سائبر حملے
سائبر حملے
از : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
انٹرنیٹ کی سہولت ، ڈیجیٹل انڈیا بنانے کی مہم، کیش لیس کا روبار، مختلف ایپ کے ذریعہ رقم کی لین، دین، رقم منتقل کرنے کی آن لائن سہولتوں نے جرائم کی دنیا میں ایک اور جرم کا اضافہ کر دیا ہے، یہ جرم ہے سائبرحملہ ، اعداد وشمار کی چوری، بینکوں سے اے ٹی ایم کے ذریعہ لوٹ، فون، موبائل، وغیرہ کا ہیک کر لینا ، شاخ در شاخ سائبر حملے کی ہی مختلف قسمیں ہیں، ان حملہ آوروں او رہیکر کا اپنی مہم میں کامیاب ہوتے رہنا بتاتا ہے کہ سائبر تحفظ کے معاملہ میں ہم کافی پیچھے ہیں ۔
اور ہمارے نجی راز کی پرائیویسی معرض خطر میں ہے، سوشل سائٹس سے متعلق ایجنسیاں ، کمپنیاں اور ایپس چاہے ہمارے راز کی حفاظت کی جس قدر یقین دہانی کرائیں ،سچائی یہی ہے کہ ہم محفوظ نہیں ہیں۔ جن شعبوں پر سائبرحملہ آوروں کی سب سے زیادہ نظر ہے
ان میں بینکنگ، مالیاتی نظام اور بیمہ(BFSI)سر فہرست ہیں، سرکار نے پارلیامنٹ میں اس حوالہ سے جو تفصیل بیان کی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہیں، ان تفصیلات سے سائبر حملوں کے رفتار پکڑنے کی تصدیق ہوتی ہے، اطلاع کے مطابق جون 2018ءسے مارچ 2022ءتک ہندوستانی بینکوں پر مجرمین کے ذریعہ دو سو اڑتالیس (248)سائبر حملے ہوئے، اعداد وشمار کی چوری کے یہ واقعات اکتالیس (41)عوامی دوسو پانچ(205) نجی اور دو(2) واقعات غیر ملکی بینکوں کے ذریعہ درج کرائے گیے
چند ماہ قبل اتر پردیش سائبر پولیس نے لکھنؤ کے عوامی کوپریٹو بینک کے کھاتے سے ایک سو پینتالیس(145)کروڑ رقومات کی غیر قانونی طور پر نکالے جانے کا پردہ فاش کیا تھا، اس معاملہ میں کئی تکنیکی ماہرین اور سابق بینک کارکن کی گرفتاری بھی عمل میں آئی تھی
ڈرینک کے نام سے اینڈ رائیڈ میل ویر نے تو حد کر دی کہ محکمہ ٹیکس کا نام لے لے کر اس نے اٹھارہ بینکوں کو نشانہ بنایا۔ اسی طرح ڈارک ویب پر بی ڈین کیش کے نام سے غیر قانونی ویب سائٹ کا پتہ اس وقت چلا جب ہیکرس نے نوے لاکھ سے زائد افراد کے کریڈٹ کارڈ کی تقسیم، مفت میں اپ لوڈ کر دیا تھا
سنگا پور کی سائبر تحفظ فورم جو کلاوڈسیک کے نام سے کام کرتی ہے، اس نے گذشتہ سال جاری قرطاس ابیض (حقائق پر مبنی رپورٹ) میں کہا ہے کہ امسال جتنے سائبر حملے پوری دنیا پر ہوئے ان میں 7.4فی صد ہندوستان پر کیے گیے، قومی بینکوں، کرپٹو اکسچینج ، والٹس ، این بی ایف سی (NBFC) کی معلومات کا افشا، کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ غیر قانونی طور پر رقوم کی نکاسی سب ہندوستان میں سائبر جرائم ہی کا حصہ ہیں۔
سائبر مجرمین کے لیے آسان نشانہ درمیانی اور نچلے درجے کے کاروباری ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے یہاں سائبر حملوں سے تحفظ کا اچھا انتظام نہیں ہوتا، با خبر ذرائع کے مطابق تینتالیس(43) فی صد سائبر حملے 2022ءمیں چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں پر کیے گیے، اپریل سے ستمبر 2022ءکے نصف تک 2.7لاکھ سائبر کرائم مختلف شعبہ حیات سے متعلق محکموں میں ہوئے، ان میں پٹرولیم بھی شامل ہے، یہ اطلاع 2022ءمیں سائبر ایپس کے ذریعہ شائع ایک رپورٹ میں دی گئی ہے، مجموعی طور پر گذشتہ سال ایک کروڑ اسی لاکھ (اٹھارہ ملین) سائبر حملے اور دو لاکھ سائبر سیکوریٹی تھریٹ کے واقعات ہندوستان میں ہوئے۔
ہندوستان میں سائبر حملوں سے محکمہ صحت بھی محفوظ نہیں رہ سکا، اس پر گذشتہ سال انیس لاکھ سائبر حملے ہوئے ۔ 23 نومبر 2022ءکو حملہ آوروں نے ملک کے مشہور اسپتال ایمس دہلی پر حملہ کر دیا اور اس کے سارے ڈیٹا کو ہیک کر لیا جس کے نتیجہ میں اسپتال کے سارے سرور نے کام کرنا بند کر دیا، مریضوں کی پریشانی دور کرنے کے لیے کئی روز تک کمپیوٹر کے بجائے سارے کام ہاتھ سے کرنے پڑے، اس کے با وجود جو اعداد وشمار اور ڈیٹا چوری ہوگیے، اس کی تلافی مشکل قرار پائی، یہ اسپتال ڈیجیٹل کام کرتے ہیں، حملہ آوروں نے اس کی اس صلاحیت پر ہی حملہ بول دیا۔
آئندہ اس قسم کے حملے کثرت سے ہوں گے۔ 5Gکے استعمال سے ان واقعات میں اور اضافہ ہوگا، ایک اندازہ کے مطابق 2025ءتک ہندوستان میں اٹھاسی ملین لوگ 5Gاستعمال کر رہے ہوں گے۔
لیکن صرف پندرہ ، سولہ فی صد ہی ایسے ادارے ہوں گے جو ان کو محفوظ رکھنے کی تکنیک سے واقف ہوں گے، ایسے میں سائبر کے تحفظ کے لیے مناسب اقدام کے ساتھ سائبر جرام کرنے والوں کے لیے مضبوط قانون سازی کی بھی ضرورت ہے، حکومت ہندکو ان حملوں سے بچنے کی ضرورت واہمیت پرکے مدنظر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
از : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف