سر سید کے بعد کیا کوئی دوسرا سر سید پیدا ہوگا
سر سید کے بعد کیا کوئی دوسرا سر سید پیدا ہوگا ؟
1857 میں مسلمانوں کی جو صورت حال تھی، آج کے حالات اس سے بھی زیادہ سنگین ہیں،اس وقت کوئی ایسی آفت نہیں تھی، جو مسلمانوں پر نہ آتی۔ گر آسمان سے بجلی بھی گرتی تو الزام مسلمانوں پر ہی عائد ہوتا کہ مسلمانوں نے گرائی ہے۔
سر سید قوم کی بربادی کا سارا ماجرا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے.ان کے اندر قوم کی بربادی کا درد تھا، تڑپ رہے تھے، ایک بار سوچا دہلی چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں ان سے یہ تباہی دیکھی نہیں جاتی، پھر ان کو خیال آیا قوم کو اس حالت میں چھوڑ کر جانا بزدلی ہے.رات دن قوم کی بھلائی کے بارے میں سوچتے رہے.
آخر ان کو حل مل گیا.انہوں نے بہت غور و خوص کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کی تباہی و بربادی کی سب سے بڑی وجہ جدید تعلیم کی کمی ہے. چناں چہ انہوں نے اس کمی کو دور کرنے کے لئے علی گڑھ محمڈن اینگلواور ینٹل کالج قائم کیا.جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے پوری دنیا میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے.
سر سید نے جو خواب دیکھا تھا.. وہ شرمندۂ تعبیر ہوا۔سرسید تحریک کے زیر اثر مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان عام ہوا.اس کے لئے انہیں کافی مشکلوں اور مشقتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
لیکن اپنی قوم کو انہوں نے جو دیا آج تک پھر کوئی دوسرا سرسید نہیں دے سکا.جس کا نتیجہ یہ ہوا سر سید نے علم کے میدان میں جو سماجی اصلاح کی تھی آہستہ اہستہ ایک بار پھر وہ زوال پزیر ہے. آج مسلمان پھر تعلیم کے میدان میں پیچھے ہو گئے ہیں. مسلمانوں کا زوال تیزی سے ہو رہا ہے.حکومت کا رویہ بھی مسلمانوں کے تیں وہی ہے جوغدر کے وقت انگریزوں کا تھا
اس وقت ملک میں کہیں بھی اگر کوئی حادثہ یا کوئی سازش ہوتی ہے، الزام سیدھا مسلمانوں کے سر جاتا ہے.مسلمانوں کو ملک سے باہر کرنے کی سازش ہو رہی ہے.
نئے نئے قوانین ان کے خلاف بنائے جا رہے ہیں. ہمارے درسگاہوں کو بند کیا جا رہا ہے۔ ہماری مساجدیں برباد کی جا رہی ہیں.مسلمانوں کو گو کشی(گؤ ہتیا) کے نام پر قتل کیا جا رہا ہے.ان کے کاروبار کو بربار کیا جا رہا ہے.غرض مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا سارا بیڑا حکومت نے اٹھا رکھا ہے.
اگر ان صورت حال کا غدر سے موازنہ کیا جائے، تو اندازہ ہوگا آج کے حالات بھی غدر سے کم نہیں ہیں..اس وقت بھی قوم غفلت کی نیند سو رہی تھی آج بھی سو رہی ہے..
سوال یہ پیدا ہوتا ہے ، کوئی دوسرا سر سید اس عہد میں پیدا ہوگا یا نہیں؟ جو مسلمانوں کو ایک بار پھر سے بیدار کر سکے ۔ان کا کھویا ہوا وقار بحال کر سکے.ایک بار بھر نشاۃ ثانیہ کی ضروت ہے. سر سید نے جو خدمات انجام دیں تھیں، وہ اس سلسلے کو آگے بڑھا سکے اور مسلمانوں کی صحیح رہ نمائی بھی کر سکے
کب تک ہم سر سید کے کارناموں پر فخر کریں گے.بلکہ ہمیں اپنے بزرگوں سے سبق حاصل کرکے خود اپنے معاشرے کو بہتر بنانے کی کوشش کرنا چاہیے.ورنہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا مشن صرف تاریخ بن کر رہ جائے گا. ہمیں اس مشن کو آگے بڑھانا ہے ۔ جس کے لیے ہمیں خود سر سید کی طرح کام کرنا ہے.کم سے کم اپنے آس پاس کے لوگوں کو بیدار کریں..کون بچہ اسکول جا رہا ہے کون نہیں جا رہا ہے، اس کو اسکول پہنچایا جائے
تعلیم کے میدان میں کام کرنے کے علاوہ سیاست میں مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے.حالاں کہ اُس وقت کے حالات ایسے تھے کہ سرسید نے مسلمانوں کو سیاست میں آنے سے منع کر دیا تھا.کیوں کہ انگریزوں نے جو حکومت حاصل کی تھی، وہ مسلمانوں سے جبر و ظلم کر کے حاصل کی تھی۔
1857کی جو ناکام بغاوت ہوئی تھی، اس میں سبھی مذاہب کے لوگوں نے بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں مل جل کر کے حصہ لیا تھا.چونکہ حکومت مسلمانوں کی تھی انگریزوں کو یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی، اصل باغی صرف مسلمان ہیں
اس لیے انگریز مسلمانوں کو دبانے کی حتیٰ الامکان کوشش کر تے رہے۔ ان کو خوف تھا کہیں پھر سے یہ بغاوت نہ کر دیں.سر سید نے انگریزوں کی یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا. لیکن اس وقت کے لوگوں نے انہیں انگریزوں کا ہمدرد اور ایجینڈ مان کر ان کو گالیاں دیں۔ سر سید سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتے رہے.ان کے اس مشورے کی حمایت پنڈت نہرو نے بھی کی تھی. دراصل سرسید کا ماننا تھا کہ مسلمان پہلے تعلیم حاصل کر کے اس قابل بن جائیں کہ وہ حکومت کی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھ سکیں
چناں چہ سرسید کی انتھک کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پڑھ کر نکلنے والے طلبہ نے سیاست میں بھی کارہائے نمایاخدمات انجام دینا شروع کیں
علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد مولانا حسرت موہانی نے انگریزوں کے خلاف پارلیمنٹ میں پہلی بار مکمل آزادی کا بل پیش کیا. ان کی اسی جرأت کا نتیجہ ہے ،ہم آج آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں.
اسی طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک اور سپوت مولاناابوالکلام آزاد جو آزاد ہندستان کے پہلے وزیر تعلیم مقر ہوئے، انہوں نے سرسید کے خیال و افکار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ،عالمی سطح پر تعلیم کا ایسا نظام قائم کیا کہ آج ہم پوری دنیا سے آنکھ سے آنکھ ملا کر ہم بات کر سکتے ہیں۔
سرسید نے جو خواب دیکھا تھا اس کو مزید آگے بڑھانے میں مولانا نے جو خدمات انجام دیں ہیں، وہ سر سید یا علی گڑھ تحریک کاا ہم حصہ ہیں۔اسی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ذاکر حسین صدر جمہوریہ بنتے ہیں۔اسی طرح بہت سے طلبہ و طالبات نے یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی میں بہترین کارگردگی پیش کی۔
غرض اس وقت سرسید نے جس مقصد کے تحت مسلمانوں کو سیاست میں آنے سے منع کیا تھا،اب وہ مقصد پورا ہو گیا ہے۔اب کچھ مسلمان ایسے ہیں، جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے قانون اور حکومت کے داؤ پیچ کو بخوبی سمجھ رہے ہیں اور پارلیمنٹ میں قوم کی آوازبلند کر رہے ہیں۔
مگر پھر بھی ابھی تعداد کافی کم ہے۔اس لئے جو بھی تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ ان کو سیاست میں گھسنا بے حد لازمی ہے، تاکہ وہ سسٹم کو سہی طریقے سے سمجھ سکیں اور مسلمانوں کی سہی رہنمائی بھی کر سکیں۔ مسلمانوں کی جو صورت حال ہے، اس وقت ان کو اس مصیبت سے نکالنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔مسلمان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیاست میں قدم رکھیں تاکہ سر سید کا جو مشن ہے وہ مزید اآگے بڑھ سکے۔
اس عہد میں کوئی دوسرا سر سید ہو یا نہ ہو ہمیں اس کا انتظار نہیں کرنا ہے بلکہ سر سید نے جو خدمات انجام دیں ہیں ،آج وہ سبھی ہمارے درمیان موجود ہیں، ان کے جو کارنامے ہیں، اس سے ہمیں استفادہ کرتے ہوئے سرسید تحریک کے مشن کوآگے بڑھانا ہوگا۔اب ہر ایک مسلمان کے اندر ایک سر سید موجود ہونا چاہیے۔ اسی میں مسلمانوں کی فلاح و بہود ہے۔
ڈاکٹر اشہر سوداگر
(اسسٹنٹ پروفیسر)
سکراول پورب، ٹانڈہ ،امبیڈکر نگر،یوپی224190
Pingback: ایک مثالی شخصیت، ڈاکٹر احمد اشفاق کریم ⋆ محمد رفیع