یادوں کے چراغ مفتی مظفر عالم قاسمی

Spread the love

یادوں کے چراغ مفتی مظفر عالم قاسمی

✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم

امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ

مدرسہ عالیہ قاضی پورہ ممبئی اور انجمن اہل سنت والجماعت کے بانی مدرسہ تعلیم الدین برار سیتامڑھی کے بانی وسابق ناظم ، دار العلوم امدادیہ اور انجمن اسلام احمد سیلر اسکول ممبئی کے سابق استاذ ، حج کمیٹی آف انڈیا کے رکن ، معروف عالم دین اور با فیض شخصیت ، مولانا مفتی مظفر عالم قاسمی کا ممبرا ممبئی کے کالیسکر اسپتال میں 14؍ جنوری2024ء مطابق 2؍ رجب بروز اتوارانتقال ہو گیا، جنازہ کی نماز بعد نماز عشاء سورتی محلہ مسجد ممبئی کے امام قاری وقار صاحب نے پڑھائی اور ناریل واری قبرستان ممبئی میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں 4؍لڑکے 2؍لڑکیاں اور پوتے پوتی ، نواسہ، نواسی اور ہزاروں شاگرد اور مستفیدین کو چھوڑا

ایک لڑکی مشہور صحافی مولانا نور اللہ جاویدیو این آئی کولکاتہ کے نکاح میں ہے ۔اہلیہ ایک دہائی قبل ہی رخصت ہو چکی تھیں۔ مولانا مظفر عالم بن مولانا عزیز الرحمن بن شیخ صمدانی بن شیخ نواب علی کی ولادت اپنی نانی ہال مہیش استھان اورائی میں 15؍ رمضان المبارک 1361ھ مطابق 11؍ نومبر 1941ء کو ہوئی ، ان کے نانا کا نام ماجد بخش تھا جو علیم اللہ ٹھیکیدار کے چچا زاد بھائی تھے

عہد طفلی کے چار سال یہیں گذرے ، پھر اپنی دادیہال موضع برار، کوئیلی ضلع سیتامڑھی چلے آئے، یہاں کے سرکاری مکتب میں چار سال ابتدائی تعلیم پائی ، ان کے بڑے چچا جنہیں ہمارے علاقہ میں ’’بڑے ابا‘‘ کہا جاتا ہے کی طلب پر 1950ء میں ممبئی چلے گیے اور ممبئی کی مشہور دینی درسگاہ دار العلوم امدادیہ میں داخلہ لیااورسات سال تک یہاں زیر درس رہے

یہاں انہوں نے حافظ شمس الحق اعظمی، مولانا عبد المنان پٹھان پیشاوری، مولانا عباس علی بستوی اور اپنے بڑے ابا مولانا عبد العزیز صاحب(م1967ئ) عرف بڑے مولانا (رحمہم اللہ) سے کسب فیض کیا، مولانا عبد العزیز صاحب ان دنوں دارالعلوم امدادیہ کے صدر مدرس تھے، وہاں سے اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیو بند کے لیے سفر باندھا اور عربی ششم میں داخلہ لے کر تین سال میں دورۂ حدیث مکمل کرکے سند فراغت حاصل کی، مولانا نے جن اکابر اساتذہ کے سامنے دیو بند میں زانوے تلمذ تہہ کیا

ان میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب، مولانا فخر الدین احمد مراد آبادی، مولانا مبارک علی، مولانا مفتی مہدی حسن ، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، مولانا فخر الحسن ، مولانا ظہور احمد، مولانا بشیر احمد خان، مولانا عبد الجلیل ، مولانا اختر حسین، مولانا عبد الاحد، مولانا معراج الحق، مولانا نصیر احمد خان، مولانا محمد حسین بہاری (رحمہم اللہ) کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ فراغت کے بعد 1960ء میں خالہ کی لڑکی سے نکاح ہوا، نکاح خواں مولانا کے بڑے ابا مولانا عبد العزیز صاحب تھے، تدریسی زندگی کا آغاز مادر علمی دار العلوم امدادیہ سے کیا، سات سال تک یہاں استاذ رہے اور عربی کی ابتدائی کتابوں سے بخاری شریف تک کا درس اس درمیان ان سے متعلق ہوا، فجر اور عشا کی نماز کے بعد ممبئی کی کماٹی پورہ کی تیسری گلی والی مسجد میں بھی تعلیم دیا کرتے تھے۔

1968ء سے 1973ء تک کا زمانہ قلابہ بازار ممبئی ۔۵؍کی مسجد میں امام وخطیب کی حیثیت سے گذارا۔ 1973ء میں سوٹ کیس میٹیریل سپلائی کی تجارت شروع کی، 1980ء سے 2000ء تک انجمن اسلام احمد سیلر ہائی اسکول ناگپاڑہ ممبئی میں معلم کی حیثیت سے کام کرتے رہے ، 1980ء سے 2018ء تک چوک محلہ مسجد میں جمعہ کی خطابت وامامت بھی آپ کے سپرد رہی ، 1974ء میں جامعہ تعلیم الدین کے نام سے اپنے گاؤں میں ایک مدرسہ درسگاہ تعلیم الدین کے نام سے قائم کیا تھا، جو پہلے مدرسہ اور اب جامعہ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو لفظ ہی کی حد تک جامعہ ہے ۔

مولانا مرحوم پختہ اور منجھے ہوئے خطیب تھے، امامت وخطابت کی ذمہ داریوں نے ان کی اس صلاحیت کو خصوصیت سے صیقل کر دیا تھا، ان کی تقریر میں بہت گھن گرج تو نہیں تھا اورنہ ہی وہ زیادہ جسمانی حرکات وسکنات(باٹی لنگویج) سے کام لیتے تھے، اس کے باوجود وہ اپنی بات سلیقہ سے لوگوں کو سمجھانے پر قادر تھے، اوروہ ’’از دل خیزد دبر دل ریزد‘‘ ہوا کرتی تھی

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں تصنیف وتالیف کا بھی ملکہ عطا فرمایا تھا، وہ اپنی متنوع مشغولیات کی وجہ سے اس میدان میں بہت کام تو نہیں کرسکے، لیکن جو لکھا مسلمانوں کے عام ضرورت کی چیز ہے ۔ ان کی مشہور تصانیف میں اذان واقامت ، آئینہ نکاح، آدھا دین، آداب زندگی، تعلیم السنۃ ، پردہ سنٹر اور چند رسائل قابل ذکر ہیں۔

مولانا مرحوم سے میرے تعلقات قدیم مضبوط اور مستحکم تھے، میری ملاقات موضع برار ضلع سیتامڑھی، کولکاتہ اور ممبئی ہر سہ جگہ ہوئی تھی، کولکاتہ میں ان کے داماد مولانا نور اللہ جاوید قیام پذیر ہیں اس تعلق سے ان کا آنا جانا ہوتا تھااور میری حاضری تینوں جگہ جلسہ کے حوالہ سے ہوتی تھی 

میں نے مولانا کو ہر مجلس میں باوقار ، مہمان نواز اور محبت وشفقت کرنے والا پایا، ممبئی کی چکا چوند والی زندگی نے انہیں کبھی بھی عالمانہ وقار اور داعیانہ کردار سے دور نہیں کیا،وہ باجماعت نمازوں کے پابند تھے، اور گھر کے چھوٹے بچوں کو بھ اس میں شریک کیا کرتے تھے، کہنے والے کہتے ہیں کہ شمالی بہار کے باشندوں کی جو بڑی تعداد ممبئی میں سکونت پذیر ہے، اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں، ان کو بسانے ، وقار بخشنے اور ان کی دنیاوی اور دینی ضرورتو کی تکمیل میں مولانا عبد العزیز ؒ اور ان کے خانوادے کا بڑا ہاتھ رہا ہے ، یہ خاندان آج بھی ممبئی میں مولانا کی دینی جد وجہد کو روشن وتابندہ رکھے ہوئے ہے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *