صہیونی دہشت گردی کا مقابلہ مسلم دنیا کیسے کرے
صہیونی دہشت گردی کا مقابلہ مسلم دنیا کیسے کرے ؟
محمد علم اللہ، نئی دہلی
دنیا ایک بار پھر اسرائیل کے بے انتہا ظلم وجور کی گواہ بن رہی ہے۔ وہ حیوانیت اور بربریت کی ایک نئی تاریخ لکھ رہا ہے۔ مہذب دنیا تماشائی ہے۔ حالاں کہ کہ پل پل کی خبریں وہاں سے آرہی ہیں۔ کیسی کیسی ہول ناک تصویریں اورخون آلود جسم ہم دیکھ رہے ہیں۔
بچے شہید ہورہے ہیں۔ اسپتالوں پر بم باری ہورہی ہے۔ عام زندگی کا شیرازہ بری طرح بکھر چکا ہے۔ فلسطینیوں کو علاج معالجہ کی بدترین صورت حال کا سامنا ہے۔ ترجیحی بنیاد پرعلاج ہورہا ہے یعنی جو زیادہ زخمی ہیں توجہ ان پر دی جارہی ہے۔
اسی طرح کھانے پینے کا معاملہ بھی نہایت سنگین ہے۔ غزہ ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ خیموں میں جوان ہوئی نسل کے سر پر اب آسمان کے سوا کچھ باقی نہیں رہا ۔
ریاستیں اندھی اور بہری ہوتی جا رہی ہیں۔ دنیا اس نسل کشی کا مشاہدہ کر رہی ہے جس کا فلسطینی شہریوں کو سامنا ہے، گویا کتے چھوڑے جارہے ہیں اور شیطان رقص کر رہا ہے۔ شہریوں کی مستقل اور بامقصد نسل کشی کی جا رہی ہے۔ اس بھیانک صورت حال پر نہ کسی کاخون کھول رہاہے اور نہ کوئی فرق پڑرہا ہے۔
ابھی تک کوئی مضبوط آواز فلسطین کے حق میں اٹھی بھی نہیں ہے۔ ظالم پر انگلی اٹھانا کل بھی مشکل تھا اور آج بھی۔ یہ کس مہذب معاشرہ کی تصویر ہے۔ کہاں ہیں وہ عالمی ادارے،کہاں ہے اقوام متحدہ؟،سلامتی کونسل کہاں ہے؟۔
فلسطینی بچوں کے لیے اور وہاں کے عام انسانوں کے لیے کہیں کوئی دست دعا ہے ؟۔ کیا دنیا میں ظالم ہی کا ہی بول بالا ہوگا۔
خون چاہے کسی کا ہو وہ خون ہوتا ہے۔ اب تو یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہوچکی ہے کہ مہذب دنیا کس کو اخلاقیات کا درس دیتی اور کس کو ہتھیاروں کے استعمال کی کھلی چھوٹ۔
اس ماحول کاایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ہندوستانی اور مغربی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کا ایک نیا بیانیہ قائم کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔
مغربی دنیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نئی نئی اصطلاحات وضع کرر ہی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد اور انسانیت دشمن ثابت کرنے کا حربہ گرچہ خاصا پرانا ہوچکا ہے
مگر اس کے باوجود انتہائی بے شرمی سے اسی حربے کواب فلسطینیوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ جنگ کے تناظر میں اس کو لوگ بہت جلد سچ مان لیتے ہیں مگر حقائق اس طرح چھپ نہیں سکتے۔
اس تناظر میں نیتن یاہو کی ایک ربّی(یہودی مذہبی عالم)سے ملاقات کا ویڈیو سوشل میڈیا پرخوب وائرل ہو رہاہے۔ نیتن یاہو اس کی صلاحیتوں پر بات کر رہے ہیں۔ انتہا پسند ربّی کہتا ہے” ،لیکن مسیح ابھی تک نہیں آیا ہے۔ دن میں چند گھنٹے باقی ہیں،اس کی آمد کو آسان بنا دو“ یعنی مسیح کے آنے سے پہلے پہلے فلسطینیوں کا صفایا کر دو۔
پہلی جنگ عظیم سے لے کر آج تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ مہم چلا کر دونوں کو” دہشت گردی‘‘سے جوڑدیا گیا۔ اس بیانیے کو عالمی صہیونی میڈیا نے بڑے پیمانے پر پھیلایا۔
ٹھیک اسی طرح جیسے شام کی خانہ جنگی کے دوران داعش کے بارے میں کہا جا رہا تھا۔ جس کا ہر عمل اسلامی عقیدے کے منافی تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ تنظیم دراصل سی آئی اے کی پیداوار تھی۔
اسرائیل اور صہیونیوں کو” یہودیوں کی داعش“ کے طور پر دیکھا جاسکتاہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب صہیونیوں کی بات آتی ہے ، جوکہ داعش سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، تو’’مذہبی دہشت گردی‘‘یا ’’یہودی دہشت گردی ‘‘ جیسی اصطلاحات کا استعمال نہیں کیا جاتا، جو کئی مرتبہ بہت سے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو بھی شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیتا ہے۔
فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے،یہ جنگ نہیں ہے۔ یہ نسل کشی کا واضح معاملہ ہے۔ چاہے آپ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں، ملحد ہوں یا کوئی اورہوں، ذرہ برابر بھی اگر کسی کا ضمیر زندہ ہوگا
تو وہ کسی بچے کو بموں سے پھٹتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہو جائے گا، ہسپتالوں پر بمباری کی جا رہی ہے اور عورتوں اور بچوں کا اندھا دھند قتل ہو رہا ہے۔ جن لوگوں کے پاس ضمیر نہیں ہے وہ جنگ کے قوانین پر عمل کر سکتے ہیں ، لیکن آخر کار، انہیں اس دنیا میں بھی اپنے اعمال کا جواب دینا پڑے گا۔
ہم نے واضح طور پر دیکھا ہے کہ برطانوی تہذیب کے عناصر پر ایک من گھڑت یہودی مذہبی تنظیم نے قبضہ کر لیا ہے۔ بائیڈن کے اس بیان کے کچھ ہی دیر بعد کہ’زمینی آپریشن نہ کریں‘عیسائیوں کے قائم کردہ اسپتال پر بمباری کی گئی اور اس کے بعد ایک گرجا گھر پر بھی بمباری کی گئی۔ بائیڈن تل ابیب پہنچ گئے۔
حماس کو اسرائیل نے کھڑا کیا ہے
یورپی یونین کے تمام ممالک نے اسرائیل کا ساتھ دیا۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ریاستیں اس من گھڑت مذہبی دہشت گردی کے زیر اثر ہیں، دنیا بھر میں سڑکوں پر نکل آئے۔
باشعور افراد جو یہ دیکھتے ہیں کہ ریاستوں میں انصاف اور ضمیر کی کمی ہے وہ لاطینی امریکہ، امریکہ، پورے یورپ اور مسلم ممالک کی سڑکوں پر فلسطینی کاز کی حمایت کر رہے ہیں۔ اسرائیل ہی نہیں،یہاں تک کہ امریکہ میں بھی احتجاج شروع ہو گیا۔ مگر مغربی میڈیا نے جو رویہ اپنایا اس نے سب کو ششدر کرکے رکھ دیا۔
یہ بداخلاقی اور بے ایمانی پائیدار نہیں ہوسکتی کیونکہ ہم سوشل میڈیا کے دور میں رہتے ہیں۔ ہم سرد جنگ سے پہلے کے دنوں میں جی رہے ہیں
ایک یک قطبی دنیا کے خاتمے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے امریکہ نے کسی بھی تنازعہ کے حوالے سے چین اور روس کا براہ راست سامنا نہیں کیا ہے۔
پوتن نے بحیرہ روم تک پہنچنے والے ہائپرسونک میزائلوں کی بات کی۔ جب کہ چین نے طیارہ بردار جہاز بحیرہ روم میں بھیجے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اس سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔
اس صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلم ممالک ان چیلنجز کے جواب میں کیا کر سکتے ہیں؟ پہلی جنگ عظیم کے بعد، موجودہ دور کو ذہن میں رکھتے ہوئے مسلم سرزمین کی تشکیل نو کی گئی ۔ جغرافیہ کی اس سوچی سمجھی تقسیم نے بدقسمتی سے داخلی تنازعات کو جنم دیا ہے
جس سے مسلم ممالک کے درمیان اختلاف پیدا ہوا ہے جو استعماری طاقتوں کے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں اور جو مہارت کے ساتھ ان تقسیموں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہی وہ حربہ تھا جو عرب بہار کے دوران عالمی گینگ کے ہاتھوں شام اور لیبیا کو عدم استحکام کا شکار کرنے کا باعث بنا۔
حالاں کہ اس وقت عرب گلیوں میں رہنے والے نوجوانوں کو بہتر زندگی اور آزاد ریاست کا خواب دکھا یا گیا تھا۔ اس وقت ترکی کی حمایت کی وجہ سے لیبیا کا شیرازہ بکھرنے سے بچ گیا تھا۔
ترکی نے2017 میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)کی کرسی صدارت سنبھالی۔
6 دسمبر کو ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا۔
13 دسمبر کو، او آئی سی نے اجلاس بلایا اور یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جسے امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کر دیا۔
اردگان کی بھرپور سفارتی کوششوں سے یہ قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے لیے پیش کی گئی جہاں 128 ہاں اور 9 ووٹ نہ ہونے کے بعدامریکا اور اسرائیل کے خلاف منظور کی گئی۔
اس سفارتی کوشش نے امریکا اور اسرائیل کو بے چین کر دیا ۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ خواہش ضرور کی جاسکتی ہے کہ او آئی سی کو چاہیے کہ وہ مسلم ممالک کے درمیان تنازعات کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز کرے۔
خاص طور پر ترکی، مصر، ایران اور سعودی عرب جیسے بڑے ممالک کو آپس میں عدم جارحیت کے معاہدے پر دستخط کرنا چاہیے۔
چین کی ثالثی نے سعودی عرب اور ایران کو قریب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان امن کا تصور کریں تو خود یہ واضح ہوجائے گا کہ ان ممالک کی قربت کا مطلب امریکہ کے لیے قیامت صغریٰ ہے، کیوں کہ غاصب صہیونی مذہبی دہشت گردی کی نسل کشی نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ مسلم ریاستیں شدید خطرے میں ہیں۔ اتحادیوں کے ساتھ جنگیں جیتی یا ہاری جاتی ہیں۔
فلسطین کے حق میں ایک غیر معمولی عالمی رائے عامہ دنیا بھر میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔
اس کے برعکس، یہ واضح ہے کہ مغربی ریاستوں نے مجموعی طور پر یہودی مذہبی دہشت گردی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں، یا یوں کہےر کہ صوہئنیت کے سامنے جو ہتھیار مغرب نے 1897میں قائم کی گئی یہودی نسل پرستوں کی تنظیم صہیونیت کے سامنے ڈالے تھے
اور جس کا مشاہدہ کر کے علامہ اقبال نے 1905 میں کہا تھا ’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے‘ وہ اپنی تمام تر سفاکی اور غضبناکی کے ساتھ سامنے آکر کھڑی ہوگئی ہے۔ ماضی کی ایک بڑی طاقت ترکیہ اور بڑے اسلامی ممالک کی طاقتوں کو او آئی سی میں شناخت اور روح پیدا کرنے کی ضرورت پر توجہ دینی چاہیے۔
اگر وہ توجہ دیں تو سیکورٹی تنظیم اور فوج کا قیام کوئی ناممکن کام نہیں ہے۔ کیونکہ اقوام متحدہ نے اسرائیل کی تمام تر غنڈہ گردی کے باوجود جس قسم کا رویہ اپنارکھا ہے وہ دنیا کے سامنے اس کے اپنے دیوالیہ پن کا اعلان ہے۔
مسلم ممالک کے سربراہان اور ارباب حل و عقد کو یہ جان لینا چاہیے کہ مغرب کی نوآبادیاتی تہذیب انسانیت کے لیے سب سے بڑی آفت ہے۔ مغربی استعماری طاقتوں نے دو صدیوں تک اپنی فلاح و بہبود اور مستقبل کو محفوظ بناتے ہوئے باقی دنیا کو جنگوں اور مصائب کی سزا دی۔
آج مغربی نوآبادیاتی تہذیب میں نظم و ضبط قائم کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وہ جن حقوق اور اقدار کےعالم گیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں صرف ان کی اپنی حدود میں لاگو ہوتے ہیں اور ان کے دعووں کو دنیا کی نظروں میں کھوکھلا کر دیتے ہیں۔
مسلم اقوام کا اتحاد امید کی کرن کا کام کر سکتا ہے کیونکہ اس وقت عالمی سطح پر جس نوع کے خطرات اور مشکلات ہیں ان کے مصنفانہ حل کے لیے کوئی ایسارہنما نہیں ہے جس پر اعتماد کیا جاسکے یا جو امن عالم کے لیے فکر مند ہو۔
ایسی صورت میں تعاون، مکالمے اور افہام و تفہیم کو فروغ دے کر یہ قومیں اجتماعی طور پر مشترکہ خطرات سے نمٹنے، امن کو فروغ دینے اور سب کے لیے منصفانہ ماحول فراہم کرسکتی ہیں۔ اس وقت دنیا کو سب سے زیادہ اسی کی ضرورت ہے۔