نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ وبالا
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ وبالا !
نعمت اللہ محمدناظم قاسمی مکی
استقامت و ثبات قدمی کا پہاڑ،تحریک آزادی فلسطین کے روح رواں،قائد تحریک ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے دل اداس، آنکھیں نمدیدہ اور زبان پر دعاء مغفرت و رفع درجات جاری ہیں،شیخ اسماعیل ہنیہ ماضی قریب اور عصر حاضر کی ایسی منفرد اور مثالی شخصیت ہیں کہ ان کی مثال پیش کرنا مشکل ہے۔
آپ نے تحریک آزادی مسجد اقصی وفلسطین کے لیےایسی قربانیاں پیش کی ہیں کہ تاریخ کے صفحات میں اس طرح کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں،آپ کا پورا خاندان میدان جہاد میں دشمنوں سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرتا رہا، اور شہادت کی ان خبروں پر یہ مرد مجاہد ہمیشہ مسکرا کر رضائے الہی کے سامنے سر تسلیم خم کرتا رہا، ابھی چند سالوں سے آپ تحریک کے سیاسی شعبہ کے ذمہ دار تھے اور قطر میں مقیم تھے۔
وہ چاہتے تو اپنے تمام اہل خاندان کو قطر یا کہیں اور منتقل کردیتے،مگر داد دیجئے اس مرد مجاہد کو کہ وہ اپنے بچوں کو فلسطین کے دوسرے بچوں کے طرح ہی اسی ماحول میں جینے کا عادی بنایا اور میدان جنگ سے اپنے دل کے ٹکڑوں کی شہادت کی خبروں کو مسکرا کر قبول کیا،شیخ ہنیہ نے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج ہمارے سامنے ایک اعلی مثال قائم کی ہے۔
شیخ اسماعیل ہنیہ کا نام سن کر ہی دشمنوں کی صفوں میں ایک بجلی گرتی تھی،ان کا خطاب عالی حوصلگی،بلند ہمتی، جرأت و بہادری کا نمونہ ہوتا جس سے جہاں مجاہدین کے دلوں میں جوش جہاد کا ولولہ پیدا،وہیں دشمنوں کے دلوں میں ڈر اور خوف کا ماحول پیدا ہوتا تھا۔
نرم گفتار،اعلی کردار اور جذبہ جہاد سے سرشار اس عظیم مجاہد نے اپنی پوری زندگی مسجد اقصی کی حفاظت اور سرزمین فلسطین کی آزادی کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا،گفتار و کردار کی صداقت،قول و عمل میں مطابقت کی عملی تصویر پیش کرنے والا ایسا عظیم قائد ایک ایسے وقت میں ہم سے جدا ہوگیا جب کہ اس کاز کو ان کی شدید ضرورت تھی،مگر جنت والے ان کے استقبال کے لیے منتظر تھے۔
دسترخوان الہی پر ان کا انتظار ہو رہا تھا،عند ربہم یرزقون کی فہرست میں نام آچکا تھا،پھر کیوں کر یہ مرد مجاہد تاخیر کرتا، جس نے اپنی زندگی کا ہدف ہی یا تو اپنے مقصد میں کامیابی یا شہادت کو قرار دیا تھا، وہ آج جام شہادت نوش کر رہا تھا، ہم یقینا ان کی شہادت پر غمگین ہیں،
مگر وہ اپنے رب کی بارگاہ میں شہیدوں کا درجہ پاکر خوش ہوں گے اور اللہ تعالی کے خصوصی مہمان نوازی سے مستفید ہو رہے ہوں گے۔
شیخ کی پہلی جنازہ سرکاری اعزازات کے ساتھ آپ کے مکان شہادت ایران کے طہران شہر میں لاکھوں لوگوں کی موجودگی میں ادا کی گئی۔
اور پھر آپ کی نعش کو بتاریخ یکم اگست ۴۲۰۲ء بروز جمعرات کی شام میں دوحہ قطر لایا گیا، اور جمعہ کی نماز کے بعد قطر کی سب سے بڑی جامع مسجد، مسجد شیخ عبد الوہاب میں ہزاروں فرزندان اسلام اور محبین تحریک نے دوبارہ آپ کی نماز جنازہ ادا کی، جس میں راقم الحروف کو بھی شرکت کا موقع نصیب ہوا
سیاسی وفود، سفراء ممالک اور قطر کی پوری قیادت جنازہ میں شریک رہی۔ امیر قطر شیخ تمیم آل ثانی حفظہ اللہ ورعاہ نے بذات خود نماز جنازہ میں شرکت فرمائی اور شہید مرحوم کے لیے دست بدعا رہے، جنازہ میں شرکت کے لیےسیکوریٹی کا سخت انتظام کیا گیا تھا۔
جمعہ کے دوسرے خطبہ میں خطیب نے شیخ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا ذکر کر کے ہم محبیین کی آنکھوں کو ترکردیا، نماز کے بعد ڈاکٹر علی قرہ داغی نے تمہیدی کلمات کہے اور پھر تحریک کے قائد شیخ خالد مشعل نے خصوصی مختصر خطاب کیا اور اپنے عزائم کا اظہار کیا،نیز مشکل وقت میں قطر کے بے لوث اورگراں قدر پر تعاون پر قطر کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔
اخیر میں مرحوم کے فرزند شیخ عبد السلام نے چند کلمات میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا،اور پھر تحریک کے ایک اہم قائد شیخ خلیل الحیہ نے نماز جنازہ پڑھائی، اور قطر کے خصوصی شاہی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قطر نے اسلامی اخوت اور ایمانی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک کی جس قدر مدد کی ہے اور کر رہے ہیں وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔
اور یہ بھی لکھا جائے گا کہ بہت سے اسلامی ممالک جو توحید اور اسلامی اخوت کا درس دیتے پھرتے ہیں وہ دوسروں کی سازش کا شکار ہو کر،بے جا خدشات میں مبتلا کیے گئے اورفکری گمراہی کا شکار ہوئے اور پھر اللہ نے ان سے اس عظیم کاز میں شرکت کی توفیق چھین لی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی اس مرد مجاہد کو شہیدوں میں اعلی مقام عطا فرمائے،اور فکری غلامی کی زنجیر کو اپنے گلے میں ڈالی ہوئی اس امت کی موجودہ مردہ قیادت کو مرحوم کی زندگی سے جرأت،ہمت اور جہد مسلسل کا کچھ سبق سیکھنے کی توفیق دے۔