مسئلہ فلسطین عالمی ضابطہ حیات کے پس منظر میں
روزنامہ انقلاب کے لیے تحریرشدہ تازہ ترین کالم ۔ نئے ڈھنگ سے مسئلہ فلسطین پر گفتگو
مسئلہ فلسطین عالمی ضابطہ حیات کے پس منظر میں
مسلمانوں کے لیے تو یہ علاقہ مقدس ہے ، تاہم غیروں کے لیے مسئلہ کی قابل قبول نوعیت پر بھی روشنی ڈالی جانی چاہیے
ڈاکٹر غلام زرقانی ، چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکا
مذہبی پس منظر میں مسئلہ فلسطین پرہم آئے دن گفتگو کرتے رہتے ہیں۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہی بہت ہے کہ یہ قبلہ اول ہے ، جس طرف رخ کرکے تقریبا سترہ مہینوں تک مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پرقرون اولیٰ کے مسلمان نماز ادا کرتے رہے ہیں
نیز واقعہ معراج کے دوران بھی اسے ہم یوں یاد کرتے ہیں کہ حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم لامکاں کی سیر سے پہلے مکہ مکرمہ سے براق پر سوار ہوکر یہاں تشریف لائے ، سارے انبیاء کرام سے ملاقات کی ، اپنی سواری یہیں باندھی ۔
اور یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ ہم سابقہ سارے انبیاے کرام پر ایمان رکھتے ہیں ، لہذا ہمارے علم کے مطابق سابقہ انبیاءعظام میں سے اکثر کا تعلق چوں کہ اس خطے سے ہے ، اس لیے یہ ہمارے لیے نہایت ہی محترم ، مقدس اور عظیم ہے ۔
تاہم ، ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی ضابطہ حیات کے پس منظر میں بھی یہ مسئلہ ہمارے پیش نظر رہے ۔ ایڈورڈ سعید کی تحقیق کے مطابق ۱۵۱۶ء سے یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں رہا ہے ، جہاں تین چار فیصد یہودی آباد تھے اور امن وسکون کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔
تاہم ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم ہوئی ،جس کی ابتدا میں یورپ کی بڑی طاقتیں شامل تھیں ، لیکن دھیرے دھیرے حلقہ فریق میں اضافہ ہوتا گیا اور جرمنی ، آسٹریا اور بلغاریہ کے حلیف کے طورپر ترکی بھی شامل ہوگیا۔
دوسری جانب برطانیہ ، فرانس، اٹلی ، رومانیہ ، پرتگال ، جاپان اور امریکہ تھے ۔ یہ جنگ ۱۹۱۸ء تک جاری رہی ۔ کروروں افراد لقمہ اجل بنے اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے ۔
اس جنگ میں چونکہ جرمنی کو شکست ہوئی اور ترکی اس کا حلیف تھا، اس لیے ترکی بھی مغربی عتاب کی زدمیں آگیا اور خلافت عثمانیہ کے حصے بخرے کردیے گئے ۔
برطانوی سازش نے عالم عرب میں ترکی کے خلاف بغاوت کی آگ اس قدر بھڑکائی کہ جلد ہی سارے علاقے ترکی کے تصرف سے نکل گئے۔ فلسطینی علاقے پر برطانیہ اور فرانس نے اپنے پنجے گاڑ دیے ، لیکن زیادہ تر معاملات برطانیہ نے اپنے پاس ہی رکھے ۔
تاریخی طورپر ’بالفورڈ کلریشن‘ کے تحت برطانیہ نے ۲؍نومبر ۱۹۱۷ء میں یہ قرار داد پاس کی کہ یہودیوں کے لیے بھی ایک علیحدہ ریاست ہونی چاہیے ۔ جلد ہی یہودی تنظیمیں درپردہ برطانیہ سے پینگیں بڑھانے لگیں ۔
اس طرح جب یہ طے پاگیا کہ فلسطین کے علاقے میں ہی یہودی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا،تو برطانوی سرپرستی میں پوری دنیا سے یہودیوں کے جتھے کے جتھے فلسطینی علاقے میں اتر نے لگے ۔
پہلے توشاید توجہ نہ رہی ، لیکن جب علاقے کے مسلمانوں نے یہ محسوس کیا کہ آئے دن ہمارے علاقوں میں نئے نئے یہودی خاندان آباد ہورہے ہیں ، توان کی آنکھیں کھل گئیں اور بڑے پیمانے پر احتجا ج شرو ع ہوگیا۔
یہودی اور مسلمان باہم دست وگریبان ہونے لگے ۔ اورنوبت یہاں تک پہنچی کہ برطانیہ نے ہاتھ اٹھالیے اوریہاں سے اپنے حکام واپس بلالیے ۔
ایک نشست میں تلاوتِ قرآن کریم
درگاہ خواجہ غریب نواز اور گولڈن ٹیمپل
زعفرانی ٹولے کے نرغےمیں مسلم بچیاں
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اور یہاں کے حالات پرسکون بنانے کے لیے کوشش ہوئی ، تو۱۹۴۷ء میں یہ طے پایا کہ ایک حصہ پر یہودی ریاست بن جائے اوردوسرےحصے پر فلسطین قائم ہوجائے، جس میں دریائے اردن کا مغربی کنارہ اور غزہ شامل ہو ، اور یروشلم کو بین الاقوامی شہر تسلیم کرلیا جائے ۔ اس طرح آنا فانا اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوگیا۔
دوسری طرف اس ظلم کے خلاف عرب اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے تسلیم کرنے سے انکارکردیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسرائیل اور عرب کے درمیان جنگ چھڑ گئی ۔ ۱۹۴۸ء کی جنگ میں اسرائیل نے مزید علاقے اپنے تصرف میں لے لیے، تاہم بیت المقدس اب بھی اس کے تصرف سے آزاد رہا۔
۱۹۶۷ء کی جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے دریائے اردن کا مغربی کنارہ، بیت المقدس، غزہ کی پٹی، صحرائے سینا اور گولان کے علاقے پر بھی قبضہ کرلیا ۔ مصرکےصدر انور سادات نے اسرائیل سے معاہدہ کے نتیجے میں صحرائے سینا کو آزاد کرالیا، لیکن باقی حصے اب تک اسرائیل کے تصرف میں ہیں ۔
خیال رہے کہ یہاں مجھے فلسطین کی تاریخ نہیں بتانی ہے اور نہ ہی مختصرسے کالم میں اس کی گنجائش ہے ،بلکہ جوبات مجھے اب عرض کرنی ہے ، اس کے لیے آپ کو ذہنی طورپر تیار کرنا مقصود ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اب ہم وہاں تک پہنچ چکے ہیں ۔
آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ جسے ’اسرائیل ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے
وہاں پہلی جنگ عظیم کے دوران ساٹھ ہزار یہودی اور چھ لاکھ مسلمان آباد تھے ۔
لیکن جب ساری دنیا سے یہودیوں کو لاکر بسانے کا سلسلہ شروع ہوا تو ۱۹۴۸ء میںیہودی آبادی ۷ لاکھ کے قریب تک جا پہنچی ۔اس طرح آپ یقین کے ساتھ کہیے کہ برطانوی سرپرستی میں عالمی طاقتوں نے زبردستی اس علاقے میں یہودیوں کو لاکر بسایا ہے ۔ یہی وہ منزل ہے
جہاں لمحے بھر کے لیے ٹھہر کرغورکیجیے کہ کس عالمی ضابطہ حیات کے مطابق کسی بھی بڑی طاقت کو یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ دوسرے ملک میں اپنی مرضی سے کسی قوم کو آبادکرے ؟
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ آپ کے گھر کو زبردستی کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں دینے کی اجازت کسے حاصل ہے؟
یا یوں کہہ لیں کہ آپ برطانیہ جاناچاہتے ہیں اور روس آپ کو اجازت دے کہ وہاں چلے جائیں ، توکیا یہ اجازت عالمی قوانین کی روشنی میں کسی کے لیے بھی قابل قبول ہوگی؟
ٹھیک ہے تسلیم کرلیا کہ یہودیوں کے ساتھ یورپ میں ظلم ہواہے ، اور آپ کو ان سے ہمدردی ہے ، توچاہیے یہ کہ آپ اپنے ملک کا ایک حصہ ان کے نام کردیں ، لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دوسرے کی زمین پر اس کی اجازت کے بغیر آپ انھیں لاکر بسادیں ؟
صاحبو! کان قریب کیجیے توکچھ عرض کروں ۔ مسئلہ فلسطین پر دورخ سے گفتگوہوسکتی ہے ، ۔ اسے یوں سمجھیے کہ کوئی شخص آپ کی اجازت کے بغیر آپ کے گھر گھس آئے اور آپ نے اسے ایک مکا رسید کردیا۔
اب دوبنیادوں پر بات ہوسکتی ہے ؛ ایک یہ کہ آپ بغیر اجازت گھر میں کیسے گھس گئے اور دوسری بنیاد یہ کہ مالک مکان نے اسے مکا کیوں رسید کیا ؟
عالمی ضابطہ حیات کے مطابق توبات پہلی بنیاد پر ہوگی کہ آپ بغیر اجازت کیوں داخل ہوئے ، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے لوگ مصر ہیں کہ بات دوسری بنیاد سے شروع ہونی چاہیے کہ مالک مکان نے زبرستی گھر میں داخل ہونے والے کو مکا کیوں مارا ؟
اور سنیے کہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ضابطہ حیات اور دستور وقوانین کے ہزار اختلافات کے باوجود یہ حق آج بھی سب تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کے گھر میں کوئی زبردستی گھسنے کی کوشش کرے
تو آپ اسے مکانہیں ، بلکہ گولیوں سے نشانہ بھی بناسکتے ہیں اور قانون آپ سے کوئی باز پرس نہیں کرے گا۔
خیال رہے کہ میں نے اپنی زبان سے نہ توکسی کی حمایت کی ہے اور نہ ہی کسی کی مخالفت ، بلکہ غیر جانبداری کے ساتھ صرف حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے اور فیصلہ آپ کے ضمیر پر چھوڑ دیا ہے ۔
Pingback: حکومتی سختیاں اور ہمارے رویے ⋆ غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلمان ⋆ افتخار حسین رضوی
Pingback: حماس اور اسرائیل جنگ سے ابھرتے حقائق ⋆ تحریر : توصیف القاسمی
Pingback: یہودی مذہب کی دہشت گردانہ تعلیمات ⋆ از قلم: محمد یوسف رضا قادری
Pingback: پرسنلٹی ڈیولپمنٹ اور فطرت اسلام ⋆ طارق انور مصباحی
Pingback: علما اور مبلغین کے مقامی ہونے کی اہمیت و افادیت ⋆ تحریر محمد زاہد علی مرکزی
Pingback: اردو دنیا
Pingback: شہد کا ایک قطرہ ⋆ رخشندہ بخآری
Pingback: ایسی تقریبات منانے سے کیا فائدہ ⋆ تحریر:جاوید اختر بھارتی
Pingback: امریکا کرے امن کی بات اور و ہی بنے روکاوٹ بھی ⋆ تحریر: جاوید اختر بھارتی
Pingback: نقصانات و فوائد پر نظر رکھنا ضروری ہے ⋆ تحریر : جاوید اختر بھارتی
Pingback: علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور عربی زبان وادب مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Pingback: انڈیا اتحاد اور مسلم نمائندگی ⋆ تحریر: جاوید اختر بھارتی
Pingback: مسلم سماج کے لیڈر ہمارے ساتھ نہیں ⋆ تحریر: توصیف القاسمی
Pingback: یادوں کے چراغ مفتی مظفر عالم قاسمی ⋆ اردو دنیا
Pingback: گوریگاؤں میں کنزالایمان کانفرنس کا انعقاد ⋆ سیداستخار
Pingback: کیا ابھی بھی سر جوڑ کر بیٹھنے کا وقت نہیں آیا ⋆ تحریر:جاوید اختر بھارتی
Pingback: تنگ ہوتی زمین بند ہوتے راستے ⋆ محمد رفیع
Pingback: ضمیر کا دخل بہت بڑی چیز ہے ⋆ تحریر: جاوید اختر بھارتی
Pingback: گیان واپی مسجد معاملہ بابری مسجد کی راہ پر ⋆ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Pingback: نامور شاعر ارشد مینا نگری کی مغفرت کے لیے دعائیہ وتعزیتی نشست ⋆
Pingback: والدین کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے ان کی بنیادی دینی تعلیم کا انتظام کریں ⋆
Pingback: علماے کرام اور ائمہ عظام موجودہ زمانے کے تقاضے کے مطابق دعوتی فریضہ انجام دیں ⋆
Pingback: امتیاز احمد کریمی کو بی پی ایس کا چیئرمین بنانے پر قومی اساتذہ تنظیم کی مبارک باد ⋆
Pingback: موت تو آنی ہی آنی ہے آج نہیں تو کل ⋆ جاوید اختر بھارتی
Pingback: سفرِ زندگی ⋆ تسنیم مزمل شیخ
Pingback: تذکرہ شعرا مدھوبنی تعارف وتبصرہ ⋆ مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی
Pingback: ڈاکٹر ممتاز احمد خان مرحوم کے لیے یادگاری نشست اور دعائیہ مجلس کا انعقاد ⋆
Pingback: جمہوریت کا فائدہ اٹھائیں ⋆ جاوید اختر بھارتی
Pingback: ایک تھپڑ سے نقشہ ہی بدل گیا ⋆ جاوید اختر بھارتی
Pingback: نکاح کو آسان کیسے بنایا جائے ⋆ مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی
Pingback: اے ایمان والو اللہ کے مددگار بنو ⋆ محمد عبد الحفیظ اسلامی
Pingback: اللہ کی خاطر، ناصرِ دین رحمت بن جاؤ ⋆ محمد عبدالحفیظ اسلامی
Pingback: امن و سلامتی کا شہر ⋆ محمد عبدالحفیظ اسلامی
Pingback: مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں غالب شمس قاسمی
Pingback: اہل کتاب کے علما اور درویش لوگوں کے مال باطل طریقہ سے کھاتے ہیں ⋆ عبدالحفیظ
Pingback: مسلمانوں کی سوچ اور مسلمانوں کا ووٹ ⋆ جاوید اختر بھارتی
Pingback: اندھیروں سے اجالے کی طر ف ⋆ محمد عبدالحفیظ اسلامی
Pingback: شہر میں قتل و دیگر جرائم کی وارداتیں روز کا معمول ⋆
Pingback: دلت مسلم ریزرویشن اور کانگریس ⋆ جاوید اختر بھارتی
Pingback: ذرا ہاتھ سینے پر رکھ کرغور کریں ⋆
Pingback: اب امی کے معنیٰ و مفہوم کا جھگڑا ⋆
Pingback: ایران اسرائیل جنگ نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں ⋆ اردو دنیا
Pingback: لبنان اسرائیل جنگ، دشمنی پرانی ہے ⋆ اردو دنیا
Pingback: ایران کے پاس بھی روس کا ایس 400 دفاعی نظام ہے ⋆ اردو دنیا
Pingback: کشن گنج ضلع میں نالج سٹی کا قیام وقت کی اہم ضرورت ⋆
Pingback: علماے کرام کے بھی بال بچے ہوتے ہیں ⋆ اردو دنیا
Pingback: ایک سال بعد فلسطین اسرائیل جنگ نتیجہ کیا رہا ⋆ اردو دنیا
Pingback: اسرائیل کو ایک اور جھٹکا ⋆ اردو دنیا
Pingback: بارڈر سے بڑھ نہیں پا رہی اسرائیلی فوج ⋆ اردو دنیا
Pingback: جوئے کی رائج صورتوں کی تباہ کاریاں اور ان کے احکامات ⋆
Pingback: دیکھیں، سمجھیں اور غور کریں ⋆ اردو دنیا
Pingback: این سی پی سی آر کے چیئر پرسن پر قومی اساتذہ تنظیم نے ملک کو گمراہ کرنے کا لگایا الزام
Pingback: عالم دین دیگر علوم وفنون کے ماہر بھی ہو سکتے ہیں ⋆ اردو دنیا
Pingback: اساتذہ کے منظور شدہ عہدے کی تفصیل مانگنا اردو ڈائریکٹوریٹ کی خانہ پری ⋆
Pingback: دیار شبلی گلوا گوری بلریاگنج اعظم گڈھ میں اجلاس عام اختتام پذیر ⋆
Pingback: ناکام عشق ⋆