اہل کتاب کے علما اور درویش لوگوں کے مال باطل طریقہ سے کھاتے ہیں

Spread the love

اہل کتاب کے علما اور درویش لوگوں کے مال باطل طریقہ سے کھاتے ہیں

مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی

اے ایمان والو!اہل کتاب کے علما اور درویش لوگوں کے مال باطل طریقہ سے کھاتے ہیں !سورۃ توبہ کی آیات ۳۴۔۳۵ جن کی ترجمانی اس طرح ہے ۔اے ایمان لانے والو، ان اہل کتاب کے اکثر علما اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ۔

دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ۔ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹوں کو کو داغا جائے گا ۔

یہ ہے وہ خزانہ تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا ، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو ۔مذکورہ دو آیات مبارکہ میں اللہ تبارک تعالیٰ نے اہل کتاب ( یہود و نصاری ) کے اکابرین کے کالے دھندوں کا حال بیان فرمایا پھر آگے ان لوگوں کو اس بات سے آگاہ کردیا کہ جو لوگ مال و دولت جمع کرتے ہیں مگر اللہ کی راہ میں (انفاق فی سبیل اللہ) نہیں نکالتے ان لوگو کو جان لینا چاہیے کہ دردناک سزا ان کے لیےتیار ہے ۔

پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی بات ختم فرمانے سے قبل یوم حشر (قیامت ) کی یاد دہانی فرماتے ہوئے یہ بات واضح کردی کہ باطل طریقہ سے کمایا ہوا مال اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے جی چراتے ہوئے جمع کی گئی دولت کس طرح ان مجرمین کو لے ڈوبے گی اس کا نقشہ یو کھینچا گیا کہ جو مال یہ کماتے ہیں یہی ان کیلئے تکلیف دینے کا سامان بن جائے گا ۔

’’یہود و نصاریٰ کی نا اہلی اور بداعمالیاں ‘‘اہل کتاب (یہود و نصاری ) کی نااہلی یہ تھی کہ اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ ان پر اپنے احکام و (مرضیات ) کی تعلیمات کوواضح فرما دیا ، مگر ان لوگوں کی اکثریت نے اس سے درس حاصل نہیں کیا ۔ اپنی زندگی کو اس کے مطابق نہیں بنایا بلکہ ان ناہنجاروں نے اپنے نبی سے طرح طرح کے مطالبہ کئے ،حیلے بہانوں سے کام لیا ۔

اللہ کی خاطر، ناصرِ دین رحمت بن جاؤ

اللہ کی کتاب کے عین مطابق دنیا کا نظام چلانے کے بجائے خود ساختہ طریقوں پر عمل کیا ۔ علاوہ ازیں ان کی نا شکری و ناقدری کا عالم یہ تھا کہ ’’اللہ نے انہیں مشکل سے نکال کر راحت بخشی اور کمزور سے طاقتور بنایا ، محکومی سے آزاد کر کے حاکم بنایا اور ملک کا اقتدار ان کے ہاتھو ںمیں دے دیا اور سب سے بڑی نعمت یہ عطا کی کہ آخرت بنانے اور ملک کا نظام چلانے اپنے رسولوں کے ذریعہ توراۃ و انجیل کو دستور حیات کی حیثیت سے ان تک پہنچا دیا ۔

مگر انہوں نے اللہ کی ان نعتوں کی قدر نہیں کی تو اللہ نے بھی ان کی نا اہلی کی بدولت دنیا کی امامت ان سے چھین لی ۔ ان کی بد اعمالیوں کا حال یہ تھا کہ اپنی شب و روز کی زندگی میں افراط و تفریط کا شکار ہوگئے مفاد و دنیا کی خاطر حق کو چھپائے رکھا

اللہ کی نازل کردہ کتابوں میں تحریف کی گئی ، من چاہے طریقہ سے حرام کو حلال کرلیا اور حلال کو زبردستی حرام قرار دے لیا حد تو یہ ہے کہ عوام کو غلط راہ پر لگا کر ان کا استحصال کیا اور اللہ کی آیات کو (قلیل زر کے عوض ) فروخت کردیا یہود نصاری کے اکابرین نے اس طرح کی اجارہ داری قائم کردی کہ اللہ نے جو کتاب ان پر اتاری تھی اس کی تعلیمات کو صرف اپنے حلقوں کی حد تک محدود کردیا۔

اس طرح یہ لوگ مغضوب و ظالمین ہوئے اور اپنے ہی ہاتھوں سے اللہ کے عذاب کو بلایا ۔ آخر کار دنیا میں یہ لوگ ذلیل خوار ہوئے اور آخرت کا دردناک عذاب بھی تیار ہے ۔ غرض اہل کتاب کی نافرمانیوں ، بداخلاقیوں اور شرارتوں سے قرآن حکیم بھرا پڑا ہے ۔لیکن مضمون کی مناسبت سے ہم نے یہاں پر اہل کتاب کی کارستانیوں کو مختصر طور پر تحریر کرنا مناسب سمجھا تا کہ قارئین کرام مضمون کی اصل روح تک پہنچ جائیں ۔

اکابرین اہل کتاب کے سیاہ دھندے فرمایا :اِنَّ کَثِیْرً امِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۔ ان اہل کتاب کے اکثر علما اور دروشیوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں ۔ اس طرح احبار سے مراد علما یہود ہیں ۔ کہ یہ غلط باتوں کو حسین لباس پہنا کر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں او راپنے مفاد کی خاطر لوگوں کی خواہش کے مطابق فتوی دیتے اور ’’رہبان ‘‘جمع ہے راھب کی ، جو ’’رہبر‘‘ سے مشتق ہے ۔

اس سے مراد علما نصاری ہیں ، جو جوگیوں و درویشوں کی شکل میں عوام کے سامنے آتے ہیں اور تارک دنیا ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں ۔ غرض کہ فرمایا جارہا ہے کہ اہل کتاب کے اکثر علماء و درویش لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں ۔

مفسرین کرام نے اس آیت مبارکہ کے تحت بڑے ہی دلنشین انداز میں اس کی تشریح و تفہیم فرمائی ہے ہم یہاں پر اختصار کے ساتھ نقل کرتے ہیں ۔ ۱۔
مولانا محمد نعیم الدین صاحب نے یوں لکھا ہے ۔‘‘ اس طرح کہ دین کے احکام بدل کر لوگوں سے رشوتیں لیتے ہیں اور اپنی کتابوں میں طمع زر کے لیے تحریف و تبدیل کرتے ہیں اور کتب سابقہ کی جن آیات میں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت و صفت مذکور ہے مال حاصل کرنے کے لیے ان میں فاسد تاویلیں اور تحریفیں کرتے ہیں ۔ (حوالہ کنزالیمان صفحہ نمبر ۶۷۸)۲۔

مولانا عبدالکریم صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اہل کتاب ہوکر عام انسانوں کو اللہ کا صاف صاف پیغام پہنچا کر انہیں جینے کا سلیقہ سکھانے اور آخرت میں اللہ کے سامنے حاضری کے و قت کام آنے و الے ایمان اور نیک عمل کی دعوت دینی چاہئے تھی، اس کے بجائے مذہب میں ڈھونگ اور رسومات کے ڈھیر لگادیئے، خود بھی لنگر لنگوٹ کس کر دنیا چھوڑنے کا ناٹک رچایا پھر بھی پیٹ نے کسی کو چھورا نہیں تو بغیر کمائے کیسے جی سکتے تھے اور ترک دنیا کے سبب معاش اور روزی کے وسیلے بھی چھوڑ چکے تھے ۔

اب تک ایک راستہ نیا نکالا کہ عوام سے ٹکے وصول کئے سرمایہ داروں کے ساتھ ساتھ کھانٹھ کرلی اور بھولے عوام کو اپنے پنجے میں کس لیا ، دین کو بیچا اور مذہبی گدیاں قائم کیں جو ایمان کے نیلام گھر ثابت ہوئے اور یہاں سے نجات کے پروانے جاری کرنے لگے ۔ یہ طبقہ پورے سماج کو مذہب سے بدظن کرتا رہا اور مذہب کا مبلغ اور محافظ بھی مشہور ہوا اور مذہب کے نام پر ڈاکہ گیری بھی کرتا رہا۔ (حوالہ تشریح القرآن حاشیہ نمبر ۳۴ صفحہ ۲۳۳)

’’علمایہود و نصاری کا ایک اور بڑا جرم ‘‘اس طرح ان مجرمین کے بد اعمالیوں کا تذکرہ فرمانے کے بعد ایک اور بڑے جرم کی طرف اللہ تعالیٰ نشاندہی فرما رہے ہیں ۔

وہ یہ کہ وَیَصُدُّنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ۔ یعنی مذہب اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں کہ اگر لوگ مذہب اسلام قبول کرلیں اور آپ ؐ کے دست حق پرست پر بعیت کرتے ہوئے اسلامی طرز زندگی اختیار کرنے لگیں تو ہماری اجارہ داری و لیڈری ختم ہوجائے گی ۔

لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی اور اسلام کے خلاف بڑے خوب صورت انداز میں زہر افشانی کی ۔

تارک دنیا کا ڈھونگ رچا کر عوام کو بے وقوف بنایا گیا ،غرضکہ ان پیٹ کے پجاریوں نے اپنے مفاد کی خاطر عوام کو راہ حق سے روک رکھا ۔

مولانا مودودی صاحب کی تحریر اس سلسلہ میں ملاحظہ فرمائے جسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے ۔’’یعنی ظالم صرف یہی ستم نہیں کرتے کہ فتوے بیجتے ہیں ،رشوتیں کھاتے ہیں ،نذرانے لوٹتے ہیں ، ایسے ایسے مذہبی ضابطے اور مراسم ایجاد کرتے ہیں جن سے لوگ اپنی نجات ان سے خریدیں اور ان کا مرنا جینا اور شادی و غم کچھ بھی ان کو کھلائے بغیر نہ ہوسکے اور وہ اپنی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا ٹھیکہ دار ان کو سمجھ لیں 

بلکہ مزید براں اپنی انہی اغراض کی خاطر یہ
حضرات خلق خدا کو گمراہیوں کے چکر میں پھنسائے رکھتے اور جب کبھی کوئی دعوت حق اصلاح کے لیے اٹھتی ہے تو سب سے پہلے یہی اپنی عالمانہ فریب کاریوں اور مکاریوں کے حربے لے لے کر اس کا راستہ روکنے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔(تفہیم القرآن جلد دوم صفحہ ۱۹۱ حاشہ ۳۳)

’’اکابرین کی بگاڑ کا ،عوام پر اثر ‘‘فرمایا :وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍدردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے ۔یہ حقیقت ہے کہ جب اکابرین قوم کی عملی زندگی میں بگاڑ آجاتا ہو تو اس کا اثر عوام پر لازمی طور پر پرتا ہے ۔

علمایہود و نصاری کا عوام کو اللہ کی راہ سے روکنے کا ایک خراب نتیجہ یہ بھی رہا ہے کہ عوام کے اندر جو سرمایہ دار لوگ تھے وہ خدا کی راہ میں اپنا مال (فی سبیل اللہ )خرچ کرنے کے بجائے صرف جمع بندی میں پڑچکے اور اپے انبیاء کی لائی ہوئی دعوت حق کی سربلندی کے لیےخرچ نہیں کیا۔

غرض کہ ایمان والوں سے مخاطب فرما کر یہود و نصاری کا تذکرہ کرنا اور ان کی بد اعمالیوں کی طرف نشاندہی فرمانا ،دراصل دعوی ایمان کرنے والے ان لوگوں کو متنبہ کرنا ہے جو اپنے ایمان میں ضعف و نفاق کی کیفیت رکھتے تھے یا پھر سستی و کاہلی کی بناء پر راہ خدا میں جان ومال کا زیاں برداشت کرنے سے جی چرا رہے تھے

لہذا اب اس طرح کے لوگوں کو سخت انتباہ دیا جارہا ہے کہ ’’خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں اور راہ خدا میں خرچ نہیں کرتےخوشخبری اس بات کی کہ یہی سونا اور چاندی ان کے حق میں درد اور تکلیف پہنچانے کا سامان بن جائے گا۔’’سونا اور چاندی ،سامانِ عذاب !‘‘یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وُجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ آگ سونے چاندی پر دہکائی جائے گی پھر ان کی پیشانی ، پہلو اور پیٹھوں پر داغ دیئے جائیں گے ۔مال دولت کمانا اور جمع کرنا منع نہیں ہے لیکن اس مال کو راہ خدا میں خرچ نہ کرتے ہوئے اس کا خزانہ بنانا اسلام کی نگاہ میں برا ہے اس طرح ان کے متعلق فرمایا گیا کہ اسی سونے و چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور پھر اسے ان لوگوں کی پیشانی اور پہلووں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا ۔

مولانا امین احسن اصلاحی ؒ نے پیشانی اور پہلو اور پیٹھ کے متعلق ایک اہم نکتہ یوں بیان کیا کہ یعنی راہ خدا سے بچا اور چرا کر جو دولت جمع کی جاتی ہے وہ قیامت کے دن پیشانی کا داغ اور پہلو اور پیٹھ کا زخم بنے گی ۔دولت جمع کرنے کی سرگردانی میں بڑا
دخل دو چیزوں کو ہوتا ہے ۔ایک اہم چشموں میں اپنا سر اونچا رکھنے کی خواہش ۔دوسری ،اپنے ذاتی آرام و راحت کی طلب ۔فرمایا کہ جولوگ دنیا میں سربلندی اور فخر کی خاطر دولت جمع کریں گے ، ان کی دولت بروز قیامت ان کی پیشانی پر داغ لگائے گی ۔

اسی طرح جو لوگ نرم ریشمی و مخملیں گدوں ،غالیچوں ،قالینوں اور صوفوں کے درپے ہوکر انفاق کی سعادت سے محروم رہیں گے ، ان کی یہ بچائی ہوئی دولت ان کے پہلوؤں اور ان کی پیٹھوں کو زخمی

کرے گی ۔(حوالہ تدبر قرآن جلد سوم صفحہ ۵۶۷ سورۃ توبہ )
حاصل کلام قارئین کرام !

مضمون کے لیےجو آیات کریمہ پیش کی گئیں اس کا حاصل مطالعہ یا حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان ( ہم مسلمانوں )کو یہود و نصاری کی بد اعمالیوں سے بچانے اور ان کے برے احوال سے باخبر کرنے کے لیے اپنے کلام قرآن مجید کو اپنے آخری نبی و رسول ﷺکے ذریعہ اپنی ہدایات پہنچا چکے کہ دیکھوں اے ایمان والوں ! تم ہر گز ہر گز ان قوموں کے نقش قدم پر نہ چلنا یعنی مفاد دنیا کی خاطر اپنے دین کو نہ بیچو اور نہ ہی باطل طریقہ سے لوگوں کا مال کھاؤ اور نہ ہی مال و دولت کو بیجا طریقہ سے جمع کرو اور یاد رکھنا ’’اے میرے پیارے بندو جو مال خدا کی راہ میں خرچ کئے بغیر جمع کیا جائے گا یہی تمہارے لیے عذاب جان بن جائے گا ۔

لہذا مال جمع کرو تو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا پورا پورا اہتمام ہونا چاہیے۔ ورنہ باطل طریقہ سے حاصل کی گئی دولت اور حقوق کی ادائیگی کے بغیر سمٹا ہوا مال کل روز آخرت تمہیں ڈبودے گا۔

مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی  ، حیدرآباد

فون نمبر 9849099228

One thought on “اہل کتاب کے علما اور درویش لوگوں کے مال باطل طریقہ سے کھاتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *