مسلم مخالفین کے خوابوں کی تعبیر
مسلم مخالفین کے خوابوں کی تعبیر؟
بھلے ہمارے دشمن یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم چند مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اور چند کی دولت کو نقصان پہنچا کر، مسلمانوں میں دہشت پیدا کر کے ہمیشہ ہمیش کے لیے امر ہو جائیں گے تو یہ ان کا خواب ہے جس کی تعبیر نہیں
محمد رفیع
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْت ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ لیکن دو باتیں ہیں ایک موت اور دوسرا قتل۔ موت کا عام معنیٰ انتقال کر جانا، قدرتی طور پر وفات پا جانا وغیرہ ہے اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد
لیکن اصطلاح میں موت اس کو کہتے ہیں کہ سالک اپنے نفس کی خواہشات کا قلع قمع کر دے اور لذات اور شہوات اور مقتضیات طبعیہ بد کی طرف میلان نہ کرے۔ وہیں قتل کا لفظی معنیٰ ہے غیر قانونی طریقے سے ہلاک کرنا، مار ڈالنا۔ داغ دہلوی نے اس سلسلے میں بڑا خوب صورت شعر کہا ہے ارشاد فرمائیں
بات کا زخم ہے تلوار کے زخموں کے سوا
کیجیے قتل مگر منہ سے کچھ ارشاد نہ ہو
مسلم گنگا جمنی تہذیبی ڈھکوسلے سے باہر نکلے
ہمیں وطن عزیز کے ساتھ اپنے تشخص کی بھی حفاظت کرنی ہے
محکمہ تعلیم بہار کی اردو دشمنی
ویسے موت و قتل کے فرق کو ہر خاص و عام بہتر سمجھتا ہے کہ موت وہ ہوتا ہے جو اللہ کی جانب سے ہو اور قتل وہ ہوتا ہے جو ایک انسان دوسرے انسان کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ جس طرح سے دنیا کی چیزوں میں کچھ قدرتی ہوتی ہیں جسے اللہ نے بنایا یا قائم کیا اور کچھ
مصنوعی جسے انسان نے بنایا یا قائم کیا۔ ہندوستان کے تین مشہور سیاستدانوں میں دو سابق رکن ایوان زیریں (لوک سبھا) محمد شہاب الدین، عتیق احمد و رکن اتر پردیش اسمبلی مختار انصاری کے ساتھ عتیق احمد کے بھائی محمد اشرف کی دنیا سے رخصتی سے حکومت کی شازش کی بو آتی ہے۔
محمد شہاب الدین کو جیل ہی میں موت کی خوراک بنا کر چھوڑ دیا اور عتیق احمد و محمد اشرف کو پولیس کسٹڈی میں چند جنونی اشخاص نے قتل کر دیا اس کے ساتھ ہی غازی پور اترپردیش کے رکن اسمبلی مختار انصاری کی جیل میں موت ہو گئی، جیل میں انہیں زہر دینے کی کوشش کرنے کا الزام مختار انصاری و ان کے اہل خانہ نے لگایا تھا۔ یعنی یہ چاروں موت یا قتل کے حادثے کو سیاسی چشمے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور ان سیاست دانوں کے قتل کا جواز کیا ہے، اس کی تحقیق ضروری ہے۔
شہاب الدین کی صلاحیت اور اس کی قوت کا آج بہار ہی نہیں ملک میں چرچا ہے۔ غیر تو غیر تھے، قد بڑا ہونے سے اپنے بھی دشمن ہو گئے تھے۔ بھاگل پور جیل سے رہائی کے بعد ان کے منہ سے نکلا ایک لفظ ‘ پریستھیتی کے مکھیہ منتری ‘ اتنا مہنگا پڑا کہ قیمت اپنی جان سے چکانی پڑی یعنی پھر وہ دوسرے ہی دن جیل میں ڈال دئے گئے اور پھر جیل سے ان کی لاش ہی باہر آئی۔ عتیق احمد اپنے بھائی اشرف کے ساتھ پولیس کسٹڈی میں تب تک بھاگتے رہے جب تک انہیں موت نے اپنی آغوش میں نہ لے لیا۔
عتیق احمد کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ ان کو مار دینے کی خبر پولس انتظامیہ نے پہلے ہی دے دی تھی یعنی ان کے موت کا اسکرپٹ لکھا جا چکا تھا اور انہیں گھڑیاں گننے کو کہا گیا تھا پھر پولس کی موجودگی میں ان کا قتل ہوا، پولس عتیق احمد و محمد اشرف کو تو بچا نہ سکی لیکن ان کے قاتل کو بچانے میں کامیاب ہو گئی۔ ایسا کیوں لگتا ہے کہ عتیق احمد سے زیادہ اس کے قاتل کو بچانے کا پولس کو ٹاسک ملا تھا۔
مختار انصاری کی موت کا واقعہ بھی عجیب و غریب ہے۔ خبر ملتی ہے کہ انہیں زہر دیا جا رہا ہے باوجود اس کے ان کا ٹھیک ٹھیک خیال نہیں رکھا گیا اور آخر کار ان کی موت ہوگئی۔
سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس موت کا، اس قتل کا کیا جواز ہے۔ چن چن کر مسلم سیاستدانوں کو موت کے گھاٹ اتارنا اور چن چن کر مسلم سرمایہ داروں اورمالداروں کے گھر پر ای ڈی و انکم ٹیکس کا چھاپا پڑنا کس طرف اشارہ کرتا ہے، کون سی حقیقت بیان کرتا ہے۔ عام مسلمانوں میں بے چینی ہے اور غیر مسلمانوں میں خوشی کی لہر ہے۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ہندوستان سے قانون کا راج ختم ہو گیا ہے؟ ہماری پریشانیوں پر کسی کو خوشی کیوں ہوتی ہے؟ ہر کوئی ہمارے گھر پر بلڈوزر کیوں چلانا چاہتا ہے؟ ہماری عزت کو وہ کیوں داغدار کرنا چاہتا ہے؟ کیا ہندوستان میں مسلمان ہونا گناہ ہے؟
کہیں یہ سب کھیلا مسلمانوں کی گھر واپسی کے لئے تو نہیں؟ کبھی کبھار میں یہ سوچنے لگتا ہوں کہ کاش کہ میں مسلم نہ ہوتا۔ لیکن پھر وہیں ایمان کی پختگی یہ کہنے کو مجبور کرتی ہے کہ خوش قسمتی ہے کہ ہم مسلمان کے گھر پیدا ہوئے، ہمارے اندر ایمان کی روشنی ہے، اسی سے ہمارا سر اس دنیا میں بلند ہے اور آخرت میں بھی ان شاءاللہ بلند رہے گا۔
جہاں تک سوال ہے حکومت کا یہ بدلنے والی چیز ہے، کبھی ہماری تو کبھی اس کی ہے باری، پھر ہم ہی سر بلند ہوں گے اور مسلمان حکومت کرنے والی قوم ہے وہ پھر سے ایک بار حکومت میں آئے گی اور ہرطرف انصاف ہی انصاف قائم ہو کر رہے گا۔ نیوٹن کا دستور ہے کہ گیند کو جتنی زور سے دباؤگے اس سے کہیں زیادہ قوت کے ساتھ وہ مختلف سمت میں تیزی سے جائے گا یعنی ہم بال کو زمین میں ماریں گے تو وہ آسمان کے طرف اچھال مارے گا۔ ایک کہاوت یہ بھی مشہور ہے کہ جسے جتنا چھپایا جاتا ہے وہ اتنا زیادہ ظاہر ہوجاتا ہے۔
ہمارے رہ نماؤں کا قتل، ہمارے رہ نماؤں کی دولت پر حملہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت جلد ہمیں کام یابی ملنے والی ہے۔ وقتی طور پر، ذہنی طور پر ہم منتشر ہیں نتیجتاً پریشانیوں اور ذلت سے مقابلہ ہے لیکن ہمیشہ سے نہ ان کا وقت ایک جیسا رہا ہےنہ رہے گا اور نہ میرا ایسا تھا نہ ایسا رہے گا۔
مسلمانوں کے متعلق میں ہمیشہ ایک بات کہتا ہوں کہ یہ قوم مجاہدوں کی جماعت ہے۔ قربانی ان کا شغل ہے، اللہ کے پیارے نبی صل اللہ علیہ و سلم نے جب جہاد کی ترغیب دی ہے جس کا واضح ذکر سورہ صف میں موجود ہے۔
ہم نے جہاد کو ترک کر دیا اور ہمارے اندر قربانی کے جذبہ کا فقدان ہو گیا اس لئے ہم مغلوب ہوئے پھر جیسے ہی وہ جذبہ جب ہمارے اندر پیدا ہوگا ہم سربلند ہو جائیں گے۔ میں افغانستان اور فلسطین کے مسلمانوں کی مثال دیتا ہوں کہ دیکھئے کس طرح ان کے سر پر جہاز میں بم کی شکل میں موت گشت کرتی ہے، جب ایک بم ٹپکتا ہے تو چند لوگ ضائع ہو جاتے ہیں اور باقی بدن جھاڑ کر مجاہد کی طرح کھڑے ہو جاتے ہیں۔
بھلے ہی ہمارے دشمن یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم چند مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اور چند کی دولت کو نقصان پہنچا کر، مسلمانوں میں دہشت پیدا کر کے ہمیشہ ہمیش کے لیے امر ہو جائیں گے تو یہ ان کا خواب ہے جس کی تعبیر نہیں۔
اور انہیں یہ لگتا ہے کہ ہمارا کوئی رہنما نہیں تو یہ ان کی غلط فہمی ہے، ہمارا رہنما آسمانی کتاب، اللہ کا کلام قرآن شریف ہے، پیارے نبی صل اللہ علیہ و سلم کی سیرت ہے اور ان کی مدد ہے۔ اس لیے ہم مغلوب نہیں، ہم ہی غالب ہونے والے ہیں
محمد رفیع کی قوت ارادی مضبوط اور کام بے حد منظم
محمد رفیع کو اعزاز ملنا ان کے ساتھ ہی تمام اردو داں اور اساتذہ کے لیے باعث افتخار ہے : ڈاکٹر وسیم رضا
محمد رفیع کو مولوی عبدالحق ایوارڈ سے نوازنا ایس ایم اشرف فرید کا جرأت مندانہ قدم : پروفیسر شبیر احمد
Pingback: اردو زبان کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ناانصافی کا محمد رفیع نے حکومت پر لگایا الزام ⋆