حکومتی سختیاں اور ہمارے رویے

Spread the love

حکومتی سختیاں اور ہمارے رویے !!

غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

(تصویر ماضی) ایک صدی پرانی بات ہے۔سن 1331ھ/1911 میں اٹلی(Italy) نے طرابلس الغرب(موجودہ تریپولی، لیبیا Libya Tripoli) پر حملہ کیا تھا۔ان دنوں طرابلس نیم خود مختار ریاست کے طور پر سلطنت عثمانیہ کا حصہ ہوا کرتا تھا۔

حملے کے وقت طرابلس الغرب(تریپولی) میں ترک فوج کی چھوٹی سی ٹکڑی موجود تھی جو اٹلی جیسی طاقت ور فوجی حکومت سے مقابلہ کرنے کی متحمل نہیں تھی لیکن عرب اور مقامی بربر قبائل کی جی داری کی بدولت یہ جنگ پورے ایک سال( ستمبر1911 تا اکتوبر 1912) تک چلی۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی ہمدردیاں سلطنت عثمانیہ کے ساتھ تھیں۔

ہر مسلمان ان کے لیے فکر مند اور بے چین تھا۔اس فکر مندی سے مسلمانان ہند بھی بے نیاز نہ تھے۔

ان کے دلوں میں بھی سلطنت عثمانیہ کے لیے فکر مندی اور ملی ہمدردی کے جذبات موجود تھے۔ان دنوں اعلی حضرت امام احمد رضا قادری(1856/1921) نے اسلامیان ہند کی قیادت فرماتے ہوئے سلطنت عثمانیہ کے لیے بڑے پیمانے پر رفاہ و امداد کا بیڑا اٹھایا۔

ملکی سرحدوں اور برطانوی قبضے کے باعث مسلمانانِ ہند کی عملی شرکت کی تو کوئی سبیل نہیں تھی لیکن آپ نے سلطنتِ عثمانیہ کے لیے مالی امداد کی تحریک شروع کی۔

اس سلسلے میں خلیفہ اعلی حضرت مولانا سید سلیمان اشرف صاحب کی تحریک پر مسجد بی بی جی میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا۔ جس میں سلطنت عثمانیہ کی حمایت کرتے ہوئے مالی امداد کی تجویز رکھی گئی۔

اعلی حضرت نے سب سے پہلے اپنی جیب خاص پانچ سو روپے پیش کئے۔اس کے بعد تو مسلمانانِ بریلی نے ترک بھائیوں کے لیے ایسا دل کھولا کہ اسی محفل میں تیرہ ہزار روپے اکٹھا ہوگیے۔

سن 1917 میں ایک روپے کی قیمت 13 ڈالر کے برابر تھی۔اس طرح تیرہ ہزار روہے کو ڈالر میں تبدیل کیا جائے تو ایک لاکھ انہتر ہزار ڈالر(169000) بنتے ہیں جس کی قیمت موجودہ وقت میں ایک کروڑ چالیس لاکھ ہندوستانی روپے سے زائد بنتی ہے۔

جس میں تنہا امام احمد رضا کی رقم پانچ لاکھ سے زائد کی ہوجاتی ہے۔ اس ایک محفل کی امداد سے اس رفاہی مہم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔بعد میں اسی مقصد خاص کے لیے جماعت انصار الاسلام کا قیام بھی کیا گیا اور ملک وبیرون ملک مسلمانوں کے ملی و معاشی مسائل کے حل کے لیے ایک بنیادی پلیٹ فارم تیار کیا گیا۔یہاں یہ پہلو بھی ذہن میں رکھیں کہ

🔸یہ رقم اس وقت اکٹھا ہوئی تھی جب خود مسلمانان ہند انگریزی ظلم کا شکار اور مالی مشکلات سے دو چار تھے۔

🔹اس وقت ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت سلطنت عثمانیہ کی حلیف نہیں حریف تھی اور یہ اقدام اس کی پالیسی کے سخت خلاف تھا۔ان وجوہات کے باوجود امام احمد رضا اور ان کے خلفااو تلامذہ کی دور اندیشی، ملی قیادت اور بین الاقوامی رسوخ ہی کا اثر تھا کہ حکومت برطانیہ کی ناراضگی کی پرواہ کیے بغیر بڑے پیمانے پر ترک بھائیوں کے لیے ہزاروں میل دور رہ کر بھی رفاہ و امداد کا کام انجام دیا گیا۔

(حالیہ منظر نامہ)سات اکتوبر سے جاری فلسطین/اسرائیل جنگ کی تباہی و بربادی نے ہر حساس اور درد مند انسان کو بے چین کر رکھا ہے۔اسرائیلی حملوں میں اب تک پانچ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

اسکول/اسپتال/مسجد اور رہائشی آبادیاں تک حملوں کی زد پر ہیں۔الاہلی ہسپتال پر اسرائیلی بم باری اور پانچ سو سے زائد مریضوں کی موت نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو تڑپا کر رکھ دیا۔اس درد سے ملت اسلامیہ ہند بھی نڈھال ہے مگر ظلم بالائے ظلم یہ ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت نے اسرائیل کی محبت میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کو غداری اور دہشت گردی قرار دے دیا ہے۔

اسرائیل کی مذمت اور فلسطین کی حمایت پر مقدمات اور گرفتاریاں ہورہی ہیں۔مساجد کے ارد گرد پولیس اور ایجنسیوں کے اہل کار پہرہ دے رہے ہیں.

سوشل میڈیا کی خصوصی نگرانی ہورہی ہے۔محض I stand palestine لکھنے پر ہی مقدمات درج ہورہے ہیں۔پلے کارڈ کے ساتھ خاموش احتجاج بھی وجہ گرفتاری ہے۔مظلومین فلسطین کے لیے دعا تک کی ممانعت کے حکم نامے جاری ہورہے ہیں۔

پولیس کے دباؤ میں ذمہ داران مساجد ائمہ کو قضیہ فلسطین پر خاموش رہنے کی تاکید کر رہے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے یونیورسٹی احاطے میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی جلوس نکال کر اہل فلسطین سے اظہار ہمدردی کیا، جس کی پاداش میں طلبہ پر مقدمہ درج ہوگیا۔

پورے ملک میں یہ پہلا احتجاجی مظاہرہ تھا۔اس کے بعد کرناٹک میں ایک خاموش احتجاج ہوا بقیہ کہیں بھی کوئی عوامی احتجاج نہیں کیا جا سکا۔

کیوں کہ مرکزی حکومت کے اسرائیل حامی رویے کی وجہ سے فلسطین کی حمایت دہشت گردی کی حمایت قرار دے دی گئی ہے۔بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں خصوصی طور پر مدارس و مساجد اور سوشل میڈیا کی نگرانی کرنے اور اسرائیل کی مخالفت پر مقدمات وگرفتاری کے آرڈر کیے گیے۔

اسی سختی کی بنیاد پر بڑے بڑے مراکز/آستانے/مدارس/مشائخ اور علما نے سکوت ہی بہتر جانا۔

اس سکوت کو جانشین تاج الشریعہ حضرت مولانا عسجد رضا قادری بریلی شریف نے توڑا، اور فلسطین کی حمایت میں بیان جاری کرتے ہوئے اہل اسلام سے ان کی نصرت وفتح کے لیے دعاؤں کے اہتمام کی اپیل کی۔ممبئی میں رضا اکیڈمی نے بھی فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت میں احتجاج اور دعاؤں کا اہتمام کیا۔

گجرات سے تاج الشریعہ ایجوکیشنل اینڈ چیرٹی ٹرسٹ کی جانب سے سید شاہ نواز حسین رضوی کے ذریعے اہل فلسطین کے لیے امدادی مہم کی اطلاع سکون دینے والی ہے۔ کاش یہ مہم مرکزی آستانوں اور بڑے اداروں سے شروع کی جاتی تو زیادہ مؤثر اور زیادہ کامیاب ہوتی۔

ان دو چار مقامات کے سوا کہیں سے کوئی آواز سنائی دی نہ کوئی بیانیہ جاری ہوا بھرے پورے ہندوستان دو چند مقامات کے سوا ہر جگہ پر اسرار سناٹا اور ہو کا سا عالم ہے:کہیں بھی کوئی دریچہ کھلا نہیں ملتامیاں اس شہر میں کون لوگ رہتے ہیں

مسئلہ فلسطین عالمی ضابطہ حیات کے پس منظر میں

مسلمانوں کے لیے تو یہ علاقہ مقدس ہے ، تاہم غیروں کے لیے مسئلہ کی قابل قبول نوعیت پر بھی روشنی ڈالی جانی چاہیے

از : ڈاکٹر غلام زرقانی ، چیئرمین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکا

Click here اس کتاب کو خریدنے کے لیے ابھی آڈر کریں
نفرت انگیز نفسیات کو پروان چڑھانے والے عوامل
Click here آن لائن شاپنگ کے لیے کلک کریں
flipkart
amazon
myntra
firstcry

مسلم گنگا جمنی تہذیبی ڈھکوسلے سے باہر نکلے

ہمیں وطن عزیز کے ساتھ اپنے تشخص کی بھی حفاظت کرنی ہے

شوسل میڈیا بلیک میلنگ

اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم نہیں کر رہا ہے

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اب کیوں نہیں آتا

علماے کرام انداز خطابت پر توجہ دیں

موجودہ سیاست کو مذہب کا رنگ نہ دیا جائے

https://urdudunia.com/?p=25038

ہم بدلے کہ زمانہ ؟

ایک صدی پیش تر ایسے ہی حالات میں مجدد دین وملت اعلی حضرت اور ان کے خلفا کے جذبہ اخوت اور رفاہ و امداد کی تصویر دیکھ کر جہاں سینہ فخر سے چوڑا ہوجاتا ہے کہ ہمارے اکابرین نے سخت آزمائشی دور میں بھی اخوت اسلامی کا بے مثال مظاہرہ کیا وہیں موجودہ منظر نامہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ آج کیسا وقت آگیا ہے کہ علانیہ اظہار یکجہتی سے بھی ہماری زبانیں خاموش ہوگئی ہیں۔

وہ مشائخ جو آئے دن دہشت گردی کی مخالفت میں بڑے بڑے کنونشن/اعلامیہ اور بیانیہ جاری کرتے ہیں وہ آج اسرائیلی دہشت گردی پر مکمل خاموش ہیں۔جو لوگ دہشت گردانہ حملوں پر سراپا احتجاج بن جاتے تھے وہ آج سراپا در گزر بنے بیٹھے ہیں۔دہشت گردی مخالف کانفرنس کرنے والے ادارے اور تنظیمیں یوں خاموش ہیں جیسا کچھ ہوا ہی نہیں۔

تصوف اور امن وآشتی کا راگ الاپنے والے خدا جانے کس غار میں چلہ کش ہیں۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ سوال نہایت شدت سے سر ابھارتا ہے کہ ہماری ترجیحات کس بنیاد پر طے ہوتی ہیں، اپنی صواب دید کے مطابق، مصاحبین کی رائے کے مطابق یا کسی خارجی اثر کے مطابق؟

بہر صورت ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہر گزرتے دن ہماری غیرت وحمیت اور دینی اخوت کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ہم لوگ بغیر کسی چون وچرا کے سر تسلیم جھکائے جارہے ہیں اگر اس رویے کو نہ بدلا گیا تو مستقبل میں اس کے نہایت خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔

کچھ کام جو ضروری ہیںبحیثیت سواد اعظم جماعت کے ارباب حل وعقد کو کچھ اہم اقدامات کرنا ضروری ہیں تاکہ قضیہ فلسطین جیسے امور پر بر وقت اقدامات کیے جاسکیں، چند اہم امور درج ذیل ہیں:

🔸مرکز اہل سنت بریلی شریف اور جامعہ اشرفیہ جیسے اداروں/خانقاہوں کا دہلی میں عصری تقاضوں کے مطابق کل وقتی دفتر ہونا بے حد ضروری ہے۔

🔹ایسے نمائندے تیار کیے جائیں جو بین الاقوامی امور اور سفارتی آداب سے بخوبی واقف ہوں تاکہ بوقت ضرورت مختلف ممالک کے سفیروں سے ملاقات کرنے میں آسانی رہے۔

🔸نمائندہ خانقاہوں/اداروں اور شخصیات کے یہاں مستقل قانونی ٹیم کا ہونا بے حد ضروری ہے تاکہ حکومتوں کے جانب دارانہ احکامات کو چیلنج کیا جا سکے۔

🔹بین الاقوامی سطح پر نمائندہ مذہبی/سیاسی/سماجی شخصیات سے اتنے روابط ضرور رکھے جائیں کہ بوقت ضرورت کسی بھی تعلیمی/رفاہی امور کو انجام دیا جا سکے۔

🔸عربی/ترکی/انگریزی/فرینچ جیسی عالمی زبان جاننے والے افراد کی ٹیم ہو، جو مسلسل ان زبانوں میں اپنے حالات کی ترسیل اور ان کے حالات سے آگاہی کا سلسلہ جاری رکھ سکے۔

🔹دور حاضر میں مختلف جہتوں سے رفاہی کام چلتے رہتے ہیں اس لیے نمائندہ خانقاہیں/ادارے اپنی کسی رفاہی تنظیم کو انٹرنیشنل سطح پر رجسٹرڈ ضرور کرائیں۔

🔸 بیرون ممالک کے سفیروں(Ambassador’s) کو مناسب مواقع پر اپنے یہاں منعقدہ اجلاس میں بلایا جائے۔گاہے گاہے مختلف ایمبیسیوں میں اپنے نمائندگان اور وفود بھیجتے رہیں۔

اچھی طرح یاد رکھیں!موجودہ زمانے میں مریدوں کی تعداد اور شاگردوں کی بھیڑ ہی سے سب کچھ نہیں ہوجاتا بل کہ انہیں ایک لڑی میں پرو کر کسی مشترکہ کاز اور مقصد پر لگا دینے سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوتے ہیں ورنہ یہ بھیڑ محض اپنے ہی حلقوں میں نعرہ لگانے اور اپنے ممدوحین کی عظمتوں کے قصیدے پڑھتی رہ جاتی ہے اور بے حیثیت لوگ تِل کا تاڑ بنا کر بازی مار لے جاتے ہیں۔

28 thoughts on “حکومتی سختیاں اور ہمارے رویے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *