حماس اور اسرائیل جنگ سے ابھرتے حقائق
حماس اسرائیل جنگ سے ابھرتے حقائق
تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی)
حماس اور اسرائیل کے درمیان 7/ اکتوبر 2023 کی صبح سے اچانک جنگ بھڑک اٹھی ، حماس کے مجاہدین نے پوری طاقت اور سالوں کی تیاری کے ساتھ تینوں سائڈ سمندر ، فضا اور زمین سے اسرائیل پر حملہ کردیا اور چند ہی گھنٹوں میں 250 کے قریب فوجیوں کو یرغمال بنالیا 700 کے قریب اسرائیلیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا
اسرائیلی انٹیلی جنس موساد مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی اسرائیل کا مشہور دفاعی سسٹم آئرن ڈوم کھلونا ثابت ہؤا ، پوری دنیا میں ہاہا کار مچ گیا ، اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا بھرم پوری طرح سے ٹوٹ گیا ، موساد پر سوال اٹھنے لگے
حماس مجاہدین کے کام یاب حملے پر تجزیے ہونے لگے ۔ اس کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نتن یاہو نے پورے طمطراق سے کہا کہ ”ہم مشرق وسطی کا نقشہ بدلنے جارہے ہیں“ اور چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ اسرائیلی فوج نے سخت جوابی کاروائی کی اور اب جس وقت یہ مضمون زیر ترتیب ہے جنگ بائسویں دن میں داخل ہوچکی ہے
نیتن یاھو اپنے اور اپنے حمایتیوں ( امریکہ فرانس وغیرہ ) کے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ غزہ کی چھوٹی سی پٹی ( 10/ کلومیٹر چوڑی اور 40/ کلومیٹر لمبی ) پر ٹوٹ پڑا اور 22/ دن سے جنگ پورے جوبن پر ہے ، قہر و جبر آگ اگل رہا ہے 32/ کے قریب مساجد شہید کردی گئی ، کئی ہسپتال کھنڈر بنادیے گئے ، 7/ ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے ، 20 ہزار کے قریب زخمی ہیں
غزہ پٹی کا محاصرہ کردیا گیا ایندھن پانی غذا دوا سب پر پہرے بٹھا دیئے گئے ، اور پھر 27/ اکتوبر کو غزہ پٹی کا انٹرنیٹ بھی کاٹ دیا گیا جس سے غزہ پٹی کا رابطہ دنیا سے مکمل طور پر منقطع ہوگیا ، اس کے بعد غزہ میں کیا ہؤا ؟
کیا ہورہاہے ؟ جنگ کی ہولناکی کیا رخ اختیار کر رہی ؟ کچھ معلوم نہیں ، مگر جو بھی کچھ ہورہا ہوگا وہ بعینہٖ مشہور شاعر حنیف ترین کی زبان میں یہ ہی ہوگا کہ
کتنے ہی چہچہاتے گھر مکتب ، قہقہہ زار ، کوچہ وبازار مقتلوں میں بدل گئے ہونگے آسمانی بموں کی بارش سے کٹے اعضاء تڑپ رہے ہوں گے
اس کے بعد دنیا کو وہی معلوم ہے جو اسرائیلی ذرائع ابلاغ بتارہے ہیں ، تخمینے اور اندازے ہیں یا پھر حامی و مخالفین کی بڑکلیں ، جن میں کوئی حماس کو فاتح دکھا رہا اور کوئی اسرائیل کو ۔ غیر جانبدار صحافی حضرات صرف سوال ہی قائم کرپارہے ہیں ۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ سے عالمی سطح پر کچھ ”نئے حقائق“ ابھر کر سامنے آئے ہیں جو قومی اور بین الاقوامی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کریں گے ، ہم کوشش کریں گے کہ اپنے قارئین کے سامنے ان حقائق کو نمبر وار بیان کریں ۔
1۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اب کی بار فلسطینیوں کی حمایت میں عالم اسلام کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ممالک اور شخصیات بھی بہت بڑی تعداد میں سامنے آئی ہیں اور اسرائیل کی بربریت پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے ۔
2 ۔ عالم اسلام میں مسلح فوجی قوت ، اقدام ، رعب و دبدبے اور بروقت فوجی فیصلوں Militry decision کے اعتبارسے ایران ، پاکستان اور ترکی سے اگے ہے ، یعنی شیعہ دنیا غالب ہے اور سنی دنیا اس معاملے پیچھے ۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے
مگر یہ بھی سچ ہے کہ اسرائیل اور حماس جنگ میں پاکستان سے بڑا ”گونگا شیطان“ کوئی نہیں بنا رہا ، دوسری سچائی یہ ہے کہ افغانستان کی جائز طالبان حکومت کو برباد کرنے میں پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی رہا ہے جب کہ” ایران“ حزب اللہ اور اپنی پراکسیز کے واسطے سے جاری جنگ میں برسر پیکار ایک ناقابلِ فراموش کردار ہے ۔ تو عالم اسلام کی تمام اسلام پسند طاقتیں سن لیں کہ پاکستان موجودہ حکمرانوں کے ساتھ ( بغیر کسی استثناء کے ، بشمول مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان ) مکمل طور پر ایک ناقابلِ اعتبار مسلم ملک ہے ۔
3۔ امریکہ کے مقابلے میں دو عالمی طاقتیں روس اور چین مسلمانوں سے زیادہ نزدیک ہیں ۔ ضرورت ہے کہ عالم اسلام بیدار مغزی کا ثبوت دے اور اس نزدیکی کا فائدہ اٹھاکر اپنے دیرینہ مسائل بشمول قضیہ فلسطین حل کرلے ۔
4۔ بھارت کے جارح ہندتوا عناصر کا دل اسرائیل کے لیے دھڑکتا ہے مگر پیٹ عربوں سے جڑا ہوا ہے عقل مند لوگ زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ پیٹ کی سنتے ہیں دل کی نہیں اب دیکھتے ہیں کہ بھارتی حکومت بیوقوف ہے یا عقل مند ؟ اچھی طرح سمجھ لیں بھارت میں یہ تعداد ایسی ہی کم ہے جیسی کہ مسلمانوں میں اسرائیل کے حمایتی کم ہیں ۔ بھارت کی اکثریت آج بھی فلسطین کے ساتھ ہے ۔
5 یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے حوالے سے عالم اسلام کا پلڑا بھاری رہا اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اسرائیل کو واضح لفظوں میں ٹوکا ، نتیجتاً اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نتن یاہو نے سکریٹری جنرل کا استعفی مانگ لیا ۔
6۔ حماس اور فلسطین کے حوالے سے ترکیے کے صدر رجب طیب اردوغان نے شاندار سفارتکاری کی ، جس کے نتیجے میں روس نے حماس کے وفد کو ماسکو بلایا ، روسی صدر ولادیمیر پوتن کا یہ قدم واضح طور پر امریکا اسرائیل اور مغرب کو اکسانے والا ایک قدم ہے ، جبکہ قضیہ فلسطین کے مستقل حل کی طرف ایک اہم قدم ۔
6۔ اب کی بار قضیہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی گونج عالم اسلام کے ساتھ روس چین اور بھارت کی حمایت کے ساتھ پہلے سے زیادہ سنائی دی ، یہ بھی قضیہ فلسطین کے مستقل حل کی طرف ایک کامیاب قدم ہے ۔
7۔ حماس –اسرائیل جنگ سے پہلے تقریباً دوسال سے روس – یوکرین جنگ بھی جاری تھی مگر جیسے ہی حماس اور اسرائیل کی جنگ چھڑی تو یوکرائن اور روس کی جنگ منظرنامہ سے بالکل غائب ہوگئی
جب کہ یوکرین کی جنگ دو عالمی طاقتوں کے درمیان ہے اور غزہ پٹی کی جنگ ایک گروپ اور طاقتور اسٹیٹ کے درمیان ہے ، یہ تبدیلی بتلاتی ہے کہ امت مسلمہ دنیا اور بین الاقوامی سیاست میں کتنا اہم مقام رکھتی ہے ؟
اس کا اندازہ سوائے مسلمانوں کے پورے عالم کفر کو ہے ۔ کاش کہ مسلمانوں کو بھی ہوجائے ۔
تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی)
مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر
Pingback: مسلم سماج کے لیڈر ہمارے ساتھ نہیں ⋆ اردو دنیا