حضرت عمر رضی اللہ عنہ اب کیوں نہیں آتا

Spread the love

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اب کیوں نہیں آتا ؟

ڈاکٹر مریم خالد

آہ کیسے وقت میں تری یاد آئی ہے۔ تجھے تو تاج دارِ مدینہﷺ نے جھولی پھیلا کر مانگا تھا ۔ تجھے تو سرورِ دو جہاںﷺ کی دعائیں اس وقت سے

حاصل تھیں جب تُو مسلمان بھی نہیں تھا۔ بہت دھماکے دیکھے ہیں تاریخ کی گزرگاہوں نے مگر وہ مشرکوں کے ٹوٹتے دلوں کی گونج آج تک زمانے کو تھراتی ہے جب ترے دارارقم میں کلمۂ شہادت پڑھنے پہ غازیانِ حق نے تکبیر کا غلغلہ اٹھایا تھا۔ وہ دن تھا کہ عظمتِ ہدیٰ کا سورج فلک پہ نئے انداز سے مسکرایا تھا۔ کعبہ کے بت سہمے پڑے تھے شرک کے ایوانوں میں ماتم بپا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اب فاروق بن کے چلا آیا تھا۔ جس دن سے اس نے راہِ حق پہ قدم رکھا، اسی دن سے وہ چلا تو کارواں بن کر چلا۔ اس زمیں کی ظلمتوں میں آسماں بن کر چلا۔ زمین کے خداؤں کے سینے پہ مونگ دل کے توحیدی اذاں بن کر چلا۔

فاروق _ !! ہاں! فاروق آ گیا تھا اب۔ وہ آیا تو اسلام کا کوئی نام لیوا سر جھکا کر چلتا ہی نہ تھا۔ ہجرت کے دن آئے۔

ہر کوئی راتوں کو نکلا، خفیہ راستے آباد کیے گئے، بچتے ہوئے رازداری سے چلے مگر فاروقؓ! تلوار اٹھائے سرِ میداں آیا اور مکہ کی فضاؤں میں بجا نقارے دیے، “جو چاہتا ہے اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم دیکھے وہ آئے! سامنے آئے!” آج کفر کے سردار دروازوں کی درزوں سے دیکھ رہے تھے اور وہ جا رہا تھا عمرؓ۔

ان کے دلوں کو گھوڑوں کے سموں سے روندتے ہوئے۔ وہ عمرؓ تھا عمرؓ! بولتا تھا تو قرآن اترتا تھا۔ چلتا تھا تو ابلیس رستہ بدلتا تھا۔ لڑتا تھا تو جنوں کو پچھاڑ دیتا تھا۔ اس کی کسی بات کو آفتابِ نبوت ﷺ نے رد کر بھی دیا تو عرش والا اس کی تائید کرتا تھا۔ پیغمبرِ خداﷺ کی ذات کے ساتھ ایسا نتھی ہو گیا کہ “میں، ابوبکرؓ اور عمرؓ” ان کی گفتگو میں ایک مکمل لفظ بن کر سما گیا تھا۔ ایمان والوں کی خلقت نے خلافت کی خلعت اس پہ سجائی تو کیا کیا داستانیں نہ تھیں کہ وجود میں آئیں۔ کوئی غیر ملکی قاصد تھا کہ لوگوں سے پوچھتا تھا، “خلیفہ کا محل کہاں ہے؟”

اور لوگ ابرو سکیڑ کر کہتے تھے، “محل؟ خلیفہ کا؟” لوگوں کے کہنے پہ وہ مدینہ کے راستوں کی طرف چل نکلا۔ بڑی منزلوں کے مسافر راستوں میں ملتے ہیں انہیں محلوں سے کیا مطلب؟ دور ایک درخت کے نیچے کسی پتھر پہ سر رکھے عمر فاروقؓ تنہا سو رہے تھے۔ قاصد دیکھتا رہا، تکتا رہا۔ ایک روز شاہ ہرمزان لباسِ فاخرہ میں ملبوس ملنے آیا۔

پوچھتے پوچھتے مسجد آیا جہاں عمرؓ تنہا سو رہے تھے۔ وہ انگشت بدنداں رہ گیا اور پھر اس کی گواہی تاریخ نے قلم اٹھا کر ثبت کر لی “تُو نے انصاف کیا اور آرام پایا عمرؓ!” توحید کا وہ پاسباں ایسا تھا کہ فاتح جرنیل خالد بن ولیدؓ سے سپہ سالاری کا قلمدان لے لیا کہ کہیں لوگ اللہ کی بجائے سیف اللہ پہ توکل نہ کرنے لگیں۔ حجرِ اسود پہ پروانوں کی طرح لپکتے لوگوں کے  ہجوم میں اس نے پتھر کو چوما اور ببانگ دہل کہا “واللہ! تُو ایک پتھر ہی ہے۔

پیغمبرِ حقﷺ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا کبھی تجھے اپنے لبوں سے لگایا نہ ہوتا۔م” وہ کہ جس کا نام لینے پر کفر کے ایوانوں میں پابندی تھی کہ بادشاہوں کی طبیعت ناساز ہوتی ہے، اسے بھری مجلس میں عورت اٹھ کر کتاب اللہ کی آیت سنا کر ٹوکتی تھی کہ اللہ کی دی وسعتوں کو تنگ کرنے کا تمہیں اختیار کس نے دیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ ؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھیگی آنکھیں جھک کر برسرِ منبر کہتی تھیں، ہر شخص تم سے زیادہ فقیہہ ہے عمرؓ! عمرؓ!!

تاریک راستوں کے تنہا مسافر صحراؤں میں تھک کر بیٹھ جاتے تھے تو عمرؓ کو سامنے پاتے تھے کہیں بنتِ آدم کی درد میں ڈوبی آہیں ابھرتی تھیں تو عمرؓ اپنی اہلیہ کے ساتھ مرہم لیے چلا آتا تھا۔ ادھر گھر میں معصوم بچوں کی بھوک سے کراہیں اٹھتی تھیں

اُدھر کمر پہ آٹا اور گھی اٹھائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دروازے پہ دستک گونج جاتی تھی۔ جہاں غم ہوتا، وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہوتا۔ جہاں ستم ہوتا وہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہوتا۔ جہاں کفر ہوتا وہاں عمرؓ ہوتا۔ ہر کوچہ، ہر محاذ پہ دینِ حق کا پاسباں عمرؓ ہوتا۔ اگر! آقاﷺ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو ہاں! عمرؓ ہوتا!

آہ! کیسے وقت پہ تیری یاد آئی ہے آج۔ جن زمینوں کی کنجیاں تجھے دشمن نے خود تھمائی تھیں، ان کے قفل آج ہمارے لہو سے کھولے گئے ہیں۔ دینِ احمد ﷺ پہ ہر سمت سے یلغار جاری ہے اور اطلس و حریر و دیبا میں ملبوس ہمارے حکمرانوں کی قبائیں کفار کے رستوں کی دھول صاف کرتی ہیں۔

آج فرات کے کنارے بکریاں پیاسی ہیں کہ اس کا پانی امتیوں کے لہو سے سرخ ہو چکا ہے۔ آج چولہوں پہ ابلتے پتھروں کے جوش میں بچوں کی چیخیں دب جاتی ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فراق میں ماؤں کی آنکھیں سلگتی ہیں اب صحراؤں میں گونجتی آہیں ذروں سے ٹکرا کر دم توڑ دیتی ہیں، فلک بھیگتی انکھوں سے سوال کناں ہے،

“عمرؓ اب کیوں نہیں آتا؟” فاروقؓ! تیرے نام کے ہر حرف پہ میں قربان!

تیری جدائی، تیری یادیں ستاتی ہیں!

؎ اٹھا لے زر کی رنگینی فقیری کا ہنر دے دے

عطا کر جان لفظوں کو، دعاؤں میں اثر دے دے

فرشتے ہم نے کیا کرنے، ہمیں کوئی بشر دے دے

ترستی ہے یہ دنیا یا خدا! کوئی عمرؓ دے دے

34 thoughts on “حضرت عمر رضی اللہ عنہ اب کیوں نہیں آتا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *