جی 20 تعارف امیدیں اور ذمے داریاں

Spread the love

جی 20 تعارف امیدیں اور ذمے داریاں

علیزے نجف

اس وقت جی20 اجلاس اپنے پورے عروج پہ ہے تمام ممالک کے صدور و سربراہان اس وقت ہندوستان میں آ چکے ہیں، ہندوستان نے ان مہمانوں کی میزبانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے وسودیو کٹمبکم کی تھیم کا جلوہ بھی کچھ کم پرکشش نہیں۔

اس میں عورتوں پہ خصوصی توجہ دی گئی ہے خیر بات اس وقت جی20 کی ہو رہی ہے تو سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ جی 20 کیا ہے اور کن مقاصد کے تحت اس کا وجود عمل میں آیا۔خیال رہے کہ جی20 سے پہلے جی7 بنا تھا 1970 میں عالمی معیشت کئی طرح کے کرائسز سے گذر رہی تھی اس کرائسز کی ایک سب سے بڑی وجہ عرب ملکوں کا ان ملکوں کو تیل بیچنے سے انکار کرنا تھا جو اسرائیل کی پشت پناہی کررہے تھے اس وقت کئی سارے ممالک کی اکنامی تیل پہ انحصار کرتی تھی

جب اس کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو امریکہ اور کئی سارے یوروپی ممالک کو کئی طرح کی معاشی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ان ممالک نے غور و فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں مل کر اس مشکل کو حل کرنا ہوگا اور ایسی پالیسیز بنانی ہوں گی جس میں ہم سب کا باہمی تعاون بھی شامل ہو جو کہ کسادبازاری کو کم کرتے ہوئے ہمیں معاشی تحفظ دے سکے

جس پہ کہ ان ممالک نے اتفاق کیا اور ان کی پہلی میٹنگ امریکہ میں ان ملکوں کے فائنانس منسٹر کے بیچ میں ہوئی جس میں امریکہ، فرانس، یو۔ کے، اور ویسٹ جرمنی شامل تھے دو سال بعد اس میں اٹلی اور جاپان بھی شامل ہو گئے

1975 میں پہلی جی6 کی باقاعدہ افیشیل کی میٹنگ ہوتی ہے پھر 1976 میں کینیڈا بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے اس طرح وہ فائنلی جی7 گروپ بن جاتا ہے

یہ سارے ہی ترقی یافتہ ممالک تھے ان کے یہاں جمہوری نظام کو برتری حاصل تھی جو انسانی حقوق کو تحفظ دینے کا دعویٰ رکھتے تھے یہ سارے ممالک آئل کرائسز کی مار جھیل رہے تھے ان سب کا مقصد ایک ہی تھا کہ باہمی تعاون کے ساتھ ایسی تدابیر اختیار کی جائیں جو کہ اس مشکل سے نمٹنے میں معاون ہو۔

رہی بات جی20 کی تو اس کی بھی شروعات اکنامک کرائسز کی وجہ سے ہوئی تھی 1997 کی ایشین فائنانشیل کرائسز جی20 کے بننے کی اصل وجہ بنی

اس دوران ساؤتھ کوریا، انڈونیشیا، اور تھائی لینڈ ان ملکوں کی اکنامی میں ایک بھیانک کرائسز پیدا ہوا اس کی وجہ سے سنگاپور، چائنا، تائیوان جیسے کئی سارے ممالک کی معیشت بھی متاثر ہوئی اس ملک کی کرنسی کی ویلیو گراوٹ کا شکار ہوئی بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا

اس کی وجہ سے عوام میں زبردست بے چینی پیدا ہوئی جو کہ فسادات کی وجہ بھی بنی، اس کے بعد رشیا میں بھی فائنانشیل کرائسز پیدا ہوا اس وقت تک ماہرین نے اس بات کو بخوبی محسوس کر لیا تھا کہ دنیا کی معیشت گلوبلائزیشن کے تحت اپنا اثر دکھا رہی ہے

ایک ملک کی اکنامی دوسرے ملک کو متاثر کر رہی ہے اس لئے اکنامی کرائسز سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمیں ترقی پزیر ممالک کے ساتھ بھی مل کر کام کرنا ہوگا اسی مقصد کے تحت 1999 میں جی7 کے فائنانس منسٹر کی میٹنگ کے دوران جی20 کی بنیاد رکھی گئی

جی20 میں ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ترقی پزیر ممالک کو بھی شامل کیا گیا اس میں جی7 کے تمام ممبر شامل رہے اس کے علاوہ انھوں نے دنیا کے ان ممالک کو شامل کرنے کی دعوت دی جن کے ملک کی اکنامی گروتھ بہت اچھا تھا جیسے چین ، انڈیا ، برازیل، ساؤتھ افریقہ، روس یہ وہ ممالک تھے جنہیں جی20 میں شامل کیا گیا پھر ایسے ممالک کو شامل کیا گیا جو اپنے خطے میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت رکھتے ہیں

اس میں ایشیا سے انڈونیشیا، ساؤتھ کوریا، ساؤتھ امریکہ سے برازیل، ارجنٹینا، نارتھ امریکہ سے میکسیکو، اوشنیا سے آسٹریلیا، مڈل ایسٹ سے سعودی عربیہ اور ترکی، یوروپی ممالک کے علاوہ یوروپی یونین کو بھی شامل کیا گیا ہے

اس طرح یہ وہ بیس ممالک ہیں جو دنیا کی اکنامی گروتھ میں ایک بڑا کردار ادا کر رہے ہیں، فوجی طاقت، سیاسی استحکام اور ابادی کے اعتبار سے بھی یہ ممالک ایک اہم مقام رکھتے ہیں، جی20 کے قائم ہونے کا اصل مقصد چوں کہ اقتصادی بدحالی پہ قابو پانا تھا اس لئے اس کی میٹنگ انھیں ممالک کے فائنانس منسٹرز اور سینٹرل بینک گورنرز کے درمیان ہی ہوتی ہے

یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا یہاں تک کہ جب 2008 میں گلوبل فائنانشیل کرائسز کا سامنا کرنا پڑا تو ان تمام ممالک نے یہ محسوس کیا کہ ہمیں اس میں کچھ مزید سنجیدہ اقدامات کو شامل کرنا چاہیے اس کے لیے انھوں نے ان تمام ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو بھی اس میٹنگ میں شامل ہونے کی تجویز رکھی جس پہ کہ 2008 میں عمل کیا گیا اس کے ذریعے اس گروپ میں شامل تمام ممالک جی ڈی پی گروتھ میں % 85 کنٹریبیوٹ کرتے ہیں وہ اس میٹنگ میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ مزید تجارتی مواقع کیسے پیدا کئے جائیں اور کس طرح بےجا پابندیوں سے نجات حاصل کی جائے

سبھی ممالک کی اکنامی کو بہتر بنانے کے لیے 4 ٹریلین ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں، ہر سال پابندی سے یہ جی20 کی میٹنگ ہو رہی ہے، ہر سال باری باری انھیں ممبر ممالک میں سے کسی کو جی20 کا صدر بنایا جاتا ہے، اس بار انڈیا کو میزبانی کا موقع ملا ہے میزبان ملک کے پاس یہ حق ہوتا ہے کہ

وہ جس ملک کو چاہے بطور مہمان انوائیٹ کر سکتا ہے ہندوستان نے مزید نو ممالک کو دعوت دی ہے جس میں ماریشس، نیدرلینڈ، نائجیریا، سنگا پور، اسپین، یو۔ اے۔ ای۔ بنگلہ دیش، مصر، عمان، یہ ممالک بھی اس میٹنگ میں شامل ہونے کے لیے ہندوستان میں آ چکے ہیں

اس کے علاوہ اور کئی یونین بھی شامل ہوتی ہیں جو اس بار بھی مدعو ہیں۔ جی20 کے اس اجلاس میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور چین کے صدر شی جن پنگ شرکت نہیں کر رہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ روس کی نمائندگی نہیں ہوگی ان کی جگہ ان کے نمائندوں نے شرکت کیا ہے۔

اس جی20 میٹنگ میں صرف عالمی معیشت کی ترقی اور اس راہ میں درپیش مشکلات کو ختم کرنے پہ ہی بات نہیں کی جائے گی بلکہ اس میٹنگ میں کلائمیٹ چینج، اور sustainable development پہ بھی خصوصی توجہ دی جائے گی ۔ یہ ایشوز انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ان پر ان ممالک کے صدور و وزرائے اعظم کا اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔

ہر ملک اپنا اپنا مفاد اور پالیسیز اور ایجنڈا رکھتا ہے ایسے میں تمام ممالک کو کسی ایسے فیصلے پہ جمع کر پانا یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے کیوں کہ ہر لیڈر کی اپنی ایک الگ سوچ بھی ہو سکتی ہے جو کہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے۔

ہمیں اس بات پہ فخر ہے کہ ہمارا ملک ترقی پزیر ممالک میں سرفہرست ہے اور اس کی ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ بھی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ بہت جلد وہ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا، ایک طرف عالمی سطح پہ ہندوستان مسلسل ترقی کر رہا ہے دوسری طرف اس ملک کی عوام آج بھی خط مفلسی کے نیچے زندگی گزارنے پہ مجبور ہے

ان کی بنیادی ضروریات بھی بمشکل پوری ہو رہی ہیں، اس وقت ملک میں ملازمتوں کی کمی اور زرعی بحران نامی دو چیلنجز نے عوامی سطح پہ معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ کی صورت میں نظر آ رہی ہیں، عوامی سطح پہ پیدا ہونے والی معاشی سست رفتاری پہ حکومت کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے

ہمارے ملک کے پاس تیسرا بڑا اسٹارٹ اپ کا مرکز ہے، نوجوان اب انٹرپرینیور ، اسٹارٹ اپ کی دنیا میں قسمت آزمائی کرنے کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں جو کہ خوش آئند ہے اس کو مزید بڑھاوا دینے کے لیے ایجوکیشن سسٹم کو بھی اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے

جو سرمایہ کاری کرنے کے لیے صحیح رہنمائی فراہم کرے۔  ہمارے خلائی شعبے کی کام یابیوں کا دنیا بھر میں جشن منایا جا رہاہے ہم نے چندریان 3 کی کامیابی سے بےشک تاریخ میں اپنا نام جلی حروف میں لکھ دیا ہے

اس کامیابی کو مزید اثر انگیز بنانے کے لیے اس ملک کے عوام کو اتنی تعلیم تو دینی ضروری ہے جس سے وہ سمجھ سکے کہ چندریان کیا ہے وہ تبھی سوچیں گے جب ان کے پیٹ کو روٹی اور دماغ کو صحیح علم فراہم کیا جائے گا۔

ہم خوش ہیں کہ ہمارا ملک آگے بڑھ رہا ہے لیکن یہ خوشی ہمارے لئے تبھی دیرپا ہو گی جب صحیح معنوں میں اس ملک کا ہر شہری اتنی معاشی خودمختاری حاصل کر لے جہاں وہ بھوکے پیٹ سونے پہ مجبور نہ ہو جہاں وہ زمانے کی ترقی کو سمجھنے کی صلاحیت پالے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *