امتیاز احمد کریمی کو بی پی ایس کا چیئرمین بنانے پر قومی اساتذہ تنظیم کی مبارک باد
امتیاز احمد کریمی کو بی پی ایس کا چیئرمین بنانے پر قومی اساتذہ تنظیم کی مبارک باد
امتیاز احمد کریمی جس محکمہ میں بھی رہے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ خوب انصاف کیا ہے : محمد رفیع مظفر پور
فروری (وجاہت، بشارت رفیع)
جناب امتیاز احمد کریمی رکن بہار پبلک سروس کمیشن کو کمیشن کا نیا چیئرمین منتخب کیا گیا ہے، محکمہ جنرل ایڈمنسٹریشن حکومت بہار کے اعلامیہ کے مطابق سابق چیئرمین مورخہ 12 فروری 2024 کو اپنی مدت پوری کر چکے ہیں اس لیے جناب کریمی صاحب کو اپنی مدت پوری کرنے تک کمیشن کا چیئرمین منتخب کیا گیا ہے
جناب کریمی صاحب کا قومی اساتذہ تنظیم بہار کے ساتھ انتہائی مخلصانہ تعلق رہا ہے اس لیے قومی اساتذہ تنظیم کے تمام ذمہ داران اور اراکین نے کریمی صاحب کے چیئرمین بننے پر خوشی کا اظہار کیا ہے قومی اساتذہ تنظیم کے ریاستی کنوینر و آزاد صحافی جناب محمد رفیع نے اس موقع پر کہا کہ جناب امتیاز احمد کریمی اس سے پہلے بھی کئی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں
اور جس جس محکمہ میں انہوں نے خدمات انجام دی ہے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ خوب انصاف کیا ہے اور ان کی اب تک زندگی بے داغ رہی ہے، اردو ڈائریکٹوریٹ کا ڈائریکٹر رہتے ہوئے انہوں نے اردو زبان کے لیے نمایاں خدمات انجام دی ہیں تاہم جناب کریمی صاحب کی عظمت اور شہرت ان کے عہدے سے زیادہ ان کی شخصیت اور ان کی قابلیت کی وجہ سے ہے۔ وہ برابر قومی اساتذہ تنظیم کے پروگراموں میں شریک ہوتے رہے ہیں
اور قیمتی مشوروں سے نوازتے رہے ہیں اس لیے ہم ان کے چیئرمین بننے پر خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کو مبارکباد بھی پیش کرتے ہیں
جناب رفیع نے یہ بھی کہا کہ قومی اساتذہ تنظیم بہار کو ان کی سرپرستی و بالا دستی حاصل ہے۔ قومی اساتذہ تنظیم کے صوبائی صدر جناب تاج العارفین نے مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ جناب کریمی صاحب کا چیئرمین بننا بڑی خوشی کی بات ہے وہ ایک متحرک، قابل اور ایمان دارانہ شخصیت کے مالک ہیں گرچہ ان کی مدت مختصر ہے لیکن اس مختصر مدت میں بھی وہ اپنی صلاحیت کی بنیاد پر کمیشن کے لیے بہتر کام کریں گے۔
قومی اساتذہ تنظیم بہار کے سیکرٹری جناب تاج الدین نے اپنے مبارک بادی پیغام میں کہا ہے کہ جناب کریمی صاحب گوناگوں خصوصیات کے مالک ہیں اور جس محکمہ میں بھی رہتے ہیں اس میں وہ چار چاند لگا دیتے ہیں
انہوں نے اپنے دور میں اردو ڈائریکٹریٹ کو زندہ و تابندہ بنا دیا تھا ساتھ ہی وہ قوم کہ فلاح اور تعلیمی فروغ کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں، گزشتہ سال قومی اساتذہ تنظیم کے سیمینار کے دوران انہیں تعلیمی خدمات کے لیے مولانا ابوالکلام ازاد ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
جناب امتیاز احمد کریمی کو مبارک باد پیش کرنے والوں میں سرپرست قومی اساتذہ تنظیم بہار عبدالحسیب، ریاستی مجلس عاملہ کے رکن محمد رضوان، ندیم انور، رضی احمد، نسیم اختر، محمد امان اللہ، محمد جاوید عالم، وقار عالم، ناظر اسرار عارفی و محمد حماد وغیرہ۔
’’اردو زبان کی تدریس کو درپیش مسائل‘‘
یہ جملہ سنتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’اردو‘‘ ایک مسکین زبان ہے۔ جس کے نہ چاہنے والے ہیں اور نہ فروغ دینے والے۔ سوائے اِس کے کہ اپنی شہرت کی تمنا لیے اس کی آغوش میں جاتے ہیں اور شعر و شاعری اور نثر کے ذریعہ دنیا کو یہ دکھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ ’’اردو‘‘ اگر زندہ ہے تو اُن کی وجہ سے ورنہ یہ کب کی مر چکی ہوتی۔ حالاں کہ ہندوستان میں تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا کہ یہ زبان معدوم ہو جائے گی۔ بولنے اور سننے کے ساتھ ہی لکھنے پڑھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے ، رہے گا اور فروغ بھی پائے گا۔
گزشتہ دنوں اِسی عنوان کے تحت ایک گفتگو کا پروگرام منعقد کیا گیا جس میں دہلی کے مختلف اداروں میں تعلیمی اور تدریسی خدمات انجام دے رہے اعلیٰ درجہ کے اساتذہ کرام نے اپنا تجرباتی تجزیہ پیش کیا۔ اگر اُن کی گفتگو کے مدعے کی بنیاد پر تجزیہ پیش کیا جائے تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔لہٰذا مختصراً عرض ہے
مسائل کے تعلق سے اکثر وہی پرانی باتیں بیان کی گئیں، جسے میں گزشتہ پینتیس برسوں سے سن رہا ہوں۔ اردو زبان کا رونا رویا گیا۔ لیکن دوسری طرف ایک اہم سوال یہ ہے کہ جتنے بھی اردو زبان کے فروغ کے ادارے ہیں، کیا وہ حقیقت میں زبان کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں؟ حکومت ہند کے تحت زبان کو فروغ دینے کا ادارہ قائم ہے، وہ بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے کتابیں شائع کرنے اور فروخت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اور اب تو مشاعرے بھی منعقد کرنے لگا ہے۔ کئی دہائیوں سے زبان کے موضوع پر کوئی کام نہیں ہوا۔ ہر جگہ صرف ادب اور شاعری کی بات کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر شعیب رضاخان ڈائرکٹر این آئی او ایس نے اردو میں کتابوں کی دستیابی اور اردو اخبارات کے بارے میں اظہارِ خیال کیا۔ اور اردو اخبار خریدنے کے تعلق سے بیگم کے سوال کے جواب میں اظہار کیا کہ ’’اردو ہماری زبان ہے۔ اگر ہم اردو اخبار نہیں خریدیں گے تو کون خریدے گا؟‘‘
پروفیسر محمد کاظم نےجہاں اردو کے اشاعتی اداروں اور سہولیات کے بارے میں گفتگو کی وہیں دوسری طرف یہ بھی کہا کہ جب گوگل اور دوسرے ایپلی کیشنز میںsuggestionکی سہولت موجود ہے تو ’’اِن پیج‘‘ میں کیوں نہیں؟ گفتگو مکمل ہونے کے بعد سوال کے سیشن میں راقم نے بتایا کہ ’’ان پیج‘‘ کے موجودہ ورزن میں یہ سہولت موجود ہے۔ لوگ نہ تو اَپ ڈیٹ کرتے ہیں اور نہ ہی رجسٹرڈ ایپلی کیشن استعمال کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آپ تک یہ اہم معلومات نہیں پہنچ پائی۔ آج ہمارے ہاتھ میں دس ہزار سے پچاس ہزار روپے تک کا موبائیل ہینڈ سیٹ موجود ہے۔ روزانہ چھ سے دس روپے انٹرنیٹ کے لیے بھی خرچ کرتے ہیں، لیکن کیا ’’ان پیج‘‘ استعمال کرنے کے لیے پانچ روپے روز کا خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اس کا جواب یا تو خاموشی ہے یا یہ کہ ہم کیوں خرچ کریں؟ جب کہ ہمیں آسانی سے کاپی شدہ مل جاتا ہے۔ افسوس کا پہلو یہ ہے کہ نئی تکنیک کی جب بات آتی ہے تو (AI)اے آئی ٹیکنالوجی اور چیٹ جی پی ٹی کو بطورِ تبرک پیش کردیا جاتا ہے۔ لیکن ابھی تک اس کی وضاحت کسی مجلس میں سننے کو نہیں ملی۔ ٹھیک اُسی طرح اردو اخبارات کے سلسلے میں کہ ’’اردو ہماری زبان ہے۔ اگر ہم اردو اخبار نہیں خریدیں گے تو کون خریدے گا؟‘‘
تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا اردو اخبارات کا معیار اَب اس قابل ہے کہ ہم اسے اپنی میز پر سجائیں؟ کیا ہمارے بچے اُردو پڑھتے ہیں اور دلچسپی ہے؟ اس کا جواب مایوس کن ہے۔ تجربہ اور تجزیہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اردوزبان و ادب بولنے اور سننے میں تو رائج ہے لیکن لکھنے اور پڑھنے کا رواج کم ہوتاجا رہا ہے۔ اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کتابیں اغلاط سے پُر ہونے کے ساتھ ہی اس کی تحریر اور طرزِ تحریر میں معیار کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔ ثبوت کے لیے این سی ای آر ٹی کی ’’اپنی زبان‘‘ درجہ ہشتم، شوکت تھانوی کی نظم ’’خوابِ آزادی ‘‘ میں صفحہ ۸۷ پر ’’فرزند‘‘ کے معنی ’’سزا کے لایق ‘‘ لکھا گیا ہے۔ اور افسوس تو یہ کہ ٹیچر نے پڑھایا بھی یہی۔ کیوں کہ طالب علم بھی یہی ترجمہ میرے سامنے کر رہا ہے۔ بہر حال، اِس غلطی کی اطلاع این سی ای آر ٹی تک پہنچا دی۔ اب وہ اگلی اشاعت میں ہی درست ہو سکے گی۔ لیکن ٹیچر کیوں وہی پڑھا رہا ہے، جو اُس میں لکھا ہے۔؟ اُس کی اپنی بھی تو کوئی لیاقت ہوگی ہی!!! اخبارات، رسائل اور کتابیں، کس عمر اور لیاقت کے قاری کے لیے تیار کیا جا رہا ہے؛ قطعی خیال نہیں رکھا جاتا۔ بچوں کے قاعدے تک کو مختلف پبلشروں نے مختلف طریقے سے شائع کیا ہے تو اسے پڑھنے والے بچوں کی استعداد لکھنے اور پڑھنے میں بھی اُسی طرح غیر معیاری ہوگا۔ اور اُن کے پاس دلیل ہوگی کہ کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے۔ میرے پاس غیرمعیاری بچوں کی کتابوں کے سلسلے میں کئی ثبوت موجود ہیں۔ ویسے بہتر کرنے کے لیے ابھی بھی وقت ہے، چند خطاط باقی ہیں، اور کمپیوٹر خطاطی جاننے والے بھی موجود ہیں، اُن سے مدد لے کر کتابوں کی تیاری کے طور طریقے کو سیکھا اور سکھایا جا سکتا ہے۔ ملک کے ہر صوبے میں کوئی نہ کوئی ادارہ اور ماہرینِ فن موجود ہیں۔ ہاں دقت یہ ہے کہ آپ اُن سے جو کام لیں گے، اُس کا معقول معاوضہ دینے میں آپ کو تکلیف ہوگی۔ اور سرکاری ادارے میں تو یہ کئی کئی برس لگ جاتے ہیں اور مختلف پیرامیٹر سے گزر کر یہ کام ہوتا ہے۔ اس لیے ان دو کمیوں کو پہلے دور کرنا پڑے گا۔ ایک ہی کام کے لیے ایک ہی ادارہ میں زبان کے کام کے تعلق مختلف پیرامیٹر ہے۔ آخر یہ اتنا بڑا فرق کیوں؟ اِسی لیے میں نے ابتدا اردو کو مسکین زبان کہا ہے۔
اگر اشاعتی اداروں نے اِس پر فی الفور توجہ نہ کی تو پھر تکنیک کے میدان میں AI اور ChatGPT کا حوالہ دے کر مجلسیں لوٹتے رہیے اور اردو زبان کا دُکھ مناتے رہیے۔ اردو صحافت کے میدان کے لیے بس ایک بنگلور کا نشیمن یاد ہے، اسی کے حوالے سے بازی جیت لیجیے اور خوش رہیے۔ اخبارات کے معیار میں اگر بہتری نہیں آئی تو دن بدن اس کے قاری کم ہوتے رہیں گے۔ ابھی گزشتہ دنوں کی بات ہے۔ ایک مضمون ’’طب یونانی ➖کیوں مقبول نہیں؟‘‘ دہلی کے ایک مؤقر اخبار کو بھیجا۔ انہوں نے صفحہ بھرنے کے لیے شامل کر لیا اور آخر کے تقریباً چھ سو الفاظ چھوڑ دیئے۔ جس کی وجہ سے مضمون کی معنویت جاتی رہی۔ ان سب کے علاوہ بھی کئی قسم کی عمومی غلطیاں اخبارات و رسائل اور کتابوں میں ہو رہی ہیں، جس پر توجہ نہیں دیا جا رہا ہے۔ آنے والے وقت میں اردو زبان کے تعلق سے کیا حالات ہو سکتے ہیںیہ تو زبان و تدریس کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں۔ لیکن حالات تو خراب ہو رہے ہیں اور اُس کے ذمہ دار ہر حال میں اُردو والے ہی ہیں، نہ کہ حکومت۔
آج اگر میں یہ مضمون لکھوں؟ کہ ’’اردو زبان لکھنے پڑھنے میں کیوں مقبول نہیں‘‘ تو بہتوں کو یہ سرخی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اور جو اسباب میں بیان کروں اور یاد دہانی کراؤں تو اُس جانب توجہ دینے کو کوئی بھی ادارہ تیار نہیں۔ کیوں کہ انفرادی طور پر بھی کئی اداروں کو میں لکھ چکا ہوں۔اور جب بات کرنے کی کوشش کی تو سب کے تقریباً ایک سا جواب رہا۔ میرا سوال یہ ہے کہ اردو کا قاعدہ انجمن حمایت اسلام لاہور کا عکسی ایڈیشن آپ برسوں سے شائع کر رہے ہیں۔ کاپی رائٹ ہمارے یہاں کوئی معیار نہیں ہے۔ توپھر اب اس کو ری کمپوز کراکے کیوں شائع کر رہے ہیں؟ کمپیوٹر سے بچوں کی کتابیں ری کمپوز کرنے پر جو حرکات و سکنات خوشنویسی میں استعمال کیے گئے تھے وہ نہیں آ پاتے۔ لہٰذا ایسی کتابیں بچوں کو پڑھنے میں دقت ہوتی ہے۔ اور ہر صوبہ میں تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کئی کئی قاعدہ شائع کیے جا رہے ہیں۔ جب کہ حرکات استعمال کرنے کے جو طریقے اِن پیج والوں نے بتائے ہیں، اُس پر عمل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی کمپوزر اور پبلشر اِس قابل ہو سکے ہیں کہ اُسی طرح کتاب کی تیاری کرا سکیں جس طرح پہلے شائع ہو چکا ہے۔ تبدیلی کا مطلب بہتری کے ہوتا ہے نا کہ بدتری۔ اسی طرح تنقید کے مطلب بہتری کی نمائندگی کرنا ہوتا ہے نا کہ کسی کی تنقیص کرنا۔
ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کس اخبار کے کتنے ایڈیشن کیسے کیسے شائع ہوتے ہیں اور کتنی تعداد میں لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ کس کس اداروں کی کتابیں کیسے شائع ہوتی ہیں، کتنا عرصہ صرف کیا جاتا ہے؟ کس قابل لوگ کام کرتے ہیں، اور بازار میں کتاب کے آنے تک اُن کی معنویت ختم ہو جاتی ہے۔ اشاعت اور دلچسپی میں کمی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔ اگر یہ سب کام وقت پر اور معیاری افراد کے ذریعہ کرایا جائے تو کوئی بعید نہیں کہ ہمارا تدریسی نظام و عمل اور معاشرہ بہتر نہ ہو سکے۔
فیروزہاشمی، ۳۰؍دسمبر۲۰۲۴ء
9811742537