فیمنزم کے سافٹ اثرات اور ہم
فیمنزم کے سافٹ اثرات اور ہم
✍️ پٹیل عبد الرحمٰن مصباحی، گجرات (انڈیا)
فیمنزم بول کر عام طور سے جس فتنے کی طرف توجہ جاتی ہے وہ شدت پر مبنی Hardcore فیمنزم ہے
ایسے فیمنزم کو سمجھنا اور اس کے بے تکے پن کی وجہ سے اس سے دور رہنا قدرے آسان ہے چوں کہ ایسے فیمنزم سے وابستہ عورتوں کی حرکتیں اتنی فحش ہوتی ہیں کہ خود عام عورتوں کا طبقہ اسے قبول نہیں کر سکتا
ایک عورت جو کھلے عام کسی بھی مرد کے ساتھ سونے اور اپنی نسوانیت کو ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کی داعی ہو اس کو مجموعی طور پر نسوانیت کی فطری نظافت کبھی قبول نہیں کر سکتی. فیمنزم کا یہ شدت پر مبنی ورژن؛ کم از کم بر صغیر کی مسلم دنیا میں؛ معاشرتی سطح پر کم مؤثر واقع ہوا ہے
اس کے بالمقابل ایک اور قسم کا فیمنزم ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کا ایک mini ورژن ہے جسے ہم “سافٹ فیمنزم” کا نام دے سکتے ہیں۔
یہ لچک دار، دیدہ زیب اور مرغوب قسم کا فیمنزم ہے. حیا سوزی میں دونوں قسموں کے فیمنزم یکساں ہیں مگر پہلا بظاہر فحش لگتا ہے جب کہ دوسرا دیکھنے میں مہذّب قسم کا معلوم ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جدید نظامِ تعلیم سے نکلنے والی چند جذباتی لڑکیوں کو مستثنیٰ کر دیا جائے تو عام مسلم معاشرہ اب تک “انتہا پسند فیمنزم” کے شر سے کافی حد تک محفوظ ہے، مگر “سافٹ فیمنزم” کے تناظر میں جب مسلم معاشرے کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ عوام تو عوام خود خواص بلکہ علماء و مشائخ میں شمار کیے جانے والے جلیل القدر اشخاص بھی؛ اعلیٰ یا ادنیٰ کسی نہ کسی سطح پر؛ سافٹ فیمنزم کی زد میں ہیں
اسلامی تعلیمات کے مطابق لڑکی کی طرز حیات میں بنیادی عنصر “حیا” ہوتا ہے جب کہ سافٹ فیمنزم میں بنیادی عنصر “آزادی” ہے، لہٰذا کل کے مسلم معاشرے کے بالمقابل آج کے مسلم معاشرے میں تبدیل شدہ رویوں کے اندر اسی لحاظ سے فرق دکھائی دیتا ہے، جو رویہ پہلے حیا پر مبنی تھا اس کی جگہ اب ایسے رویہ نے لے لی ہے جو آزادی کی طرف داعی ہے
سافٹ فیمنزم کی واضح تخریب یہ ہے کہ اس سے معاشرے میں رائج حیا پر مبنی پرانی روایات پر زد پڑتی ہے اور ایک دیندار انسان؛ خواہی نہ خواہی یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ خواتین سے متعلق فلاں اور فلاں رویہ محض قدیم خیالات پر مبنی ہے، اب دور بدل چکا ہے لہٰذا ہمیں ایسے خیالات چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہیے
حالاں کہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ رسمی یا روایتی رویہ کسی نہ کسی سطح پر “اسلامی حیا پروری” کی علامت اور اس کے تحفظ کا ایک جزء ہوتا ہے، جسے آگے بڑھنے یا ترقی کرنے کے نام پر دفنا دیا جاتا ہے. فکر و نظر کی یہ تبدیلی سافٹ فیمنزم کے تحت آتی ہے. ایسی تبدیلی کا مشاہدہ مسلمان عورت کے ناموں کے انتخاب سے لے کر زیورات کے انتخاب تک اور ملبوسات سے لے کر ان کے روز مرہ معمولات میں کیا جا سکتا ہے. آئندہ سطور میں کچھ تفصیلی مثالوں کی روشنی میں مذکورہ مقدمہ مزید واضح ہوتا جائے گا
سب سے پہلی اور سب سے بڑی تبدیلی یا تباہی اولاد کی تربیت کے سلسلے میں پیدا ہوئی ہے. ایک دو دہائیوں قبل تک پورے اسلامی معاشرے میں؛ بلکہ غیر مسلم معاشروں کے عزت دار گھرانوں تک میں؛ لڑکے اور لڑکی کی تربیت کا جداگانہ نظام کار فرما تھا
مخصوص رویے تھے کہ جب مہمان آئیں تو مردوں کے ساتھ لڑکے بیٹھیں گے، آداب بجا لائیں گے، گفتگو کریں گے اور عورتوں کے ساتھ طول کلامی و حُسن نمائی کا لطف لڑکیاں اٹھائیں گی
ایسے ہی مشقت آمیز کاموں کے لیے لڑکا مختص ہوتا تھا اور امور خانہ داری کے لیے لڑکیوں ہی کو پکارا جاتا. لڑکیوں کے کھلونے نسوانیت سے میل رکھتے تھے جب کہ لڑکوں کو کھیل کود کے آلات تھمائے جاتے تھے
لڑکیوں کی تربیت اِس لحاظ سے ہوتی کہ اسے دوسرے گھر جا کر اسے آباد کرنا ہے جب کہ لڑکے کو اس کے برعکس حالات کے لیے تیار کیا جاتا
مگر اب صورتحال یہ ہے کہ سافٹ فیمنزم نے دونوں صنفوں کے درمیان سے حد فاصل کو گویا مٹا دیا ہے اور تربیت کی یکسانیت نے مرد نما عورتوں اور نسوانیت زدہ مردوں کی تعداد کو ناقابل یقین حد تک بڑھا دیا ہے۔
تربیت کے سلسلے میں سافٹ فیمنزم کے اثرات کی یہ ایک جھلک ہے، مزید چیزوں اور رویوں کی تبدیلی کو اپنے آس پاس کی دنیا میں دیکھا جا سکتا ہے. مزید یہ کہ سافٹ فیمنزم کا تربیتی اثر دولت کی فراوانی کی مقدار میں سرایت کیے ہوئے ہے، غریب مسلمان کے یہاں کم، متوسط کے یہاں کچھ زیادہ اور امیروں کے یہاں عروج پر۔
تربیت ہی سے متصل ایک شعبہ ملبوسات کا ہے. یہاں بھی مسلم معاشرے میں سافٹ فیمنزم کی اجارہ داری بڑھتی جا رہی ہے. بچیوں کو ابتداءََ ہی بے حیائی سے دور رکھنے والے، ڈھیلے ڈھالے اور پورے بدن کو چھپانے والے ملبوسات سے آراستہ رکھنا یہ مسلم معاشرے کی علامتی روِش تھی، بلکہ ماضی قریب تک یہ کیفیت تھی کہ لڑکی کی عمر کے ساتھ ساتھ ملبوسات میں پردے کا عنصر بڑھتا چلا جاتا تھا،
مگر اب نیم عریاں لباسوں سے یہ کہہ کر ابتداء ہوتی ہے کہ ابھی بچی ہی تو ہے، پھر یہ لباس مزید تنگ اور انتہائی چست ہو جاتا ہے اِس عذرِ بارد کے ساتھ کہ اب بچی اسکول جا رہی ہے تو ایسا لباس تو پہن ہی سکتی ہے. پھر شادی کے موقع پر دلہن کے لباس کے نام پر اُسے وہ حیا سوز لباس پہنایا جاتا ہے کہ الامان و الحفیظ. یہ تبدیلی عوام میں تو مقبولیت کی حد تک چھا چکی ہے، رہے خواص تو وہ بھی کم ہی اس سے محفوظ ہیں، بلکہ اب تو علماء و مشائخ کے حرمت کدوں تک میں یہ بلا اپنے پیر پسار چکی ہے
ایک اور میدان شناخت کا ہے جہاں سافٹ فیمنزم کا بول بالا ہے. مانا کہ جدید دور کی ایک آفت شناخت کے مخلوط طریقے بھی ہیں جن میں بلا امتیاز؛ مرد و زن کی معلومات درج کی جاتی ہیں، اب اُس طرح کا احتیاط دشوار ہے کہ خواتین کے نام، عمر اور رنگ و روپ سے متعلق چیزوں کو پوشیدہ رکھا جا سکے، مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اپنے اختیاری شعبوں میں بھی کھلی چھوٹ برتی جائے۔
شادی بیاہ اور گھریلو تقریبات میں تو یہ احتیاطیں عنقا ہو ہی چکی ہیں مگر اب تو یہ معاملہ دینی امور تک پہنچ چکا ہے اور دینی علوم سے وابستہ خواتین تک اس سے محفوظ نہیں.
حیا پروری کا ایک دور وہ تھا کہ عام گھرانوں کی خواتین بھی خواص کی مستورات کے ناموں سے ناواقف ہوا کرتی تھیں اور آج بے حیائی یا عدم احتیاط کا عالم یہ ہے کہ علماء و مشائخ کہے جانے والوں کی عزتوں کا نام باقاعدہ فخر کے ساتھ پوسٹر میں طبع کیا جاتا ہے. ماضی قریب تک بھی تالیف یا خطاب کرنے والی خاتون کا نام زوجہ فلاں یا بنت فلاں کے طور پر لکھنے کا رواج تھا
مگر اب تو عوامی جلسے جیسی تقریبات کے پوسٹر بھی مبلّغہ خاتون کی صراحتِ اسم بلکہ زینتِ القاب اور دیگر واجب الخفاء معلومات پر مشتمل ہوتے ہیں. اِس شعبے کی تباہی کو اجاگر کرنے والی سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ سافٹ فیمنزم یہاں پر وہی کام کرتا ہے جو تشدد آمیز فیمنزم؛ کیریئر اور شہرت والی؛ نام نہاد خود مختار عورت کے ساتھ کرتا ہے.
جاری