والدین ہماری جنت ہیں
بے پناہ شکرو احسان ہے اس رب العزت کاجس نے انسان کو اپنی ان گنت نعمتوں سے نوازا حمد وثنااس اس خالق کائنات کی جس نے جمیع مخلوقات میں انسان کو برتر و بالا اورافضل واعلی بنایا
باری تعالیٰ لامحدود نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت والدین بھی ہیں, جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے شفقت وعنایت کی شکل میں عطافرمایاہے. یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ والدین انسان کے وجودِظاہری کا سبب ہیں.ماں کی ممتا اور باپ کی الفت ومحبت درِبےبہا قکی مانند ہے
والدین کی یہ شفقت ومحبت بچپن سے لے کر جوانی تک تاحین حیات باقی رہتی ہے.والدین اپنی اولاد کی خاطر راتوں کی نیندیں قربان کر کے پرورش کرتے ہیں۔
اولاد کی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کےلیے دنیا کے تمام سکھ چین گنوا دیتے ہیں۔ پھر وقت کی گھڑیاں گزرتی جاتی ہیں اور والدین اپنی اولاد کو جوانی کی دہلیز پر پہنچا کر ضعیفی لے لیتے ہیں اور مسکرا کر غریبی کے دن بھی کاٹ لیتے ہیں
یہی وجہ ہے کہ قرآن واحادیث میں والدین کے غیر معمولی فضائل ومناقب واردہوئے ہیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیاگیاہے. چناں چہ باری تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے.:اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا,، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا :
اے ہمارے پروردگار ! تو اُن پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے (صرف ظاہر داری نہیں، دل سے اُن کا احترام کرنا) تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بکثرت معاف کرنے والا ہے۔ (سورۃ بنی اسرآئیل)
والدین اپنی اولاد کے مستقبل کے لیے حربے ضربے دنیا کے مصائب وآلام سے دوچار ہوتے رہتے ہیں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنا شکر ادا کر نے کا حکم دیا ہے، وہا ں ساتھ ساتھ والدین کا بھی شکر گزار رہنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے
سورۂ لقمان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ‘‘ ’’ میرا شکر یہ ادا کرو اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو، میری طرف لوٹ کر آؤ.”
یعنی ہمیں اللہ تعالیٰ اوراپنے والدین دونوں کا شکر اداکرناہے.اگر ان میں سے ایک کا شکر اداکریں ایک کا نہ کریں تو رب کی طرف ہی لوٹنا ہے کہ باری تعالیٰ کی بارگاہ میں ہم قابلِ باز پرس ہوں گے
اسلامی تعلیمات میں والدین کی اطاعت و فرماں برداری،ان کی خدمت اور ان سے حسنِ سلوک کی سخت تاکید ملتی ہے. حضرت ابوہریرہؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہوئی(وہ ذلیل و رسوا،ناکام و نامراد ہوا) اس کی ناک خاک آلودہ ہوئی۔
اس کی ناک خاک آلودہ ہوئی۔ عرض کیاگیا:اے اللہ کے رسول ﷺ! کس کی؟ آپ ﷺ نےفرمایا، جس نے ماں باپ میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپےکی حالت میں پایا اور پھر ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا۔(صحیح مسلم)
اسی طرح حضرت انس-رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس نے اپنے والدین کو راضی کرلیا،اس نے یقیناً اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیا اور جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا،اس نے یقیناً اللہ کو ناراض کیا‘‘۔
مذہب اسلام نے والدین کے ادب واحترام اور ان سے حسن معاشرت کی جو تعلیم دی ہے, دنیا کے کسی مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی. چناں چہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا- سے روایت ہے ، وہ فر ما تی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم -کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم-صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم- نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟
اس شخص نے کہا کہ یہ میرا باپ ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا: ان کے آگے مت چلنا ، مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا ، ان کا نام لے کر مت پکارنا، انہیں برا بھلا مت کہنا۔(معجم الاوسط، طبرانی)
والدین کی خدمت اور حُسنِ سلوک اور اطاعت جہاد سے بھی اولیٰ ہے :”حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں جہاد کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا: تمہارے والدین ہیں ؟ جواب ملا، ہاں: حیات ہیں حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا: ان کی خدمت میں جہاد کرو۔” (صحیح مسلم )
یہی وجہ ہے کہ سید الاولیاء حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ-والدہ کی خدمت کے تئیں صحابیت کے عظیم مرتبے سے محروم رہے. والدین کے ساتھ حسن سلوک رزق وعمر میں اضافے کا سبب ہے
جیساکہ حضرت انس-رضی اللہ عنہ-فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس-صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم- نے فرمایا: “جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔” (شعب الایمان)
ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے فر ما یا :” تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ حسن سلوک کرے گی۔”(المعجم الأوسط)
دینِ اسلام میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ادب واحترام کی اتنی سخت تاکید کے باوجود آئے دن والدین سے بدسلوکی اور بے ادبی کے دلخراش وجگرپاش واقعات اخبار اور نیوز وغیرہ میں پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں,جس کی وجہ سے کلیجہ پرسانپ لوٹتا ہے کہ ہمارامعاشرہ دن بدن اسلامی تعلیمات سے دورہوتاجارہاہے. ماضی قریب میں یہ روح فرسا خبر ہماری سماعت کے پردے سے ٹکرائی کہ ایک بیٹے نے ماں کو صرف اس لیے قتل کردیا کہ ماں نے جیب خرچہ دینے سے انکار کردیا, جب کہ وہ عمل طباخت میں مشغول تھی. اسی طرح/24 فروری 2008 میں یہ المناک واقعہ رونماہوا کہ ایک بیٹے نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کراپنی ماں کو اینٹ مارمارکر قتل کردیا. اس طرح کے سینکڑوں واقعات رونماہوتے جارہے ہیں جب کہ اللہ کے رسول-صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم-نے والدین کو جنت ودوزخ قرار دیا ہے.جسیاکہ ابوامامہ-رضی اللہ عنہ-روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول-صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم-سے دریافت کیا کہ ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ تو اللہ کے رسول-صلی اللہ علیہ وسلم-نے ارشاد فرمایا:”ماں باپ ہی تمھاری جنت ہیں اور ماں باپ ہی تمھارا دوزخ”(سنن ابن ماجہ) یعنی اگر ماں باپ تم سے راضی اور خوشی ہوئے تو ان کی دعاؤں سے دنیا وآخرت دونوں جنت بن جاتے ہیں, اور اگر والدین کو ناراض کیا توپھردنیاوعقبی میں چین وسکون کی دولت سے محروم رہ جاؤگے, کیوں اللہ تعالیٰ نے والدین کی رضا کو اپنی رضاقراردریاہے جیساکہ حدیث مبارکہ میں موجود ہے.عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم- صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: اللہ کا راضی ہونا ماں باپ کے راضی ہونے میں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ناراض ہونا ماں باپ کے ناراض میں ہے۔ اسے ترمذی نے روایت کیا اور ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔“(ترمذی شریف) مذکورہ حدیث کریمہ سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ والدین کوراضی رکھنا فرض ہے ,جس طرح کہ رب کو راضی کرنا, البتہ والدین اگر کسی معصیت کا حکم دیں,تو اس میں اطاعت نہیں کی جائے گی. فی الوقت کامیابی وکامرانی کے لیے مزارات کا چکر لگایا جاتاہے, میں مزارات پر جانے سے منع نہیں کرتی,پر مزارات کی حاضری سے زیادہ ضروری ہے ماں باپ کی رضا, اگر آپ کے اپنے والدین کے نافرمان ہیں تو آپ کی صرف آخرت اکارت نہیں ہوتی بلکہ دنیا میں برباد ہونے کا قوی اندیشہ ہے جیساکہ آپ -صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم-نے فرمایا :جتنے بھی گناہ ہیں ،ان میں سے اللہ تعالیٰ جس کی چاہے سزا کو قیامت تک مؤخر فرمادیتاہے،لیکن والدین کی نافرمانی کی سزا اللہ تعالیٰ مؤخرنہیں فرماتاہے،بلکہ والدین کے نافرمان کو اللہ دنیا ہی میں جلد سزا سے دوچار فرمادیتا ہے۔(ابن جوزی) حیف صد حیف!والدین اتنے سارے فضائل ومناقب کے متحمل ہونے کےباوجود موجودہ دورمیں معاشرہ انتشار اور افراتفری کا شکار ہے اور مسلمان اپنی روایات اور اسلامی تعلیمات سے دور ہوتے جارہے ہیں اور آئے روز والدین کے ساتھ بدسلوکی، تشدد اور قتل جیسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب ایک معمول بن چکاہے۔ اللہ کی عبادت کے بعد سب سے بڑی نیکی والدین سے اچھا سلوک ہے جسے مسلمان آج فراموش کرچکے ہیں ۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حقوق العباد کے متعلق اسلام کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور خصوصاً والدین کے مقام و مرتبہ کے متعلق جو احکامات ہیں ، اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مختلف پروگراموں کے ذریعے عام کرے اورمعاشرے کے تمام طبقات اس معاملے میں اہم کردار اداکریں تاکہ مسلم معاشرہ میں والدین اور بزرگوں کو ان کا جائز مقام مل سکے۔ باری تعالیٰ سے ہےکہ ہمارے والدین کو عمر خضر عطافرمائے. آمین! بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلمازقلم:نرگس خان بنت امیر عالم خانبڑہریا سیوان بہار انڈیا