انسان کے اندر اللہ کا ڈر، آخرت کی فکر و گناہوں سے بچنے والا ہو جائے

Spread the love

انسان کے اندر اللہ کا ڈر، آخرت کی فکر و گناہوں سے بچنے والا ہو جائے : مقیم احمد ندوی

رمضان میں قرآن نازل ہوا، ہر شخص سمجھ کر پڑھنے لگے تو ہمارا معاشرہ مثالی بن جائے : نور اللہ خان

رمضان آتا اور چلا جاتا ہے، کوئی بڑا انقلاب رونما نہیں ہوتا، بڑا طبقہ روزہ کے مقاصد سے ناواقف ہے : افتخار احمد

بدلہ لے کر مخلوق کے جذبۂ انا کو سکون ملتا ہے، خطاکاروں کو معاف کرنا اللہ کی خوشی : محمد رفیع

مظفر پور، (وجاہت، بشارت رفیع)

رمضان المبارک کے مبارک موقع پر ڈاکٹر منصور معصوم کے غریب خانہ حسین منزل، بخشی کالونی ماڑی پور میں ایک دینی درس منعقد ہوا، جس میں ضلع کے مشہور معروف اسلامی اسکالرز نے شرکت کی۔ جناب مقیم احمد ندوی نے درس قرآن پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی تاریخ میں روزہ کی روایت حضرت آدم علیھ السلام کے وقت سے ہی چلی ارہی ہے۔

جنت سے اس کرہ ارض پر آنے کے ساتھ ہی ہر مہینہ کے تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں کا روزہ رکھتے تھے جس کو ایام بیض کہا جاتا ہے اور اس روزہ کو صیام توبہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلّی اللہ و علیہ و سلم تک روزہ کا مقصد صرف تقوی ہی تھا۔

شریعت اسلامیہ میں تقوی کے تین درجات ہیں، پہلا انسان کے اندر اللہ کا ڈر پیدا ہو جائے، دوسرا آخرت کی فکر ہو جائے اور تیسرا انسان گناہوں سے بچنے والا بن جائے۔ جماعت اسلامی کے ترہت زون کے انچارج جناب نوراللہ خان نے درس حدیث پیش کرتے ہوئے کہا کہ رمضان کو قرآن کا مہینہ کہا جاتا ہے۔ اسی مہینے میں قرآن پاک نازل کیا گیا۔ جس قرآن نے عرب کے سرزمین پر وہاں کے معاشرے میں انقلابی تبدیلی لا دی، قرآن کے نزول سے پہلے عرب کے خطے میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔

شراب نوشی کا چلن عام تھا، زناکاری عام تھی۔ سود کا کاروبار پھل پھول رہا تھا اور شرک جیسے گناہ کبیرہ میں ملوث تھے۔ قرآن کے پیغام نے سبھی طرح کی برائیوں کا قلعہ قمع کیا اور ایک صالح معاشرے کا قیام عمل میں لایا۔ لیکن آج قرآن ہمارے حلق سے نیچے نہیں اتر رہا ہے۔ کیونکہ ہم قرآن کو سمجھ کر نہیں پڑھتے ہیں۔ اگر ہر شخص قرآن کو سمجھ کر پڑھنے لگے تو ہمارا معاشرہ بھی ایک مثالی معاشرہ بن جائے گا، ان شاء اللہ۔

جناب افتخار احمد نے اپنے کلیدی خطاب میں قوم کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔ کہ رمضان آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ لیکن ہماری زندگی میں کوئی بڑا انقلاب رونما نہیں ہوتا کیونکہ امت کا ایک بڑا طبقہ روزے کے مقاصد سے واقف ہی نہیں ہے۔ بس ایک رسم ہے جو صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ جب کوئی عبادت رسم بن جائے تو وہ اپنے ثمرات کھو دیتی ہے ۔ کسی برتن میں کوئی چیز ڈالنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کو اچھی طرح صاف کرلیا جائے اور اس میں کوئی گندگی باقی نہ رہے۔

انسان کا دل بھی ایک برتن ہے جس کی اصلاح سے انسان کا پورا وجود صالحیت کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے اور جس کے بگاڑ سے اس کا پورا وجود بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس لئے ہم لوگوں کو رمضان کے مہینے میں ایسا تربیت یافتہ ہو جانا ہے کہ غیر رمضان میں بھی رمضان جیسا تقوی پیدا ہو جائے۔

قومی اساتذہ تنظیم بہار کے ریاستی کنوینر و آزاد صحافی محمد رفیع نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ دینی مجلس کا مقصد اللہ سے تعلق کو مضبوط کرنا، پیارے نبی کی محبت کا اظہار کرنا اور صحابہ جیسے جذبات پیدا کرنا۔ اس کے لیے اللہ کی بڑائی کو دل میں بٹھانا اور اس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا۔ انہوں نے سورہ صف کی ایک آیت پڑھ کر بتایا کہ زمین و آسمان میں جو بھی ہیں سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ بابرکت ہے و ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ زندگی موت کو اس لئے بنایا کہ یہ پتا چل سکے کون اچھے عمل کرتا ہے۔

اپنی قوتِ تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے سات آسمان تلے اوپر بنایا اور اس کاریگری سے بنایا کہ اس میں کوئی نقص نظر نہیں آتا، اگر آپ کی نظر نقص ڈھونڈنا چاہے تو نگاہے تھک جائیں گی اور نقص نہ ملے گا۔

جناب رفیع نے مزید کہا کہ غلطی کا ہونا بشری تقاضا ہے لیکن بہترین خطاکار وہ ہیں جو گناہ سرزد ہونے کے بعد بارگاہ الٰہی میں توبہ کر لے۔ مخلوق کا مزاج یہ بے کہ اسے بدلہ لے کر خوشی ہوتی ہے جس سے اس کے جذبۂ انا کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اللہ پاک کی ذات رحمان و رحیم ہے اسی لیے اسے خطاکاروں کو معاف کر کے خوشی حاصل ہوتی ہے۔

درس کا باضابطہ شروعات حافظ عبدالرحمن کے تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ جبکہ محمد فوزان نے حمد پاک محمد زید نے نعت پاک اور ادیب معصوم نے ایک نظم پیش کیا اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر منصور معصوم نے ادا کئے۔ درس میں شرکت کرنے والوں میں بالخصوص صدر قومی اساتذہ تنظیم بوچہاں محمد زاہد انور، محمد کلیم، محمد شاہد، محمد محفوظ، محمد جاوید، اطہر علی، محمد عاقب، محمد عاطف، عبدالقیوم، محمد فیاض، محمد عاقب، عبدالاحد، محمد علی، اسد علی، محمد اشفاق، محمد سیف، محمد فیضل، محمد ایان وغیرہ موجود تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *