مسلکی تعصب سے باہر نکلو
مسلکی تعصب سے باہر نکلو
تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی)
اسماعیل ہانیہ کی شہادت ( 31/ جولائی 2024 ) کے بعد عالم اسلام میں ایران کے اوپر جان بوجھ کر شدید تشویش اور شکوک و شبہات پیدا کیے گیے اور ہند و پاک کے مسلک پرست ایک طبقے نے سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کر دیا شکوک و شبہات کے اس طوفان میں بڑے بڑے علماےکرام بھی مبتلا ہو گئے ۔
اور انہوں نے ایران کے اوپر اخلاقی و تکنکی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے کہا کہ ایران اسرائیل پر عبرتناک کاروائی کرے تب ہی مانا جائے گا کہ ایران اس حملے میں ملوث نہیں ہے یہ انتہائی عجیب و غریب مطالبہ بتلاتا ہے کہ ہمارے بڑے بڑے علمائے کرام یا تو عالمی سیاسی پیچیدگیوں کو نہیں جانتے یا پھر وہ جان بوجھ کر اپنی مسلکی بھڑاس نکال رہے ہیں ۔
میں حکومت ایران کو کلین چٹ نہیں دے رہا ہوں مگر حکومت ایران پر مسلکی غداری کا اور یزیدیت کا الزام بھی نہیں لگاتا ہوں ، پاکستان سمیت جس طرح پوری سنی دنیا امریکی ایجنٹوں اور غداروں سے بھری ہوئی ہے بالکل اسی طرح ایران کے اندر بھی ایجنٹ ہیں جن کمبختوں نے اسماعیل ہانیہ کو شہید کیا اور ظالم اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کار بن گئے ۔
میں بڑے بڑے علماے کرام سمیت پورے عالم اسلام کے سامنے چند سوال رکھنا چاہتا ہوں ، ان کے اوپر غور کریں اور پھر ایران سے ”عبرتناک کاروائی“ کا مطالبہ کریں ، یہ ہی سوالات نوجوان مفکر عمار خان نے بھی اپنے پروگرام میں اٹھائیں ہیں جوکہ یوٹیوب پر موجود ہے ۔
سوال نمبر ایک: یہ ایک حقیقت ہے کہ ”مملکت ایران“ پاکستان اور ترکی سے زیادہ طاقت ور نہیں ہے تو ”عبرتناک کاروائی“ کا مطالبہ پاکستان اور ترکی سے کیوں نہیں کرتے ہو ؟
سوال نمبر دو : اسمعیل ہانیہ شہید کے حوالے سے ایران پر شکوک وشبہات پیدا کرنے والی پوری سنی دنیا اور اس کے بڑے بڑے علماےکرام اس وقت کہاں تھے جب امریکانے افغانستان پر حملہ کیا اور ایک جائز حکومت کو گرا دیا ، یہ بڑے بڑے علماے کرام اس وقت کہاں تھے جب جنرل پرویز مشرف نے مسلمان مرد و خواتین کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا تھا یہ علماے کرام اس وقت کہاں تھے جب پاکستان افغانستان پر حملہ کرنے کے معاملے میں امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی بنا ہوا تھا ؟
پروپیگنڈہ کیا ہوتا ہے
اسمعیل ہانیہ شہید کے معاملے میں سب سے زیادہ طوفان بدتمیزی پاکستان سے ہی اٹھا ہے ، امریکا کے افغانستان پر حملہ کرنے کے وقت اور پاکستان کے امریکہ کو اڈے دینے کے وقت کیوں سڑکوں پر نکل کر حکومت کو مجبور نہیں کیا ؟
کیوں فوجی غنڈوں کے پنجوں کو مروڑ کر بیرکوں میں نہیں دھکیلا ؟ جبکہ دونوں ہی ملکوں میں سنی اکثریت ہے ۔
سوال نمبر تین : اسماعیل ہانیہ شھید اور غزہ کے معاملے میں سعودی عرب مصر بحرین اردن متحدہ عرب امارات مکمل طور پر گونگے شیطان
بنے ہوئے ہیں یہ تمام سنی اکثریت والے ممالک ہیں ، ہمارے محترم علماء کرام اور دانشوران ان کے خلاف ایک لفظ کیوں نہیں بولتے ؟
عرب ممالک کے جابر اور بے غیرت حکمرانوں کے خلاف نفیر عام کا اور خروج کا فتویٰ کیوں نہیں دیتے ؟ مذکورہ ممالک کے بادشاہوں اور علماء سوء کی سنیت پر شکوک و شبہات کے طوفان کیوں نہیں اٹھاتے ؟
سوال نمبر چار: ہمارے محترم علماء کرام اس صورتِ حال پر غور و خوض کیوں نہیں کرتے کہ حماس کی قیادت بلآخر کیوں مجبور ہوتی ہے کہ وہ ایران کے شیعوں کے سامنے کاسہ لیسی کرے ؟
جوکہ سنیوں کے خیال میں غدار ہیں یزیدی ہیں الکوفی لا یوفی ( اہل کوفہ وفادار نہیں ہوتے ) والے کردار کے حامل ہیں ۔ جبکہ دولت میں اور تعداد میں أہل السنۃ والجماعۃ زیادہ ہیں ؟
صرف اسی لیے نا کہ افغانستان کے علاوہ پوری سنی دنیا کے حکمران امریکہ کے تلوے چاٹتے ہیں ان حکمرانوں میں اسلام سے اور امت مسلمہ سے کوئی ہمدردی نہیں اور امریکہ کے ایک اشارۂ چشم ابرو پر ان کی حکومتوں کے تختے الٹ سکتے ہیں ، تو اصل امریکی اسرائیلی ایجنٹ تو سنی حکمراں ہیں ناکہ ایرانی حکمران ۔
سوال نمبر پانچ : پاکستان سمیت پوری سنی دنیا نے حماس کی کوئی فوجی یا ہتھیاروں سے مدد نہیں کی جبکہ ایرانی حکومت اپنے ناتواں کاندھوں اور بے پناہ اندرونی و بیرونی تھریٹ کے باوجود اسرائیل کا محاصرہ کیے ہوئے ہے تو شکوک و شبہات اور غداری کے تیر سنی حکومتوں کے خلاف کیوں نہیں چلائے جاتے ؟
سوال نمبر چھے : افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکا کی طرف سے جان بوجھ کر پاکستان کو طالبان سے ٹکرانے کی کوشش کی گئی اور پاکستان نے ایک جائز حکومت کی جائز حدود میں گھس کر حملے کیے ، وہ تو طالبان ہی تھے جنہوں نے اخوۃ اسلامی کا ثبوت دیا اور بار بار کی اشتعال انگیزی کے باوجود صبر و تحمل کا ثبوت دیا ، تب پاکستان کے یہ مسلک پرست علماے کرام کہاں تھے ؟ اور کیوں اپنی ایجنٹ حکومت کے ”حرام تجاوز“ کے خلاف فتویٰ نہیں دیا ؟
ناظرین کرام! حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں نظریاتی یکجھتی نام کی کوئی چیز نہیں ہے ٹھوس اسلامی اصولوں سے وفاداری نہیں ، ہمارے دانشوران و علماء کرام نے امت مسلمہ کو ایک نظریاتی قوم بنانے کے لیے کوششیں بھی نہیں کی ، مزید یہ کہ مسالک اور فرقوں کے نام پر امت مسلمہ کی ایسی فرقہ بندی کردی گئی جس کے نتیجے میں امت مسلمہ کی تمام تر وفاداریاں اپنی اپنی ٹولیوں کے لیے خاص ہوگئی ۔
شیعہ اکثریتی علاقوں میں سنیوں کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ، سنی ممالک میں شیعوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جاتا ہے ، پھر أہل الحدیث ( غیر مقلدین ) حضرات اخوان المسلمین سمیت ان تمام طاقتوں کو جو سعودی حکومت کے خلاف ہیں فتنہ پرور اور دہشت گرد کہتے ہیں ، غور کرنے کا مقام ہے کہ پاکستان اسلامی نظام کے قیام سے چند قدم ہی دور ہے کیوں کہ وہاں سیکولر لبرل مافیا نظریاتی سطح پر دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے
مگر اسلامی نظریات سے وفاداری کے فقدان کی وجہ سے پریشانی یہ ہے کہ پاکستان کے علماے کرام مسلکی جہاد کے میدان میں مصروف عمل رہتے ہیں اور اسلامی نظام کو قائم کرنے کے لیے سنجیدہ طور پر ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے بلکہ سیکولر لبرل حضرات کے ساتھ ملکر حکومتیں بناتے ہیں اور پھر یہ غمگین لطیفہ سناتے ہیں کہ اسلامی نظام کا قیام ہمارے اکابر کے منشور میں نہیں ہے ، یہ تمام خرابیاں نظریاتی اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے ہے
تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی)
مقصود منزل پیراگپور سہارن پور واٹسپ نمبر 8860931450
Pingback: میں منتر پڑھوں گا تو بل میں ہاتھ دے ⋆ تحریر : توصیف القاسمی