کچھ تبسم زیر لب سب کا بھلا
کچھ تبسم زیر لب سب کا بھلا
انس مسرورانصاری
آج کے اخبارات کی بعض خبریں نہایت دل چسپ ہیں۔ مثال کے طور پریہ یہ دو خبریں۔
ہندوستان کو جدید سائنس کی دنیا کی جدید ترین تجربہ گاہ بنانے کا عزم(پی، ایم مودی)
۔۔ اترپردیش ایجوکیشن سروس سلیکشن کمیشن کی تشکیل جدید(وزیراعلایوگی آدتیہ ناتھ)
کتنی اچھی ہیں یہ خبریں۔ لگتا ہے کہ ہمارا پیارا ملک ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔
ہمیں خوش ہونا چاہیے ۔ کمیشن کی جدید کاری دوبارہ کب ہوگی یہ نہیں معلوم۔ سہ بار کی تشکیل جدید کا ابھی کوئی اندازہ نہیں۔
جب کوئی آدمی نیتابنتاہے تو عام آدمی نہیں رہ جاتا۔ وہ وی ، آئی،پی بن جاتاہے اور اس طرح وہ عام آدمی کے رابطے سے کٹ جاتاہے۔
جو لوگ اتنی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں وہ دیکھ نہیں پاتے کہ ایک گاؤں کے آخری سرے پربنے چھوٹے سے ایک چھپر میں کوئی ماں اپنے بھوکے لال کی تسلی کے لیے چولھے پر چڑھی
پتیلی میں پتھر ابال رہی ہے۔اگر وہ جانتے تو سب سے پہلے عام آدمی کے مسائل پر ان کی نظر یں ہو تیں۔ آسمان کی بلندیوں کوتکنے والوں کو زمین کی خبر ہی نہیں۔
اگر وہ زمینی حقیقت کو جانتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ ملک کو مہنگائی اور بے روزگاری کے عفریت نگلتے جارہے ہیں۔ پورے ملک میں بے چینی اور پریشان حالی ہے۔ عام آدمی کو زندگی کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔
کمیشن کی جدیدکاری ہوتی رہتی ہے اور عام آدمی بہلتارہتاہے، حکومت کے کام چلتے رہتے ہیں۔ آج ملک میں یہی کچھ ہورہاہے۔ آج مہنگائی اور بے روزگار ی آسمان کو چھو رہی ہے بلکہ دن میں آسمان کے تارے دکھا رہی ہے۔
مشہور ہے کہ خواتین بہت فضول خرچ ہوتی ہیں لیکن مہنگائی سے ایک بات کا فائدہ یہ ہوا کہ خواتین میں کفایت شعاری کی خصلت آرہی ہے۔باورچی خانے کا بجٹ محدود ہوکررہ گیا ہے۔ وہ بے چاریاں کیا کریں۔
آمدنی گھٹ رہی ہے اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ایسے میں کفایت شعاری کی ایک صورت یہ سامنے آئی کہ مسزکھنہ نے اپنی چالیسویں سال گرہ کے موقع پر صرف پینتیس موم بتیاں جلائیں اورپانچ موم بتیوں کی بچت کی۔
ہمارے وزیراعلااورپردھان منتری عام نیتا جیسے نہیں ہیں۔
انھیں غریبوں کی غریبی کا بڑا احساس ہے۔ اسی لیے وہ غریب غربا کو گاھے بہ گاھے ڈوز پلاتے رہتے ہیں۔ آپ بھلے اس کانام ۔ وعدہ ۔ رکھ لیں پر ہم اسے ڈوزہی کہتے ہیں۔ سرکاری ڈوزپیتے پیتے اب پبلک بدہضمی کی شکایت میں مبتلا ہو رہی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے۔ ہمارے دانش مند کہہ رہے تھے کہ حکومت عوام کو جو مفت اناج دے رہی تھی اب اس میں کٹوتی کرکے نصف اناج کردیا گیا ہے
شاید ہمارے پردھان منتری کوکہیں سے پبلک کی بدہضمی کی خبر ہوگئی ہے۔ اسی لیے انھیں یہ قدم اٹھاناپڑاکہ زیادہ کھانے پینے سے بدہضمی ہوہی جاتی ہے۔اس لیے انھوں نے خوراک کو آدھا کر دیا ہے۔
چھپن انچ کا سینہ رکھنے والے ہمارے پردھان منتری بہت دلیر ہیں۔ اسی لیے وہ کسی سے نہیں ڈرتے۔ وہ۔۔ من کی بات۔۔ من مانے طریقے پرکرتے ہیں۔مگر ایسا نہیں کہ وہ عوام کے دکھ درد کا احساس نہیں رکھتے۔
ایک بار کسی ملک کے دورے پر گئے تو دستور کے مطابق ان کاخاصاعملہ،بہت قریبی لوگ،خوشامد پسندوں کا طائفہ، میڈیا کے لوگ سب شامل و
شریک تھے۔ یہ شان ہے ہمارے پردھان منتری کی.
جہاز میں بیٹھے بیٹھے اچانک ان کے من میں بھارت واسیوں کی محبت جاگ پڑی۔ انھوں نے اپنی جیب سے پانچ سو روپئے کا ایک نوٹ نکالا۔ اپنے قریبی عزیزوں سے مشورہ کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر میں پانچ سو روپئے کایہ نوٹ جہاز سے نیچے گراؤں توجس آدمی کو ملے گا اس کا کتنا بھلا ہو گا۔
لوگوں نے ان کے خیال کی تعریف کی۔ کاشان دار آئیڈیا ہے ۔ایک مشیر نے رائے دی کہ اگر وہ سو سو روپئے کے پانچ نوٹ زمین پر گرائیں تو پانچ لوگوں کابھلا ہوگا۔
پردھان منتری بہت خوش ہو ئے۔ اچھی رائے تھی۔ لیکن تبھی ایک دوسرے حاشیہ نشین نے کہا۔
پچاس پچاس روپیوں کے دس دس نوٹ گرائے جائیں تو دس لوگوں کا بھلا ہوگا۔ پردھان منتری سوچ میں پڑگئے۔ ایک میڈیا والا سب کچھ سن رہا تھا۔ اس سے نہ رہا گیا۔
وہ بولا۔۔ پردھان منتری اگر جہاز سے خود ہی زمین پر چھلانگ لگا دیں تو ساری جنتا کا بھلا ہوگا۔
انس مسرورانصاری
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (انڈیا)
سکراول، اردو بازار، ٹانڈہ۔ امبیڈکر نگر۔ (یو، پی)
وہاٹس ایپ نمبر9453347784/
Pingback: تعریف کا جادو ⋆ انس مسرورانصاری
Pingback: آم کی چٹنی ⋆ اردو دنیا انس مسرورؔانصاری
Pingback: بک رہا ہوں جنوں میں قسط دوم ⋆ اردو دنیا
Pingback: کڑوا شربت اردو دنیا انس مسرورانصاری