اتر پردیش گورنمنٹ کی نئی چال

Spread the love

اتر پردیش گورنمنٹ کی نئی چال

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

عرصہ سے عرب اور یورپین ممالک کے مسلمان غذائی اجناس واشیاء پر حلال سرٹیفکٹ اور حلال مارکہ دیکھ کر خریداری کیا کرتے ہیں، ہندوستان میں بھی یہاں کے صارفین کسی چیز کے استعمال سے قبل یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ حلال ہے یا نہیں، ایسا مسلمان شرعی تقاضوں کی تکمیل کی غرض سے کرتے ہیں

اور دوسرے صارفین کے ذہن میں یہ بات ملحوظ رہتی ہے کہ حلال سند یافتہ اشیاء یقینی طور پر دوسری مصنوعات سے پاکیزہ اور صفائی وستھرائی کے اعتار سے ممتاز ہوتے ہیں اور ان کے استعمال سے صحت پر بُرے اثرات کا امکان کم رہتاہے، اس طرح مصنوعات چاہے، مسلم کمپنی کی ہوں یا غیر مسلم کمپنی کے مصنوعات حلال سند یافتہ کا مارکیٹ دوسرے کی بہ نسبت ملک اور بیرون ملک میں بڑھتا جا رہا تھا

با خبر ذرائع کے مطابق صرف اتر پردیش میں حلال سند یافتہ مصنوعات کی مارکیٹنگ تیس ہزار کروڑ روپے کی ہے، ہوٹلوں کی بات کریں تو یوپی میں حلال سرٹیفکٹ والے ہوٹل اور ریسٹیورینٹس کی تعداد چودہ سو ہے،

آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کے تحت سنتاون (57)مسلم ممالک میں مصنوعات کی فروختگی کے لیے حلال سرٹیفکٹ حاصل کرنا ضروری ہے

اسی لیے بابا رام دیو کی کمپنی ”پتنجلی“ کو بھی عرب ممالک میں اپنی آیورویدک دواؤں کی سپلائی کے لیے حلال سرٹیفکٹ لینا پڑا تھا۔اتر پردیش کی یوگی حکومت نے حلال سند یافتہ اشیاء کو غیر قانونی قرار دے کر نفرت کا ایک اور بازار گرم کر دیا ہے

اور تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ اس سے مسلم کمپنیوں اور حلال سند دینے والوں کا نقصان ہوگا اور ان کا روباریوں کے درمیان خصوصیت سے نفرت کی خلیج بڑھے گی جن کو حلال کی سند حاصل ہے اور جو اس سے الگ ہیں۔

اس کام کے لیے پہلے 17نومبر 2023کو موتی جھیل کالونی عیش باغ لکھنؤ کے رہنے والے شلیندر کمار شرما کو کھڑا کیا گیا اور حضرت گنج پولیس تھانے میں حلال سند جاری کرنے کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی اور پولیس نے فوری طور پر اس پر دو مذہبی طبقات کے خلاف دشمنی کو فروغ دینے والی دفعہ153A، دھوکہ دہی کی دفعہ 420، جعلی دستاویز بنانے کی دفعہ 467، دھوکہ دہی کے لیے جعلی دستاویز کے استعمال کی دفعہ 471، غیر قانونی طور پر رقم وصولی کی دفعہ 384، مجرمانہ سازش کی دفعہ 120B، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی دفعہ298اور عوامی فساد بیانات کے ذریعہ پھیلانے کی دفعہ 505لگا کر اسے سنگین جرم بنا دیا۔

یہ ایف آئی آر جمعیت علماء ہند دہلی کی حلال ٹرسٹ، حلال کونسلنگ آف انڈیا، چننئی(مدراس) کی حلال انڈیا پرائیوٹ لمٹیڈ اور ممبئی مہاراشٹر کی جمعیت علماء کے ساتھ بعض نا معلوم افراد کو بھی شامل کیا گیاہے، جن کے بارے میں مدعی کی رائے ہے کہ وہ اس نام پر غلط طریقے سے رقم اُگاہی کا کام کرتے رہے ہیں۔

ہمارے یہاں کی پولیس کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ ایف آئی آر کس طرح برسوں سرد بستے میں پڑا رہتا ہے، لیکن جب کام حکومت کی منشاء پر ہو تو بلی تھیلے سے فورا باہر آجاتی ہے

اتنی عجلت کے باجود اتر پردیش حکومت نے عدالت کے فیصلے کا انتظار نہیں کیا، بلکہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے حکم پر فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کی ایڈیشنل چیف سکریٹری انشا سنگھ نے احکامات جاری کر کے تمام حلال سند یافتہ اشیاء کی تیاری، ذخیرہ اندوزی، خرید وفروخت پر پابندی لگادی ہے اور لکھنؤ کی دوکانوں پر چھاپہ ماری شروع ہو گئی ہے

خوردنی اشیاء کے ساتھ کاسمیٹک اور دوائیں بھی شامل ہیں، صرف ان مصنوعات کو علاحدہ رکھا گیا ہے جو حکومت دوسرے ملکوں کو بر آمد کرتی ہے۔ ہندوستان میں 2008تک غذائی اجناس اور اس کے متعلقات کو قابو میں رکھنے کے لیے آٹھ الگ الگ قوانین تھے جو خوردونوش کی اشیاء کو کنٹرول کرتے تھے

ان قوانین کو منسوخ کرکے ان کی جگہ پر دو قانون بنائے گئے، ایک قانون کنسولٹیڈ فوڈ لاء اور دوسرا فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈ ر ڈرایکٹ2006کے نام سے جانا جاتا ہے،یہ فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈ اتھارٹی آف انڈیا کے تحت کنٹرول کیا جاتا ہے

حکومت اتر پردیش نے فوڈ سیفٹی اینڈ اسٹینڈرڈز ایکٹ کے سیکشن 3(1) (A) ZF) (1)کے تحت یہ پابندیاں لگائی ہیں، حلال سرٹیفکٹ جاری کرنے والے اداروں پر سند فراہم کرنے کے نام پر خطیر رقم لینے اور ہر سال تجدید کے نام پر رقم اُگاہی کا بھی الزام ہے

ہو سکتا ہے کہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی، حالاں کہ حلال سند فراہم کرنے کی توثیق مرکزی وزارت تجارت کے نوٹی فیکیشن 2022-23/25کے مطابق مرکزی حکومت کی نظر میں جائز ہے۔

حلال سند فراہم کرنے والے اداروں نے اس فیصلے پر ضروری اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے،ہوسکتا ہے وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں، لیکن جب تک فیصلہ آئے گا، ہندوستانی تجارت کو اس حوالہ سے غیر معمولی نقصان ہوگا، جو دکان دار اسٹاک رکھے ہوئے تھے، ان میں سے کئی کی پونجی کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہے، لیکن نفرت کی سیاست جو بھی کرادے، ہندوتوا کے اس دور میں تھوڑا ہے۔

یہاں ہمیں بہار اور یوپی حکومت کا فرق بھی سمجھ لینا چاہیے، بہار حکومت نے ”حرام“ پر پابندی لگائی ہے، آپ کو معلوم ہے کہ یہاں شراب بندی ہے، جب کہ یوپی میں ”حلال“ پر پابندی لگادی گئی ہے جو سماجی، اخلاقی اور قانونی طور پر غلط ہے، لیکن کیا کیجئے، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے، پہلے گائے کا ذبیحہ،کھلی جگہ میں نماز کی پابندی لگائی گئی اور اب حلال کھانے سے بھی روکا جا رہا ہے۔

کہاں گئی جمہوریت کہاں گئے اس کے تقاضے، دستور میں دیے گیے بنیادی حقوق کی بالا دستی، سب کچھ دھیرے دھیرے ختم کیا رہا ہے اور ملک کو ایک ایسے اندھیرے میں لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں نہ تہذیبی اخلاق واقدار کا پاس ملحوظ رکھاجا رہا ہے اور نہ ہی دستور میں دیے گیے بنیادی حقوق کی رعایت کی جارہی ہے، یوگی من مانی کر رہا ہے اور مودی جی اس کی پشت پر مضبوطی سے کھڑے ہیں۔

One thought on “اتر پردیش گورنمنٹ کی نئی چال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *