پی اپنے مضبوط آرگنائزیشن کے لیے بھی جانی جاتی ہے، جو نچلی سطح پہ کام کرنے والے کارکنوں کو پارٹی سے جوڑتی ہے۔ پارٹی نے ایک مضبوط کیڈر کی تعمیر میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے جو پارٹی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے مسلسل متحرک رہتی ہے۔ بی جے پی کے اس تنظیمی ڈھانچے نے اسے نچلی سطح پر لوگوں تک پہنچنے کے قابل بنا دیا ہے، اس کی وجہ سے وہ عوام کو اپنا حامی بنانے میں کامیاب ہے۔

بی جے پی اپنے آپ کو ایک ایسی پارٹی کی صورت پیش کرنے میں کامیاب رہی ہے جو نہ صرف ترقیاتی ایجنڈا رکھتی ہے، معیشت اور سماجی ترقی کے لئے اس نے کئی اہم کوششیں کی ہیں بی جے پی اپنے آپ کو ایک ایسی پارٹی کے طور پہ پیش کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہی ہے جو کہ لوگوں کی زندگیوں کے بدلنے کی بات کرتی ہے اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس ضمن میں بی جے پی کی کامیابی سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے واضح نظریاتی وژن، مضبوط قیادت، موثر تنظیم، ترقیاتی ایجنڈا، اور موثر انتخابی حکمت عملی کی وجہ سے ہندوستان کی مقبول ترین سیاسی جماعتوں میں سے ایک بن گئی ہے۔ اگرچہ بہت سے عوامل ہیں جنہوں نے بی جے پی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے

لیکن پارٹی کی ترقی کے ایجنڈے پر توجہ اور اپنی حکمت عملیوں کو مؤثر طریقے سے انجام دینے کی صلاحیت اس کی مقبولیت کے اہم محرک رہی ہیں۔ بےشک ہمیں اس کی پالیسیوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ بی جے پی اس وقت ایک کام یاب سیاسی پارٹی ہے جس کا طلسم آسانی سے ٹوٹنے والا نہیں ہے اس وقت کانگریس کو ان تمام میدان میں اپنی کارکردگی کو کئی گنا بہتر کرنے کی ضرورت ہے ساتھ ہی ساتھ اپنی قیادت کا چہرہ اور اس کی شبیہ بہتر بناتے ہوئے آپسی اختلافات اور اندرونی خلشار کو ختم کرنا ہوگا۔

کانگریس چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کرنے کے معاملے میں دامن بچانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے اسے اپنے اس رویے کو بدلنا ہوگا، بالکل زمین سے جڑ کر اپنی کوششوں کو سر انجام دینا ہوگا۔

سوشل میڈیا کو اپنی طاقت بناتے ہوئے اپنا ایک میڈیا ہاؤس بھی اسے تشکیل دینا ہوگا تاکہ وہ اپنے خیالات براہ راست زیادہ تیزی کے ساتھ لوگوں تک پہنچا سکے معاشرتی سطح پہ ہونے والی ناانصافیوں پہ کھل کر اپنا موقف رکھے اور اس پہ آخر تک قائم رہے، نچلے طبقے کا ووٹ بینک اب بھی کانگریس کے پاس ہے۔

ان کی زندگیوں کو بہتر کرنے کے لیے مؤثر فیصلہ سازی کرے، کانگریس کو بھی آر آر ایس جیسا ایک تھنک ٹینک بنانے پہ غور کرنا چاہیے جو کہ سیکولرزم اور بین الاقوامی طرز معاشرت پہ مبنی نظریات کو بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے نوجوان نسل کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے تشکیل دے اور محض بیان بازی تک محدود ہونے سے پرہیز کرے۔ ا

س وقت کانگریس از سر نو حکمت عملی، واضح نقطہء نظر اور ترقیاتی پالیسیوں کے ساتھ کی اپنی سابقہ پوزیشن بحال کر سکتی ہے اس کے لئے اسے ایک لمبی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *