کس کی تابوت میں کیل،کس کے سرسجے گا تاج
کس کی تابوت میں کیل،کس کے سرسجے گا تاج
پرشانت کشور کیجریوال کی طرح بہار کی حکمراں جماعت و حزب اختلاف دونوں کو چت کر سکتے ہیں، ایسا اگر نہیں ہوا تو سیکولر جماعتوں کا نقصان یقینی ہے کیوں کہ جس طرح مسلمان پکے آم کی طرح ‘ جن سوراج ‘ کے آنگن میں ٹپک رہے ہیں اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے
محمد رفیع
سال 2005 کا وہ وقت جب سابق مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان کے ہاتھ بہار میں حکومت سازی کی کنجی تھی اور وہ حمایت کے بدلے کسی مسلمان کو وزیر اعلی بنانے کی مانگ پر اڑے تھے، نتیجتاً پھر سے انتخاب ہوا اور نتیش کمار کی رہنمائی والی این ڈی اے پوری اکثریت کے ساتھ حکومت میں آگئی۔ تب سے مسلم رہنمائی، مسلمانوں کو سیاسی حصہ داری پر چپی لگ گئی۔ درمیان میں ایک مرتبہ دلی یونیورسٹی کے پروفیسر رتن لال نے مظفر پور کے ہوٹل بدھ امپیریل میں، میری موجودگی میں “
انوسوچت ذاتی جن ذاتی مہاسنگھ ” کے بینر تلے منعقد جلسہ میں درج فہرست ذات کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تم اعلان کرو کہ ہمارے بہار کا وزیر اعلی کوئی مسلمان ہوگا، دیکھو تم کیسے کام یاب ہوتے ہو۔
جلسہ کی صدارت ایل ایس کالج مظفر پور کے شعبہ تواریخ کے پروفیسر ڈاکٹر وجئے کمار کر رہے تھے۔ اب ‘ جن سوراج ‘ کے پرشانت کشور نے مسلم رہ نمائی کے سوال کو بہار کی سیاست میں بڑی مضبوطی کے ساتھ اچھال دیا ہے، حالاں کہ وہ کسی مسلمان کو وزیر اعلی بنانے کی بات نہیں کرتے ہیں لیکن سیاست میں مسلمانوں کے واجب حصہ داری کی بات کہہ کر ماحول گرم کردیا ہے۔
مسلم رہ نمائی کی بات سننے میں تو اچھی لگتی ہے لیکن کیا کسی قربانی کے بغیر یہ ممکن ہے؟ کہیں ایک بار پھر سے مسلمان ٹھگا تو نہیں جائے گا؟
میں دیکھ رہا ہوں کہ بڑی تعداد میں مسلمان ‘ جن سوراج ‘ کی طرف ڈھلے جا رہے ہیں، گزشتہ دنوں پٹنہ کے حج بھون میں مسلمانوں کی ایک بڑی بھیڑ جمع ہوئی جس میں مسلم رہ نمائی کے موضوع پر ” بہار کا سیاسی منظر نامہ اور مسلمان ” کے عنوان سے ایک پروگرام منعقد ہوا تو بھیڑ دیکھ کر سیکولر پارٹیوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ ہونا ہی تھا کیوں کہ ان کی سیاست خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
ہمیں وطن عزیز کے ساتھ اپنے تشخص کی بھی حفاظت کرنی ہے
محکمہ تعلیم بہار کی اردو دشمنی
مجھ سے لوگوں نے بتایا کہ اس جلسہ میں شرکت کرنے یہ بھی گئے اور وہ بھی گئے، گویا مسلمانوں کا رخ اس دن پٹنہ کا حج بھون ہو گیا تھا۔
میں نے مسکراتے ہوئے بس ایک معمولی سا فقرہ (کمینٹ) کس دیا ” جو جارہے ہیں سب کے سب مستقبل کے ایم ایل اے ہیں۔ ” مسلمانوں کو رجھانے کے لیے ‘ جن سوراج ‘ کے پاس بس یہی پونجی ہے کہ آفاق صاحب ان کی حمایت سے سارن ٹیچر حلقہ سے ایم ایل سی منتخب ہوئے۔
لیکن ان کے کامیابی کی اصل وجہ یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ وہ اساتذہ کی رہنمائی کرتے رہے ہیں اور گزشتہ انتخاب میں معمولی ووٹ سے ناکام ہوئے تھے۔ ان کی اساتذہ میں اچھی شبیہ ہے جس کا انہیں فائدہ ہوا اور مزید ‘ جن سوراج ‘ نے ان کی پشت پناہی کی۔ دوسرے یہ کہ مسلم رہنمائی کو لے کر ‘ جن سوراج ‘ کے رہنما پرشانت کشور بہت ہی سنجیدگی سے گفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ کل 242 سیٹوں پر ان کی پارٹی انتخاب لڑے گی جس میں 75 سیٹوں پر وہ مسلم امیدواروں کو موقع دیں گے۔ پرشانت کشور نے بابائے قوم مہاتما گاندھی کو آئیڈیل مان کر ان کے یومِ پیدائش 2 اکتوبر کے دن 2022 سے بہار کے چمپارن میں پد یاترا کی شروعات کی تھی اور اب 2 اکتوبر 2024 کو ہی انہوں نے سیاسی پارٹی کا اعلان کرنے کا اظہار خیال کیا ہے۔ انہوں نے اترپردیش کے نوجوان لڑکوں جس میں مسلم لڑکوں کی اچھی تعداد ہے۔
ان کے ذریعہ تشہیر کا کام کیا، جس علاقے یا جس ضلع میں وہ جاتے ان کے پہنچنے کے ایک مہینہ قبل سے علاقہ کے تمام اہم لوگوں کو پرشانت کشور سے ملوانے کے نام پر، ان کے نام کے گلیمر کا استعمال کر کے وہ بہتر ماحول سازی کر لیتے جس کی وجہ سے پرشانت کشور کی میٹنگ میں کافی بھیڑ اکٹھا ہوتی۔ دھیرے دھیرے اب یہ بہت بڑا کارواں بن گیا ہے۔ حج بھون میں اقلیتوں کا جلسہ اور پھر باپو سبھا گار پٹنہ میں جس طرح جن سیلاب امڈ پڑا اس سے بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے آقا کی پیشانی پر شکن آنا لازمی ہے۔ اسی درمیان راجد سپریمو لالو پرساد یادو دربھنگہ میں مکیش سہنی کے والد کی سرادھ میں شرکت کرنے پہنچے تو ان کے ساتھ عبدالباری صدیقی، محبوب علی قیصر اور ابودوجانہ وغیرہ شامل تھے۔
سوشل میڈیا پر یہ گشت کرنے لگا کہ یہ سب ‘ جن سوراج ‘ کا سائڈ افیکٹ ہے کہ لالو جی کو میدان میں آنا پر رہا ہے اور راجد کو مسلم رہنماؤں کی اہمیت اب سمجھ میں آرہی ہے۔ مرحوم شہاب الدین کا بھوت یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑا، سوال داگنے والے نے کہہ دیا، کاش کہ لالو جی شہاب الدین کے پریوار والے کے ساتھ بھی اسی خندہ
پیشانی سے پیش آتے۔ چند دنوں بعد خبر ملی کہ حنا شہاب کو پٹنہ بلا کر لالو پرساد یادو و تجسوی پرساد یادو نے ملاقات کی ہے۔
پرشانت کشور کی ٹیم میں اچھی تعداد مسلم رضاکار (وولنٹیرس) کی ہے اس لیے بڑی تعداد میں مسلمان ان سے جڑتے چلے گئے۔ پرشانت کشور کے بڑے قریبی، تب کے مظفر پور انچارج محمد سہیل نے مجھے بھی پرشانت کشور سے ملوانا چاہا تھا لیکن میں نے کہا کہ پرشانت کشور کو لے کر عوام میں، خصوصی طور پر مسلمانوں میں کافی شبہات ہیں اس لئے میرا ان سے ایک انٹرویو کروادیں تاک عوام کے سوالات ہم ان سے پوچھ لیں۔
میں نے انہیں پیشگی سوالات بھیج کر یہاں تک کہا کہ اس کے جواب ہی ہم کو دلوا دیں لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا اور ان کا قافلہ مظفر پور سے سیتامڑھی کے لئے چل پڑا۔ میرے سوالات یوں تھے
1. سب سے پہلے اپنے اس دورہ کے بارے میں مختصر میں بتائیں؟
2. آپ کے مقاصد کیا ہیں؟
3. آپ نے نریندر مودی کو دو مرتبہ وزیر اعلی گجرات، ایک بار وزیر اعظم ، نتیش کمار اور ممتا بنرجی کو بھی وزیر اعلی بنایا، میں سمجھتا ہوں موٹی رقم ملتی رہی ہوگی پھر اس روزگار کو چھوڑنے کا کیا مقصد؟
4. آپ پر یہ الزام ہے کہ آپ آج بھی اپنے پروفیشن میں ہی ہیں، لیکن یہ صاف نہیں ہے کہ آپ کس کے لیے کام کرتے ہیں؟
5. آپ پر سیدھے سیدھے یہ الزام بھی لگتا ہے کہ آپ کو کہیں نہ کہیں بھاجپا فنڈنگ کرتی ہے، آخر اتنا بڑا لشکر، گاڑی اور رہائش کا سارا نظم و انتظام آپ لیکر جو چلتے ہیں؟
6. جس طرح مسلمانوں کی حمایت آپ کو مل رہی ہے اس کی وجہ سے بھی آپ پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ آپ بھاجپا کے لئے کام کر رہے ہیں اور مسلم ووٹرس کو متاثر کرنا ہی آپ کا اصل مقصد ہے؟
7. آفاق صاحب کو ایم ایل سی بنانے میں ‘ جن سوراج ‘ پارٹی کا اہم رول رہا، کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ بہار میں نتیش کمار کا متبادل دے سکتے ہیں؟
8. آج آپ سماجی پلیٹ فارم سے سیاست میں داخل ہو چکے ہیں، اگر سیاسیت ہی آپ کا مقصد تھا تو نتیش کمار نے آپ کو سیاسی عہدہ سے بھی نوازا تھا، جیتن رام مانجھی کو وہ وزیر اعلی کی کرسی دے سکتے ہیں تو ممکن تھا کہ آپ ان کے بہتر جانشیں ثابت ہوتے؟
9. ایک بات آپ صاف کر دیں کہ آپ کے نشانے پر مودی ہے یا نتیش کمار؟
10 . کہیں ایسا تو نہیں کہ مودی، نتیش کے اشارے پر ہی آپ مہاگٹھ بندھن اور I. N D.I.A کو 2024 میں روکنے کی مہم پر نکلے ہوئے ہیں؟
11. آخر میں آپ اپنے مداحوں سے کیا کہیں گے اور عام عوام کے لیے کیا پیغام ہے؟
12 .آپ یہ بھی بتائیں کے بہار میں اردو دوسری سرکاری زبان ہے اس کی ترویج و اشاعت اور اردو کی تعلیم کے لیے آپ کا کیا لائحہ عمل ہے؟
یہ بات 30 ستمبر و یکم اکتوبر 2023 کی ہے۔ تب سے اب کے ‘ جن سوراج ‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
لیکن یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ لوک سبھا 2024 میں پرشانت کشور کا کیا رول رہا؟
محمد رفیع کو اعزاز ملنا ان کے ساتھ ہی تمام اردو داں اور اساتذہ کے لیے باعث افتخار ہے
محمد رفیع کو مولوی عبدالحق ایوارڈ سے نوازنا ایس ایم اشرف فرید کا جرأت مندانہ قدم
چناوی میدان سے وہ دور اور بالکل مطمئن تھے کہ مرکز میں بھاجپا اپنے بوتے حکومت بنانے جا رہی ہے، شاید آپ کو یاد ہوگا کہ چوتھے مرحلہ کے انتخاب کے بعد انہوں نے کہا بھی تھا کہ بھاجپا 330 سیٹیں لا رہی ہیں جبکہ وہ صرف 240 پر ہی سمٹ گئی، اس سے ان کی سوچ اور نظریہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بے شک آج ‘ جن سوراج ‘ بہار میں ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے
ایک بڑی سیاسی طاقت کی شکل میں وہ نمودار ہوئی ہے، مجھے تو ہر طرف صرف مسلمان ہی مسلمان ان کی پارٹی میں دکھ رہے ہیں، اس لیے سمجھ میں بات آتی ہے کہ بہار میں بڑا کھیلا ہونے والا ہے۔
پرشانت کشور کیجریوال کی طرح بہار کی حکمراں جماعت و حزب اختلاف دونوں کو چت کر سکتے ہیں، ایسا اگر نہیں ہوا تو سیکولر جماعتوں کا نقصان یقینی ہے، کیوں کہ جس طرح مسلمان پکے آم کی طرح جن سوراج کے آنگن میں ٹپک رہے ہیں اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے۔ دراصل مسلم ووٹرس تمام سیاسی جماعتوں کے نشانے پر ہیں کوئی اس کی حمایت تو کوئی مخالفت کے نام پر اپنے اپنے ووٹرس کو گول بند کرنا چاہتا ہے۔
کیوں کہ انہیں پتا ہے کہ مسلمانوں کو ہم اموشنلی بلیک میل کر سکتے ہیں۔ سیکولر جماعتوں کو چھوڑ دیں تو بھاجپا بھی مسلم ووٹ کی فکر میں ہے
اسے مسلمانوں کا ووٹ نہیں چاہئے لیکن مسلمانوں کے نام پر ہندو ووٹرس کی گول بندی اس کا مقصد ہے۔ نتیش کمار اقلیتی مسلمانوں کے لیے کئے گئے کاموں کی بنیاد پر ان کی حمایت کے خواہاں ہیں، پرشانت کشور سیاسی حصہ داری کے نام پر حمایت چاہتے ہیں تو راجد و کانگریس جیسی پارٹیوں کے پاس سیکولرزم و بھاجپا کا بھوت ہے جسے دکھا کر وہ مسلمانوں کی حمایت چاہتے ہیں۔ لیکن حنا شہاب سے لالو اور تیجسوی کی ملاقات رنگ لا سکتی ہے۔
میں نے اس وقت بھی راجد رہنما کی جانب اشارہ کیا تھا جب فیاض صاحب کو راجیہ سبھا بھیجا گیا تھا لیکن تب تو ان کی آنکھ پر پٹی بندھی تھی اور یہ گمان تھا کہ مسلمانوں کے پاس دوسرا کوئی متبادل نہیں ہے وہ جائیں گے کہاں، لیکن جب دھیرے دھیرے
مسلمانوں کی نارضگی بڑھنے لگی اور پرشانت کشور کے ‘ جن سوراج ‘ میں وہ شامل ہونے لگے تب جا کر آنکھ کی پٹی ڈھیلی ہوئی، گانٹھ ابھی کھلنا باقی ہے۔
وزیر اعلی بہار کے متعلق میں صاف کر دوں کہ مسلمان نتیش کمار سے الفت رکھتے ہیں، وہ ساتھ آنا بھی چاہتے ہیں۔
لیکن بیچ میں کچھ ایسا ہو جاتا ہے جو اسے جڑنے نہیں دیتا، سی اے اے کی جد یو نے پارلیمنٹ میں حمایت کی تھی لیکن این آر سی اور این پی آر پر مخالفت کی تھی، نتیش کمار نے یہ صاف کر دیا تھا کہ بہار میں اسے وہ نافذ نہیں ہونے دیں گے، دفعہ 370 اور تین طلاق بل کا بھی جد یو نے زبردست مخالفت کیا تھا۔
لیکن پارلیمنٹ سے واک آؤٹ کرنے سے عوام میں غلط میسیج گیا۔ ابھی وقف ترمیمی بل پر معزز وزیر اعلی بہار جناب نتیش کمار کو حساس رہنے کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ میں بول رہے للن سنگھ پر لگام لگانا ہوگا نہیں تو گزشتہ دنوں کی طرح بنا ہوا کام بگڑ جائے گا۔ مسلمان کیا چیز ہے، ایک بار رویش کمار نے اوویسی کے بارے میں کہا تھا، کروڑوں کی مالیت کا مالک اس مسلمان کے لیےپاگل ہے جو ایک پلیٹ بریانی پر بک جاتا ہے۔
خیراب سال 2025 کا انتخاب قریب ہے اپنے اپنے مطابق سبھی پارٹیاں گوٹی پھینک رہی ہیں، اب دیکھنا ہے کہ کون پرشانت کشور کا نشانہ بنتا ہے، کس کی تابوت میں کیل اور کس کے سر سجے گا تاج
محمد رفیع
7091937560
rafimfp@gmail.com
Pingback: بہار و بنگال میں اردو کی صورت حال ⋆
Pingback: سیکریٹری و متولیان کو سروے میں وقف جائداد کو درج کرانے کا ضلع اوقاف کمیٹی کا مشورہ
Pingback: آل انڈیا مجلس مشاورت بہار کے صدر پروفیسر ابوذر کمال الدین نے وزیر اعلی بہار سے وقف بل کے مخالفت کی اپیل کی