اسرائیل کے لیے مشکل ہے زمینی لڑائی
اسرائیل کے لیے مشکل ہے زمینی لڑائی
مشرف شمسی
ایک ایسا ملک جو 23 لاکھ افراد کو ایک کھلی جیل میں سالہا سال سے بند کر رکھا ہے ۔
اس علاقے کے کسی بھی فرد کو اپنی مرضی سے کچھ کرنے کا حق نہیں ہے وہ لوگ جانوروں سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔اُن محصور افراد کو اسرائیلی فوجی بنا کسی قصور کے آئے دن گولی مار دیتا ہے اور کوئی اس موت پر اسرائیل سے سوال نہیں کر سکتا ہے ۔کیا یہ فلسطینی کے خلاف دہشت گردي نہیں ہے؟۔اسلئے کہ اسرائیل میں جمہوریت ہے۔
اسرائیل اپنی سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر کسی بھی فلسطینی کی جان لے سکتا ہے ۔اسرائیل طاقت کے زعم میں یہ دہشت گردی اپنی قیام کے وقت سے ہی کر رہا ہے اور مغربی ممالک اسرائیلی دہشت گردی میں برابر کے شریک ہیں ۔مغربی ممالک اسرائیلی دہشت گردی پر زبان نہیں کھولتے ہیں بلکہ اسرائیل کے خلاف کوئی معاملہ اقوام متحدہ میں جاتا ہے تو متحدہ ریاست امریکا اُسے ویٹو کر دیتا ہے ۔
آخر کرے بھی کیوں نہیں ؟
کیوں کہ مغربی ممالک خود دنیا کو برباد کر دینے کے جھوٹے پروپیگنڈہ کے نام پر ہنستا مسکراتا عراق کو برباد کر چکا ہے ۔
عراق پر الزام لگایا گیا تھا کہ صدام حسین خطرناک ہتھیار بنا رہا ہے اور اس کے ثبوت مغربی ممالک کو مل گئے ہیں جسے کئی سالوں بعد خود مغربی ممالک نے قبول کیا کہ وہ جھوٹ تھا۔
لیکن عراق کی کسی غلطی کے بنا مغربی ممالک نے صرف اپنے مفاد کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ بے قصور افراد کو مار دیا ۔
کیا وہ دہشت گردی نہیں تھی؟
مغربی ممالک میں جمہوریت ہے اس لیے اُن ممالک کی دہشت گردی پر اُنہیں معاف کر دیا جانا چاہیے ؟آخر اُنہیں معاف بھی کر دیا گیا ۔
سزا آخر اُنہیں کون دیگا؟ کون اُنہیں قصوروار ٹھہرائے گا؟ دنیا کے سارے قانون اُن مغربی ممالک کی مٹھی میں ہیں
اپنے پروپیگنڈہ مشین سے کسی بھی جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرتا رہا ہے ۔اسرائیل جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ متحدہ ریاست امریکا کا 56 واں ریاست کہا جاتا ہے ۔
مشرقی وسطیٰ میں اسرائیل کو طاقت ور بنائے رکھنا امریکا کے مفاد میں رہا ہے ۔اسرائیل کا خوف دیکھا کر امریکہ عرب ممالک کو جس طرح سے جیسا چاہتا ہے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے ۔چوں کہ تیل سے مالامال عرب ممالک میں شاہی خاندان حکومت کرتے ہیں اس لیے اُن کی پہلی توجیہ اپنی حکومت کو قائم رکھنا ہوتا ہے
لیکن اس خطّے میں ایرانی سمجھ چکے ہیں کہ امریکی تسلط سے خطّے کو محفوظ بنانا ہے تو امریکا کو مشرقی وسطیٰ سے باہر کا راستہ دکھانا ہوگا۔اسکے لیے ضروری ہے کہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا یعنی ہتھیاروں کے معاملے میں بھی خود کفیل بننا ہوگا۔
روس یوکرین جنگ میں ایران نے روس جیسے طاقتور ملک کو اپنے ڈرون دیئے جس کی وجہ سے روسی افواج کو اس جنگ میں کم جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔
ایران اپنے اوپر لگی پابندی سے سخت جان بن چکا ہے اور تقریباً زیادہ تر استعمال کی چیزوں کو اپنے یھاں بنا رہا ہے ۔وہ نہ صرف مشرقی وسطیٰ بلکہ دنیا کی سیاست میں اپنی اہمیت منوا رہا ہے۔
ایران اپنی ہر ایک غلطی سے سیکھ رہا ہے ۔ مشرقی وسطیٰ میں بڑے بھائی کے کردار میں آ ہی چکا ہے اور بہت ہی جلد ہی جیو پالٹکس میں اپنا بڑا کردار نبھانے کے لیے تیار ہو رہا ہے ۔
ایران کی بڑھتی طاقت اسرائیل کو ہی نہیں امریکا کو بھی پریشان کر رہا ہے ۔ لیکن ایرانی حکومت بہت ہی باریک بینی سے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا کھیل کھیل رہا ہے ۔ وہ صدام حسین کی طرح بے وقوف نہیں ہے۔
اسرائیل پر اتنا بڑا حملہ ہو گیا اور دنیا جانتی ہے کہ اس حملے کے پیچھے ایران ہے اور ایران حماس کے حملے کی مذمت بھی نہیں کیا بلکہ اسرائیل کو اس حملے کی وجہ بتا رہا ہے اس کے باوجود امریکا اور مغربی ممالک حماس کے حملے میں ایران کا ہاتھ ہے کہنے سے انکار کر رہے ہیں ۔
ایران حملہ اور تیور بھی اپنائے ہوئے ہے اور غزہ پر زمینی حملہ ہونے کی صورت میں جنگ میں کودنے کی بھی بات کر رہا ہے اور یمن کے حوثی باغیوں سے امریکی ٹھکانے پر حملے بھی کروا رہا ہے لیکن امریکا براہ راست یہ نہیں کہہ پا رہا ہے کہ عراق اور شام میں امریکی ٹھکانے پر حملے ایران کرا رہا ہے ۔
دراصل ایران کا اصل وجہ نشانہ امریکا ہے اور امریکا کے خلاف مورچہ بندی کے نام پر روس اور چین کو بھی ایران نے اپنے صف میں کھڑا کر لیا ہے۔
اب امریکا سمیت یورپ کے سبھی بڑے ممالک کے رہ نما بھاگ بھاگ کر اسرائیل جا رہے ہیں اور اسرائیل سے کہا جا رہا ہے کہ غزہ میں زمینی لڑائی شروع نہ کریں ورنہ اس لڑائی کا خمیازہ نہ صرف مشرقی وسطیٰ کو بھگتنا پڑے گا بلکہ یہ لڑائی یورپ میں بھی پھیل سکتی ہے ۔
حماس کو اسرائیل نے کھڑا کیا ہے
ویسے بھی امریکا اور اسرائیل سمیت کسی بھی بڑے ممالک میں یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ زمینی اور گوریلا جنگ میں مقامی لوگوں سے لڑ سکے اور اُسے جیت سکے۔ امریکا جیسی طاقت ویتنام اور افغانستان میں شکست کھا چکا ہے اور سوویت یونین جیسی بڑی قوّت بھی افغانستان میں ہار چکا ہے۔
اسرائیل لبنان میں 2006 میں 34 دنوں تک جنگ کرنے کے باوجود پیچھے واپس آنا پڑا تھا ۔
اسرائیل غزہ میں بجلی ،پانی ،کھانا اور دوائیوں کو بند کر غزہ کو جیتنا چاہتا ہے لیکن غزہ میں گھس کر حماس سے دو دو ہاتھ کرنے کی صلاحیت اسرائیلی فوجیوں میں بھی نہیں ہے ۔
اسرائیل مسلسل غزہ میں دہشت گردی کر رہا ہے ۔ہر ایک دن اسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں پر بم برسائے جا رہے ہیں ۔اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ میں بغاوت ہو جائے اور باغیوں کے ساتھ مل کر غزہ میں حماس کو ختم کیا جائے۔
جیسے طالبان کے خلاف 9/11 کے بعد جنگ شروع کی گئی تو کئی دنوں تک افغانستان میں بم برسائے جانے کے بعد امریکہ اور اُن کے ساتھی ممالک کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ افغانستان میں زمینی جنگ شروع کی جائے ۔
آخر گلبدین حکمتیار کا جب ساتھ ملا تبھی امریکی فوج زمین پر اترے۔غزہ میں بھی اسرائیلی کو باغیوں کی تلاش ہے جو حماس کے ایک ایک ٹھکانے کا پتہ بتائے۔
اس لیے اسرائیل بار بار کھ رہا ہے غزہ میں لڑائی لمبی چلے گی ۔
دراصل اسرائیل غزہ کے صبر کا امتحان لے رہا ہے ۔لیکن محاصرہ زیادہ دن چلا تو دنیا میں جو ممالک اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں وہاں کی حکمتوں کو عوام کے غصّے کا عتاب برداشت کرنے پڑیں گے ۔
غزہ میں پانی ،الیکٹرک ،رسد اور دوائیوں کی پہنچ بند کر دینا دہشت گردی نہیں ہے ۔
آخر دہشت گردی کی تعریف کیا ہے ؟
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 932674787
سلطان صلاح الدین ایوبی کا جواب، بیت المقدس کے کمسن محافظ کے نام