احقاق حق کے نام پر جھگڑے
احقاق حق کے نام پر جھگڑے
دینی درس گاہیں، یعنی مدارس و مکاتب کے علم بردار، علماے کرام و قائدین دین و ملت سے، علامہ اقبال نے تقریباً سو سال پہلے جو بات کہی تھی، وہ اس وقت کے لیے کتنی موزوں اور ضروری تھی مجھے نہیں معلوم
لیکن اگر اسے آج کے تناظر میں دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے، مانو وہ آج ہی کے لیے کہی گئی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ:
مدّعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیمِ دیں
ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سِکھلانا کہیں
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھُپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تقریر سے
محفلِ نَو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پرجواَب نہ آئیں اُن فسانوں کو نہ چھیڑ
ان میں سے ہر ایک شعر میں ایک خاص پیغام ہے، ایک قیمتی نصیحت ہے، اور مشکل وقت سے بچنے کی تدبیر اور تاب ناک مستقبل کے لیے رہنمائی ہے۔
عصر حاضر کے ہمارے علما، شعرا، خطبا، قائدین اور ہم جیسے گنہگاروں کو اس میں خطاب کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے جو یہ زبان و قلم کی خوبی تمہیں عطا فرمائی ہے، وہ ایک اعجاز ہے، جو لاکھوں میں سے کسی کسی کو ملتا ہے اور پھر لاکھوں کروڑوں لوگ اس کی تحریر و تقریر سے متأثر ہوتے ہیں۔
اب اگر وہ زبان و بیان مثبت ہے، دلوں کو جوڑنے کے لیے ہے، نفرتوں کو مٹانے کے لیے ہے،دلجوئی و صلہ رحمی کے لیے ہے، دین و سنت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے ہے، اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامات کو عام کرنے کے لیے ہے، دنیا اور آخرت کی کامیابی کے اسباب پیدا کرنے کے لیے ہے، تو یہ یقیناً آپ کے لیے عاقبت کا سرمایہ ہے، اخروی سعادت کا ذریعہ ہے۔
بے شک یہ ایک غیر معمولی خوبی، اور بندۂ خاص کو ہی یہ خوبی اور طاقت و قوت نصیب ہے۔ اور جب یہ اس قدر عظیم ہے، تو اس کا محاسبہ بھی عظیم ہی ہو گا۔ ممکن ہے کہ ان لوگوں کے نامۂ اعمال میں ان لاکھوں لوگوں کی نیکیوں کے برابر نیکیاں لکھی جائیں گی جو ان کی باتوں پر عمل کریں گے۔اور ٹھیک اسی طرح ان لاکھوں لوگوں کے گناہ کے برابر گناہ بھی ان کے نامۂ اعمال میں ڈالے جائیں گے جو ان کی تحریر و تقریر کے باعث لوگوں نے کیا ہوگا۔
کسی بھی طرح کی نفرت، فرقہ بندی، جنگ وجدال، غیبت، حسد وغیرہ گناہوں کا ارتکاب کسی صاحب زبان و قلم کے سبب ہوا ہوگا وہ اس کے بداعمالیوں کے دفتر میں جڑیں گے۔
اسی لیے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ:
ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامۂ معجز رقم
شیشۂ دل ہو اگر تیرا مثالِ جامِ جم
پاک رکھ اپنی زباں، تلمیذِ رحمانی ہے تُو
ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو!
میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے اپنے کچھ علما، قائدیں، دانش ور، خطبا، شعرا اور مصلحین اپنی تحریر و تقریر سے جھوٹ، غیبت، نفرت، بغض، حسد، عصبیت، فرقہ بندی، وغیرہ جیسے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور اپنے ان گھنونے کاموں کو احقاق حق کا نام دیتے ہیں۔
گویا کہ زہرہلاہل کو تریاق کے نام سے مسلمانوں میں بیچ رہے ہوں۔اور جن لوگوں کو فتنہ انگیزی کا چسکا لگا ہوا ہے وہ اسی کی تلاش میں رہتے ہیں۔
عیب جوئی اور غیبت ایسے لوگوں کے لیے سب سے بہترین مشغلہ ہے۔ جب کچھ نہیں ملتا تو گڑے مردے اکھاڑتے ہیں۔ مثلاً ابھی کچھ دنوں سے اہم شخصیات کے درمیان افضل و مفضول کی بحث چل رہی ہے۔
ان بحث کرنے والوں کی اپنی اپنی دکانیں ہیں۔ اور انہیں اپنی دکان کو چمکانے کے لیے جو شخصیات فٹ بیٹھ رہی ہیں انہیں ہی افضل کہہ رہے ہیں اور طرف ثانی کی شخصیات کو مفضول ، جب کہ سرے سے یہ تقابل ہی نہ غلط ہے۔
یہی تعلیم ہمیں ہمارے رسول نے بھی دی ہے۔ حضرت ابو سعید کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے (دونوں فریق کے بیانات سن کر جن میں ایک حضرت موسیٰ کو اور دوسرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل ثابت کرنے میں لگے ہوے تھے) فرمایا تم انبیا میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دو” ( بخاری ومسلم)
اور حضرت ابوہریرہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ” تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو”۔ جو افضل الانبیاء والمرسلین ہیں وہ اپنے کو افضل اور دوسرے کو مفضول کہنے سے منع فرما رہے ہیں، جب کہ دوسری طرف خود قرآن پاک میں ارشاد ہے : ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ﴾ [البقرة: 253]
یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیا اور رسولوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے
نیز خود نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :”عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا سيد ولد آدم يوم القيامة ولا فخر”. (سنن الترمذي ۔5/ 308)
یعنی میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں ،لیکن مجھے اس پر فخر نہیں ہے۔ لیکن تعلیم امت کے لیے ، اور تواضع کی اہمیت کو سمجھانے کے لیے آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقابل سے منع فرمایا۔
اس کے باوجود جو ہمارے کچھ اصحاب صحابہ کا صحابہ سے، خلفاے راشدین کا خلفاء راشدین سے، اہل بیت کا اہل بیت سے، حضرت فاطمۃ الزہرا کا ان کی بہنوں سے، اور امہات المومنین کا امہات المومنین سے، افضل و اعلی ہونے کا مقابلہ کر رہے ہیں یہ سب کیا ہے؟
یقینی طور پر ایسا کرنے والے اپنی دکان یا اپنی دنیا چمکانے کے ارادے سے ایسا کر رہے ہیں۔ ورنہ اس میں عاقبت کی بربادی کے سوا اور کیا رکھا ہے۔ الامان والحفیظ!
اللہ تعالی ہمیں اور ان سب کو ہدایت عطا فرمائے اور ایسے گناہ کبیرہ سے بچنے کی توفیق توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین. آمین!
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584
Pingback: عالمی یوم ماحولیات اور اسلام ⋆ محمد شہادت حسین فیضی