زکات میں حکمت خداوندی اور ہماری ذمے داریاں

Spread the love

از قلم : محمد جنید رضا زکات میں حکمت خداوندی اور ہماری ذمے داریاں

زکات میں حکمت خداوندی اور ہماری ذمے داریاں

اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جس نے عبادات و ریاضت کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت کا بھی درس دیا ہے۔ جس نے اخلاقیات کے ساتھ اقتصادیات و معاشیات کو بھی مد نظر رکھا ہے۔ اس لیے کہ عبادت و ریاضت کا معاشیات سے بڑا تعلق ہے۔ جب انسان اپنی معیشت سے بے نیاز ہوگا۔

تبھی اس کا دل خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت خدا میں لگے گا۔ اور اگر اس کی عبادت میں یہ چیز حائل رہے گی، تو کبھی بھی اس کی عبادت میں خلوص و للہیت اور خشوع و خضوع نہیں آسکتا۔

تو ایسی صورت میں اہل ثروت حضرات مالداری کی بنا پر فکر معاش سے مستغنی ہیں۔ لیکن غرباے اسلام جو اپنی ضروریات کو بھی پورا نہ کر سکیں۔ وہ کیسے عبادت الہی بہتر طریقے سے کیسے ادا کر سکتے ہیں۔

اسی لیے اللہ تبارک و تعالی نے مسلمانوں میں اہل ثروت لوگوں پر زکات فرض کی۔ اور مقدار زکات اتنی کم رکھی کہ مالداروں کا بھی سارا مال خرچ نہ ہو اور غربا و مساکین کا بھی بھلا ہو جاے۔

اگر آج اسلام میں نظام زکات کو پورے عالم اسلام پر صحیح طریقے سے نافذ کر دیا جائے، تو کوئی مسلمان غریب نظر نہیں آئے گا۔ افسوس اس بات پر کہ اہل ثروت حضرات صحیح طریقے سے زکات ادا نہیں کرتے۔ اور جو کرتے بھی ہیں تو ان کی زکوٰۃ زیادہ تر حق داروں تک نہیں پہنچ پاتی ہے۔

یہ نظام قدرت ہے کہ ہر معاشرے کے تمام افراد یکساں نہیں ہوتے۔ کوئی مال دار ہے تو کوئی غریب۔ اگر تمام لوگ ایک جیسے ہوتے، تو لوگوں کا جینا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ معاشرے میں ہر ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ ایک کی ضرورت دوسرے سے جڑی ہے، اور معیشت بھی معاشرے میں گردش کرتی رہتی ہے۔

مال داروں کے پیسے غریب کے پاس آتے ہیں پھر مالداروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے اگر مالدار اپنی زکوٰۃ صحیح طور پر ادا کریں تو معاشرے کا ہر فرد بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔

اسی لیے اللہ تبارک و تعالی نے اپنے پسندیدہ دین میں ایک نظام قائم کیا، جس کو زکات کہتے ہیں۔ تاکہ اس کے ذریعے امیر لوگ غریبوں کی مدد کر سکیں۔ اورغریب لوگ اپنی بنیادی ضروریات زندگی کو آسانی سے پورا کر سکیں۔ جب انسان نے اس بات کو سوچنا شروع کیا، کہ کیوں نہ ہر انسان کا معیار زندگی بھی ایک ہی کر دیا جائے تاکہ زمانے سے غریبی کا خاتمہ کردیا جائے۔

تو روس میں ایک نظریہ سوشلزم کے نام سے سامنے آیا۔ کسی شخص کی ذاتی کمائی پرعوام کا مشترکہ حق ہو۔ اس سے معاشرے میں بہت بڑی خرابی یہ پھیلی کہ لوگوں کی اپنی کمائی سے ملکیت چھین لی گئی۔ جس نے انسان کے ترقی کے جوش و خروش کو ٹھنڈا کر دیا۔ اور لوگوں کے اندر سے خود اعتمادی ختم ہو گئی۔ اب انسان اپنی پیداوار کو بڑھانے کی نہیں سوچتا۔

اس لیے کہ وہ جو بھی کمائی کرے گا، اس پر پورے معاشرے کا حق ہوگا۔ جو اس کی ترقی کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے۔ اس لئے یہ نظام ناکام ہو کر ختم ہو گیا۔

اس کے بعد ایک نظام اور معرض وجود میں آیا۔ جس کو سرمایہ دارانہ نظام یعنی کیپیٹلزم کہتے ہے۔ اس نظام نےفرد کو پیداوار کے پورے حصے کا مالک بنا دیا۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کی تقریبا 77 فیصد کا مالک ایک فیصد امیر آدمی ہے۔ اس نظام سے بھی دنیا پریشان ہو چکی ہے۔

کہ ساری دنیا کے لوگوں کی کمائی صرف چند افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ اور وہ اپنی دولت کے اضافے میں برتر سے برتر ہوتے جارہے ہیں جبکہ غریب آدمی کا اس میں استحصال ہو رہا ہے۔ اور وہ دبتا چلا جا رہا ہے۔ معاشرہ اس غیر معتدل نظام سے تنگ آچکا ہے۔

اور اس کے خلاف دنیا بھر میں صدائے احتجاج بلند کی جارہی ہے۔ انہیں دونوں نظام کی مشقتوں سے لوگوں کو نکالنے کے لیے ایک ایسا آفاقی نظام آیا۔ جس میں ایسا درمیانہ نظام قائم کیا گیا۔ جس میں نہ تو کسی فرد کو پوری دولت کا حق دار بنا دیا گیا اور نہ ہی کسی انفرادی کمائی پر لوگوں کا مشترکہ حق رکھا، جسے زکاۃ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

زکاۃ عربی لفظ ہے جس کے معنی ستھرائی اور بڑھوتری کے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی نے بہت سے مقامات پر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔

شریعت اسلامیہ میں مال متعین کا اللہ کی رضا کے لیے کسی فقیر کو مالک کر دینا زکاۃ ہے۔ اس کی فرضیت نماز کی طرح ہے۔ اس کا منکر کافر۔ اور نہ دینے والا فاسق۔ اور تاخیر کرنے والا گناہ گار ہے۔

اس لیے مسلمانوں کو اس اہم فریضے کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اور ایسے مصیبت کے ماحول میں تو اور بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ اہل خیر حضرات اپنی مکمل زکوٰۃ سے مستحقین کی مدد کریں۔ اس سے بہتر یہ ہو سکتا ہے کہ کچھ پیشگی زکوٰۃ بھی نکالی جائیں اور ان سے لوگوں کی مدد کی جائے، تاکہ اس سے بھوکے پیاسے بچوں اور بوڑھوں کی مدد ہو سکے۔

مولیٰ تعالیٰ ہمیں عمل خیر کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

محمد جنید رضا

اسلامک اسکالر، بریلی

5 thoughts on “زکات میں حکمت خداوندی اور ہماری ذمے داریاں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *