عید میلاد النبی ﷺ کا ثبوت فتاویٰ علماے دیوبند کی روشنی میں
عید میلاد النبی ﷺ کا ثبوت فتاویٰ علماے دیوبند کی روشنی میں
تحریر:الحاج مفتی محمدشمس تبریز علیمیؔ
(مدارگنج،ارریہ،بہار)
کی محمدﷺ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
محمد ﷺ کی محبت دینِ حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر کچھ خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
ربیع الاول کامبارک مہینہ جونہی جلوہ فگن ہوتاہے عشاقانِ رسول ﷺ بارہویں شریف اور عیدمیلادالنبی ﷺ کی خوشیاں منانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ گھروں کی صفائی ،ستھرائی کی جاتی ہے۔ اور مساجدومدارس میں لائٹنگ اور قمقمے لگائے جاتے ہے۔ اہلِ ایمان اپنی اپنی استطاعت وحیثیت کے مطابق عید میلاد النبی ﷺ کی خوشیاں مناتے ہیں۔
یہ دیکھ کر کچھ لوگ منہ بگاڑتے اور طرح طرح کی بکواس کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اسی کے پیش نظر آج کے اس مختصر مضمون میں عید میلادالنبی ﷺ کا ثبوت فتاویٰ علمائے دیوبند سے پیش کیاجاتاہے۔ بغور پڑھیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں کہ ان لوگوں کاواویلا کہاں تک درست ہے؟
علمائے دیوبند کے پیشوا حاجی امداداللہ صاحب اپنی مشہور کتاب ’’فیصلۂ ہفت مسئلہ‘‘میں لکھتے ہیں: ’’اس میں تو کسی کو کلام نہیں کہ نفس ذکرِ ولادت شریف حضرت ﷺ موجبِ خیرات وبرکات دنیوی وعقبوی ہے۔مشرب فقیر کایہ ہے کہ محفل میلاد شریف میں شریک ہوتاہوں اور قیام میں لطف ولذت پاتاہوں۔‘‘
مولوی رشیداحمدگنگوہی:’’اب رہے تین مسئلہ’’قیود مجلسِ مولود اور قیود ایصالِ ثواب کے اور عرس بزرگانِ دین کاکرناسو اس میں وہ(حاجی امداداللہ صاحب)خود لکھتے ہیں کہ در اصل یہ مباح ہیں۔‘‘ ’’اس لئے اپنا قول یہ ہے کہ ہمارے لئے تو اگر مولود شریف اگر کریں تو جائز بلکہ مستحب ہے‘‘۔(فتاویٰ رشیدیہ کامل ،ص:۱۱۳،باقیات فتاوی رشیدیہ،ص:۵۷۸)
مولوی اشرف علی تھانوی: ’’میراکئی سال تک یہ معمول رہاہے کہ یہ جو مبارک زمانہ ہے جس کانام ربیع الاول کامہینہ ہے۔جب یہ مبارک مہینہ آتاتھا تومیں حضورﷺ کے وہ فضائل جن کاخاص تعلق ولادت شریفہ سے ہوتاتھا مختصر طور پر بیان کرتاتھا مگر التزام کے طور پر نہیں کیوں کہ التزام میں تو علما کااختلاف ہے
۔ بلکہ بدوں التزام کے دو وجہ سے : ایک یہ کہ حضور ﷺ کاذکر فی نفسہ طاعت وموجب برکت ہے۔ دوسرے اس وجہ سے کہ ہم لوگ جو مجالیس موالید کی ممانعت کرتے ہیں تو وہ ممانعت نفس ذکر کی وجہ سے نہیں بلکہ منکرات ومفاسد کے انضمام کی وجہ سے‘‘۔(خطباتِ میلادالنبیﷺ ۱۹۰)
مولوی قاسم نانوتوی:’’انہیں حضور ﷺ سے محبت زیادہ معلوم ہوتی ہے مجھے بھی اللہ تعالیٰ نصیب کرے‘‘۔(سوانح قاسمی،ج:۱،ص۴۷۱)مہتمم دارالعلوم دیوبند مولوی عبداللہ :’’حاجی سید عابد صاحب مہتمم مدرسہ دیوبند خاص مولاناممدوح(یعنی مولوی یعقوب )سے خاص اپنے مکان پر ذکرولادت شریف بطریق وعظ کرائی اور شیرینی بھی تقسیم کی‘‘۔
(الدرالمنظم،ص:۱۵۵)مولوی صدیق حسن بھوپالی : ’’اس میں کیابرائی ہے کہ اگر ہر روز ذکر حضرت نہیں کر سکتے تو ہر ہفتہ یا ہر ماہ میں التزام کریں کہ کسی نہ کسی دن بیٹھ کر وعظ سیرت وولادت ووفات آنحضرت ﷺ کا کام کریں ،پھرایام ربیع الاول کو بھی نہ چھوڑیں اور ان روایات واخبار آثار کو پڑھیں جو صحیح طورپر نہایت ہیں‘‘۔
مزید لکھتے ہیں: ’’جس کو حضرت کے میلاد کاحال سن کر فرحت حاصل نہ ہواور شکر خدا کاحصول نعمت پر نہ کرے وہ مسلمان نہیں‘‘۔(الشمامۃ العنبریۃ من مولود خیرالبریۃ،ص:۵،۱۲) ۔
مولانا وحیدالزماں:’’ جس طرح عیسیٰ علیہ السلام کا ’’کرسمس ڈے ‘‘ منایا جاتاہے اسی طرح ہمارے نبی ﷺ کایومِ میلاد بھی منایا جاتاہے اورہم کافروں کی نسبت زیادہ حقدار ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام کایوم منائیں‘‘۔ (ھدیۃ المھدی،ص:۴۶)
علماے دیوبندکی مستند اور معتبر کتاب’’المھندعلی المفند‘‘ ہے جس میں اکیسواں سوال میلاد شریف کے منانے کے متعلق ہے۔ اس کی عبارت کاترجمہ پڑھیں: ’’ کیاتم اس کے قائل ہوکہ حضور ﷺ کی ولادت کاذکر شرعا قبیح
سیئہ ،حرام (معاذاللہ) ہے یا اور کچھ؟ علماے دیوبند نے اس کامتفقہ جواب جو دیااس عبارت کاترجمہ یہاں پیش ہے:’’حاشا ہم تو کیاکوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت شریفہ کا ذکر بلکہ آپ ﷺ کے نعلین اور آپ ﷺ کی سواری کے گدھے کے پیشاب کے تذکرہ کو بھی قبیح وبدعت سیئہ یاحرام کہے۔
وہ جملہ حالات جنہیں رسول اکرم ﷺ سے ذرا سی بھی نسبت ہے ان کاذکر ہمارے نزدیک نہایت پسندیدہ اور اعلیٰ کا درجہ مستحب ہے، خواہ ذکرولاد شریف کا ہو یا آپ ﷺ کے بول وبراز،نشست وبرخاست اور بے داری وخواب کاتذکرہ ہو۔
جیسا کہ ہمارے رسالہ’’براہین قاطعہ‘‘ میں متعدد جگہ بالصراحت مذکورہے‘‘۔ (المھند علی المفند ،خلیل احمد سہارن پوری ،ص:۶۰/۶۱)(ماخوذ از:حقائقِ میلادالنبیﷺ بحوالہ: عید میلادالنبی کی شرعی حیثیت)
قارئین کرام ! مذکورہ بالا اقتباسات کی روشنی میں آپ نے جان لیاکہ ذکر ولادت مصطفیٰ ﷺ ایک مباح اور جائز ودرست بلکہ امر مستحسن ہے۔اب اگر کوئی عیدمیلادالنبی ﷺ کے موقع پرجلوس، محافل، مساجد ومدارس کی سجاوٹوں اور تقسیم تحائف وشیرینی کو اسراف اور فضول خرچی کہے اور لکھے تواسے اتنا ہی کہاجا سکتاہے کہ اس کی عقل کا فتور، ذہن وفکرکاقصور اور نبی پاک ﷺ کے ذکر سے بغض وعنادہے اس لئے ایسا بولتااور لکھتاہے۔کیوں کہ :
خدا جب دین لیتاہے
تو عقلیں چھین لیتاہے
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پاک ﷺ کے صدقے ہمیں صراط مستقیم پر چلنانصیب کرے اور ایمان وعقائد کی حفاظت فرمائے۔آمین۔
م.حال:غوثیہ جامع مسجد، ادارہ شرعیہ جھارکھنڈ ،اسلامی
مرکز،رانچی ۔
Pingback: مشرقی بتھنا میں ہوا بہترین انعامی مقابلہ ⋆