حماس کے سیاسی سربراہ مجاہد ملت ڈاکٹر اسماعیل ہانیہ کی عظیم شہادت اور حیات وخدمات پر ایک نظر
حماس کے سیاسی سربراہ مجاہد ملت ڈاکٹر اسماعیل ہانیہ کی عظیم شہادت اور حیات وخدمات پر ایک نظر !
انوار الحق قاسمی
(ترجمان جمعیت علماء روتہٹ نیپال)
فلسطین کے سابق وزیراعظم،اسلامی مزاحمتی تحریک مزاحمت حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ،فلسطینی گروپ کی بین الاقوامی سفارت کار،امت مسلمہ کی قابل قدر اور قابل فخر شخصیت،عالی حوصلہ اور عظیم مجاہد ملت ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ(اسماعیل عبد السلام ہنیہ) ایران کے دارالحکومت تہران میں 31/جولائی 2024ء کی شب میں ایرانی وقت کے مطابق دو بجے اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوگئے:انا لله وانا إليه
راجعون.آج یعنی 2/اگست 2024ء کو بعد نمازِ جمعہ مجاہد ملت ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ اور آپ کے محافظ وسیم ابو عثمان کی نمازِ جنازہ دوحہ کی عظیم مسجد امام محمد بن عبد الوہاب میں ادا کی گئی ہے۔
اور آپ کو دوحہ لوسیل قبرستان میں معروف مذہبی مبلغ اور ممتاز عالم دین علامہ یوسف القرضاوی کے پہلو میں ہزاروں اشک بار آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔جب آپ کے جسد خاکی کوقبر میں اتارا گیا،تو فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی اور شرکا ایک دوسرے سے گلے لگا کر رونے لگے ۔
فلسطینی پرچم ہوا میں سربلند اور لہراتا رہا۔ آپ کی نمازِ جنازہ میں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد، والد شیخ حمد بن خلیفہ، ترک وزیر خارجہ،امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن،حماس رہنما خالد مشعل،ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ کے بیٹوں،حماس اور مزاحمتی تحریکوں کے نمائندوں اور دنیا بھر سے آئے اہم افراد نے شرکت کی۔
اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر محمود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران کے دارالحکومت تہران گئے تھے۔ جہاں آپ، جس مقام میں قیام پذیر تھے،اسے 31/جولائی 2024ء کی رات میں تقریباً دو بجے غدار ظالم صہیونی نے ڈرون میزائل کے ذریعہ آپ کو نشانہ بنا کر، بزدلانہ حملے میں شہید کردیا۔ آپ کی شہادت سے دنیا بھر کے امن پسند انسانوں میں شدید غم وغصہ پایا جارہا ہے۔ یقینا اس میں کوئی شک نہیں آپ کی شہادت، ایرانی کتوں کی گہری سازشوں کا ایک بڑا نتیجہ ہے۔
آپ کی شہادت سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایرانی اور اسلام کے ازلی معاندین آپ کے خوں آشامی کے ایک بڑی مدت سے منتظرتھے،جس کے لیے اسے بس ایک خوش گوار وقت کا انتظار تھا،پس اسے جوں ہی وہ وقت میسر ہوا، آپ کو شہید کرانے میں کسی طرح کی کوئی تاخیر نہیں کی ۔
ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ ایک نیک طینت اور سادہ دل انسان تھے؛اس لیے آپ اپنی سادہ لوحی کی بناء ایرانی اسلام دشمن کی گہری سازشوں کو نہیں سمجھ سکے اور انھیں اپنا مسیحا اور غم خوار سمجھ بیٹھے ،کہ جس کا خمیازہ آپ کو یہ بھگتنا پڑا کہ آپ ایک ایسے وقت میں جام شہادت نوش فرمالیے، کہ جس میں آپ کی قیادت کی فلسطینی مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ ضرورت تھی ۔
اللہ آپ کی قبر کو بہشت کا ایک آرام دہ اور سکون خاطر گھر بنائے اور آپ کی شہادت کے صدقہ طفیل غاصب اسرائیل سمیت ایران کو تباہ و غارت کرے۔ا
مام اہل السنّت والجماعت حضرت مولانا عبد العلیم فاروقی صاحب- نور اللہ مرقدہ- نے ایک جلسہ عام سے اپنے کلیدی خطاب میں کہاتھا کہ :’پوری دنیا ایران کے بارے میں غلط نظریات رکھتی ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے ایران دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ملک ہے۔
ساری دنیا میں جتنے ملک ہیں،سب سے زیادہ پھانسی ایران میں ہی دی گئی ہے، اور اہل السنت والجماعت،جن کا نام مسلمان ہے،انھیں دی گئی ہے۔ اگر کوئی دہشت گردوں کو امن کی کرسی پر بیٹھائے گا،تو ساری دنیا دہشت گرد ہو جائے گی،اس کو مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے، کہ جس طرح اگر کوئی شخص چوروں کے پاس مال رکھے گا،تو اس کے مال کی کوئی گارنٹی نہیں لی جاسکتی ہے
بعینہ اسی طرح دہشت گردوں سے، کبھی بھی خیر اور امن کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے؛اس لیے مسلمانوں کو چاہیے اپنے ازلی دشمن کو پہچانے اور ان سے کسی طرح کا کوئی دوستانہ روابط ہر گز نہ بنائے ،کیوں کہ یہ لوگ اسلام کے بڑے دشمن اور غدار ہیں ،جو مسلمانوں کو صفحہ ہستیسے مٹانے کا خواب رکھتے ہیں اور موقع ملنے پر میزائل داغنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں،اس لیے ان سے خود بھی بچیں اور اپنی اولادوں کو بھی ان سے بچنے کی تلقین کریں ۔حضرت ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ شہید- رحمۃ اللہ علیہ –
صبر واستقامت کے پہاڑ اور تقویٰ و شجاعت کے روشن مینار تھے۔ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ نے مشکل حالات میں بھی دین اسلام کی آبیاری کی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں،لیکن آپ کے عزم و حوصلے میں کبھی بھی کسی قسم کی کوئی کمی نہ آسکی۔ ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ اپنی سفارتی وسیاسی زندگی میں ایک عملی و مدبر سیاست داں اور سفارت کار کے چہرے کے طور پر جانے جاتے تھے۔
آپ نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا۔آپ کی زندگی کے کئی قیمتی سال جلاوطنی اور مہاجرت میں گذرے ہیں۔
آپ کی جدو و جہد اور لازوال قربانیاں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ڈاکٹر اسماعیل عبد السلام ہنیہ کی ولادت 8/مئی 1963ء میں غزہ کے ایک مہاجر کیمپ میں ہوئی۔آپ نے الازھر انسٹی ٹیوٹ سے تعلیم حاصل کی اور غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے عربی ادب میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ آپ ماشاءاللہ!ایک بہترین اور خوش الحان حافظ قرآن بھی تھے۔
آپ نے اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے 1983ء میں اسلامک اسٹوڈنٹ بلاک میں شمولیت اختیار کی۔ 1987ء میں جب اسرائیلی قبضہ کے خلاف پہلی فلسطینی بغاوت شروع ہوئی اور حماس کا قیام عمل میں آیا،تو آپ گریجویشن مکمّل کرنے کے بعد اس تنظیم میں شامل ہوگئے۔ 1988ء میں پہلے انتفادہ میں شرکت کرنے کی بناء آپ کو اسرائیل نے 6/ماہ قید میں رکھا ۔
1989ء میں دوبارہ گرفتاری کے بعد 1992ء میں آپ کو لبنان ڈی پورٹ کیا گیا تھا،جس کے اگلے سال اوسلو معاہدے کے بعد آپ کی غزہ واپسی ہوئی ۔ 1997ء میں آپ کو آپ کے روحانی رہنما شیخ احمد یاسین صاحب – رحمۃ اللہ علیہ – کا پرسنل سیکرٹری بنایا گیا ۔
2006 ء میں فلسطین کے الیکشن میں حماس کی اکثریت کے بعد آپ کو فلسطینی اتھارٹی کا وزیر اعظم مقرر کردیا گیا۔ حماس فتح اختلافات کے باعث یہ حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی ؛لیکن غزہ میں حماس کی حکومت بر قرار رہی ،جس کے آپ ہی سربراہ رہےہیں،اور 2007ء سے 2014ء تک غزہ کی پٹی پر حکومت کی۔2017ء میں آپ کو خالد مشعل کی جگہ حماس کا سیاسی رہنما بنایا گیا۔ 7/اکتوبر 2023ءسے جاری حماس اور اسرائیل جنگ میں آپ کی قربانیاں قابل رشک ہے۔
آپ نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کےلیے اپنے آپ سمیت اپنے خاندان کے ستر سے زائد افراد کی قربانیاں دےدی ہیں۔ آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بس فلسطین کی آزادی کی تگ ودو میں گزر رہا تھا۔ آپ کے بلند حوصلے کو دنیا نے اس وقت دیکھا،جب آپ کے تین جواں سال صاحب زادے:
(1)
حازم
(2)محمد اور
(3) عامر شاطی کو ظالم صہیونی فوج نے 2024ء کی عید کے دن شہید کردیا۔ یہ تینوں بیٹے ایک کیمپ میں پناہ گزینوں سے عید ملن کے لیے گئے تھے۔ آپ نے عزم وہمت اور بلند حوصلگی کا ثبوت دیتے ہوئے کہاکہ :ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں،چاہے بچے شہید ہوں اور گھر تباہ کردیے جائیں ۔آپ نے حماس کے آغاز کی اکیسویں سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ :
ہم وہ لوگ ہیں،جو موت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں ،جیسے ہمارے دشمن زندگی سے پیار کرتے ہیں۔ آپ نے مزید یہ بھی کہاتھا کہ :ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے،نہیں کریں گے ،نہیں کریں گے۔ آپ اپنی ایک گردشِ ویڈیو میں شہادت کے جذبے سے یوں گویا ہیں کہ :
کچھ لوگ جب مرجاتے ہیں تو لوگ ان کو بھول جاتے ہیں، ان کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔ جب کہ کچھ لوگ جب دنیا سے جاتے ہیں، تو اللہ ان کا تذکرہ پوری دنیا میں عام کرتے ہیں۔ ان کی قدرو منزلت بڑھا دیتے ہیں اور ان کی عظمت کے جھنڈے دنیا میں لہرائے جاتے ہیں۔ یقینا آپ اس کے زیادہ مستحق نکلے اور اللہ نے آپ کو پوری دنیا میں عام کردیا۔ آپ کی شہادت کے بعد پوری دنیا میں بس، آپ ہی کا ذکر خیر چل رہا ہے اور آپ یقینا مرے نہیں ہیں ،بل کہ اللہ کے یہاں زندہ ہیں۔
آپ کی شہادت پرآپ کے اہل خانہ کے بیانات :
آج یعنی 2/اگست 2024ء کی صبح جب آپ کے جسدِ خاکی کو قطر میں لایا گیا، تو آپ کی اہلیہ (حفظها الله تعالیٰ) نے سرہانے کھڑے ہو کر افرمایا : – الله أکبر ولله الحمد، آپ نے ہمیں صبر کا عادی بنایا ہے، ہم نے آپ سے صبر و عزیمت کا درس لیا ہے۔
آپ کی شہادت کے بعد آپ کی بہو ایناس اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ : میرے سسر ایک عظیم والد کی جگہ تھے،ان کی شہادت سے ہمارے خاندان کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں،ہم اللہ کی رضا اور تقدیر پر راضی ہیں،میرے سسر شہید اسماعیل ہنیہ اللہ آپ سے راضی ہو۔
آپ کے صاحب زادے :عبد السلام ہنیہ نے کہا: میرے والد کا خون فلسطین کے سب سے کم عمر بچے کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ہمیں اس پر فخر ہے ،ہمارا سر بلند ہے۔ سارہ اسماعیل ہنیہ نے کہا:میرا دل ٹوٹ گیا بابا! آپ کہاں چلے گئے ؟آپ نے اپنی پیاری سارہ کو کہاں چھوڑ دیا ؟شہادت آپ کو خوب صورت لگتی ہے بابا ،آپ سب کے لیے پیارےتھے۔مجھے آپ کی بڑی ضرورت تھی۔
آپ کی شہادت پر القسام بریگیڈز نے کہاکہ: اسماعیل ہانیہ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور ان کے خون کے ایک ایک قطرہ کا حساب لیا جائے گا۔ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر فقیہ ملت حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ نے کہاکہ: فلسطینی قائد اور عالی حوصلہ مجاہد شیخ اسماعیل ہنیہ کی شہادت ہر غیرت مند مسلمان کے لیے اتنا بڑا صدمہ ہے کہ اس کو الفاظ کا پیکر نہیں دیا جاسکتا۔ یہ صرف ایک مسلمان رہنما اور انصاف و آزادی کے سپہ سالار پر حملہ نہیں ؛ بل کہ انسانی اقدار،بین الاقوامی قوانین ،اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ روایات کا قتل ہے۔
شیخ اسماعیل ہنیہ ایک ایسے مرد مجاہد تھے،جنھوں نے مسجد اقصٰی کی حفاظت کے لیے خاندان کے ڈھیر سارے افراد کا نذرانہ شہادت پیش کیاہے اور ایک ایسی نسل کی تربیت میں ان کا نمایاں حصہ ہے،جو حق اور سچائی کے لیے جان دینے کو زندہ رکھنے سے زیادہ عزیز رکھتی ہے۔ مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی نے کہا :
افسوس کہ ہمارے اداروں میں بڑا بند ماحول رکھا گیا ہے۔تذکرے نہیں ہوتا،ہمارے اداروں میں فلسطین کا اور ہمارے قائدین کا۔بڑے بڑے اداروں میں واقف ہی نہیں ہیں لوگ ؛بل کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ بڑے گمراہ قسم کے لوگ ہیں۔
بس ایسا لگتا ہے کہ اخلاص بس صرف ہمارے اداروں میں ہے ،اور اداروں کے بھی فلاں بزرگ کے خاندان میں ہے بس! یہ بہت بڑی محرومی ہے۔ جمعیت علماء نیپال کے مرکزی رکن حضرت مولانا محمد عزرائیل مظاہری نے کہا کہ :
ایران نے مجاہد ملت ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ کو شہید کراکر اپنے اسلام مخالف ہونے کا پختہ ثبوت دیا ہے اور آیت اللہ خمینی نے ثابت کردیا ہے کہ ہم مسلمانوں کے ہم درد اور وفادار کبھی نہیں ہو سکتے ہیں۔ یقینا مجاہد ملت کی شہادت مسلمانوں کے لیے انتہائی درد انگیز اور حیرت انگیز ہے۔ خیر ہر ایک کو یہاں سے جانا ہے؛ مگر آپ ایسے گئے کہ دنیا کے مسلمان آپ کے جانے پر رورہے ہیں اور بلک رہے ہیں اور آپ کے لیے دعائے خیر کر رہے ہیں۔
اللہ آپ کی مغفرت فرمائے اور شہادت کا بلند درجہ عطا فرمائے آمین یارب العالمین ۔
Pingback: نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ وبالا ⋆ نعمت اللہ محمدناظم قاسمی مکی