زعفرانی ٹولے کے نرغےمیں مسلم بچیاں
پس پرد ہ زعفرانی ٹولے کے نرغےمیں مسلم بچیاں
ہلاکت خیزصورت حال کے مضرات سے بچانے کے لیےمسلم معاشرے میں خواتین اجتماعات منعقد کریں
ڈاکٹر غلام زرقانی چیئر مین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکہ
چلیے تسلیم کرلیتے ہیں کہ مسلم لڑکیوں اور غیر مسلم لڑکوں کے درمیان ہونے والی شادی کی حتمی تعداد ہمارے پاس نہیں ہے، لیکن آئے دن جو اطلاعات سماجی ذرائع ابلاغ اور اخبارات وجرائد کے ذریعہ مسلسل پہنچ رہی ہیں ،
ا ن سے یہ سمجھنا قطعی دشوار نہیں کہ دس بیس سالوں پہلے جو حادثہ شاذ ونادر ہوا کرتاتھا، وہ اب دھماکہ خیز صورت حال میں تبدیل ہوچکا ہے اور بہت بڑی تعداد میں ہماری بچیاں غیر مسلموں کے ہاتھوں کھلونا بن کر اپنا دین بھی تباہ کررہی
ہیں اور اپنا حسین مستقبل بھی ۔ لگے ہاتھوں چند حقائق سامنے رکھیے ۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق ۲۰۱۶ء سے ۲۰۱۷ء کے درمیان شہر پونہ میں ۴۴لڑکیوں نے غیر مسلموں سے شادی رچائی ہے۔
اسی طرح اگست اور ستمبر کے درمیان ممبئی میں ۱۲، تھانے میں ۷، ناسک میں دو اور امراوتی میں دو لڑکیوں نے غیرمسلم لڑکوں سے شادی کے حوالے سے عدالتوں میں درخواستیں دی ہیں۔یہی حال ملک کے دوسرے صوبوں کا ہے ۔
حقیقی تصوف اسلام کی سچی تصویر ہے
اس طرح کی شادیاں عام طورپر باہمی پیار ومحبت میں بہت دور تک نکل جانے کے منفی نتائج ہیں ،
جنھیں طرفین نے اپنے اپنے خانوادے سے چھپ کر کی ہیں ۔ تاہم بعد میں حقائق طشت ازبام ہونے کے بعد انھیں کسی طرح تسلیم کرلیا گیا ہے
۔ـمثال کے طورپر برقی سماجی سائٹ ’’ Quora‘‘ میں گذشتہ تین چار سالوں کے درمیان دسیوں مسلم لڑکیوں نے اعترا ف کیا ہے کہ وہ یا تو غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرچکی ہیں ،
یا ان کا معاشقہ چل رہاہے ، جس کے نتیجے میں وہ عنقریب شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گی ۔
اوربعض مثالیں ایسی بھی ہیں کہ بین المذاہب شادی کو طرفین کے اہل خانہ نے بھی بخوشی قبول کیا ہے اور شادی کے رسوم میں دھوم دھام سے شرکت بھی کی ہے ۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ عصری تعلیم،معاشی ترقی اور اباحیت پسندی کے زیر اثر اچھی خاصی تعداد میں اب بین المذاہب شادی کو معیوب نہیں سمجھا جارہاہے۔
ظاہرہے کہ گناہگار اپنے معیوب اقدام کو گناہ سمجھے ، توبہر کیف ایک امید کی کرن رہتی ہے کہ وہ جلد ہی تائب ہوکر صراط مستقیم پر آجائے گا،
لیکن اگر حرام وناجائز امور معیوب نہ سمجھے جائیں ، توپھر واپسی کی توقع معدوم ہوجاتی ہے ۔ ایسی صورت حال بلاشبہ ہمارے معاشرے کے لیے نہایت ہی تشویش ناک ہے ۔
اورپھر پورے ملک میں زعفرانی ذہنیت منصوبہ بند طریقے سے پھیلانےکی کوششیں بھی اپنا رنگ دکھارہی ہیں
، بلکہ یوں کہیے کہ فرقہ پرست عناصر ’زعفرانی پیار‘ کو فروغ دینے کے لیے دولت وثروت کی لالچ دے کر اپنے نوجوانوں کو رغبت دلارہے ہیں
اور سرکاری کارندے یا توآنکھ دباکر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ، یاپھر’ بڑے صاحب‘ کے اشارے پر پس پردہ حوصلہ افزائی کررہے ہیں ۔
مثال کے طورپر وی ایچ پی لیڈر ساھوی پراچہ نے مسلم بچیوں کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ وہ اپنے لیے ہندونوجوانوں کا انتخاب کریں ۔اسی طرح رام بھکت گوپال نے ایک بڑے مجمع میں اپنے نوجوانوں سے کہا کہ وہ مسلم لڑکیوں کو اغواکریں ۔
اور ایسے اشتہارات بھی نگاہوں سے گزرے ہیں ، جن میں فرقہ پرست لیڈر وںنے اپنے گمان میںہندولڑکوں کے ساتھ شادی کرنے کے فوائد شمار کرائے ہیں
ایک اڑتی اڑتی خبر سماجی ذرائع ابلاغ میں زور شور سے گردش کررہی ہے، جس میں مسلم لڑکیوں کو دام فریب میں لینے کے لیے مرحلہ وار گر سکھائے گئے ہیں ہیں اور منصوبہ بند طریقے سے ہندونوجوانوں کو اس مہم میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے
قصہ مختصر یہ ہے کہ عہد حاضر میں بین المذاہب ایک بھیانک صورت حا ل اختیار کرگئی ہے۔
یہ تورہی سرنامہ سخن کے حوالے سے تمہیدی گفتگو۔
اب آئیے ذرا اس کے سد باب کے اقدامات پر بھی بات ہوجائے ۔ ویسے تو متذکرہ بالا صورت حال کے اسباب وعوامل کئی ایک ہوسکتے ہیں ،
جیسے اعلی تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم ، مغربی تہذیب وتمدن سے دلچسپی ،
یافتہ معاشرے کی نقل اور اسلامی شریعت سے عدم محبت وانسیت، تاہم میرے خیال میں موجودہ صورت حال کے لیے مسلم بچیوں سے کہیں زیادہ وہ خانوادے ذمہ دار
ہیں ، جہاں ان کی پرورش وپرداخت ہوئی ہے ۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مسلم معاشرے میں پیدا ہونے والے بچے جوں ہی چار پانچ سال کے ہوتے ہیں ،
توان کے والدین عصری تعلیم کے لیے علاقے کے اچھے سے اچھے اسکولوں کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر ان کی حسن کارکردگی پر خوب خوب پذیرائی بھی کرتے ہیں ۔
اور یہ سلسلہ دھیرے دھیرے دراز ہوتارہتاہے اور یوںبچوں کے دلوں میں دنیاوی علوم وفنون اور مغربی تہذیب وتمدن سے محبت راسخ ہوتی چلی جاتی ہے ۔ یہاں پہنچ کر دست بستہ عرض کروں گا کہ صاف وشفاف زمین پر جس چیز کی تخم ریزی کی جائے گی
، بالآخر اسی کے پھل ٹہنیوں پر لدے دکھائی دیں ،توحیرت واستعجاب کیوں ہے؟
اور یہ بھی کان کھول کر سن لیاجائے کہ بڑی عمر کے بچے اور بچیوں پر صرف ناجائز وحرام کے ڈنڈے برساکر انھیں شریعت اسلامیہ کاپابند نہیں بنایا جاسکتا
، بلکہ اس کے لیے سب سے بڑھ کر ضروری یہ ہے کہ ہم چار پانچ سالوں کی عمر سے ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت راسخ کرائیں
، نیز انھیں سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے متاثر کن گوشے سے متعارف کرائیں ۔
یقین کیجیے کہ صرف اور صرف دین اسلام سے حد درجہ محبت ہی موجودہ بین المذاہب شادیوں کے سد باب میں فعال کردار اداکرسکتی ہے ۔ آپ خود غورکیجیے کہ ایک بیس پچیس سال کی نوجوان لڑکی کو دین اسلام سے محبت ہی نہیں ہے ،
تواسے شریعت اسلامیہ کی پابندی سے کیاکچھ سروکار ہوسکتاہے ؟
صاحبو! میں یہ نہیں کہتا کہ بڑی عمرکی دہلیز تک پہنچنے والی بچیوں کو غیر مسلم لڑکوں سے بچانے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے ،
بلکہ اپنی استطاعت بھر ضرور کوششیں کی جانی چاہیے ،
لیکن مدعائے سخن صرف اس قدر ہے کہ اب ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور کم از کم وہ بچے جو چار پانچ سال کے ہوگئے ہیں ،
ان کی تربیت اس طرح کی جانی چاہیے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد دین اسلام ان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وپسندیدہ بن جائے ۔
اس حوالے سے چند تجاویز پر غورکرلیجیے ۔
اول یہ کہ جس طرح ہم عصری تعلیم کے لیے اچھے اسکول کی تلاش کرتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح دینی تعلیم کے لیے بھی اچھے اساتذہ کی تلاش کیجیے۔
دوم یہ کہ جس طرح خاندان کے لیے ایک فیملی ڈاکٹر ہوتے ہیں
ٹھیک اسی طرح اپنے علاقے میں کسی عالم باعمل سے رابطہ کیجیے اور انھیں گاہے بگاہے اپنے بچوں سے ملاقات کروائیں ، تاکہ وہ بے تکلفی کے ساتھ اسلامی امور سے متعلق مثبت ومنفی سوالات کے تسلی بخش جوابات حاصل کرسکیں ۔
میرا ذاتی تجربہ یہ ہےکہ اسلام کے حوالے سے فرقہ پرست عناصر کے قائم کردہ مضحکہ خیز سوالات سن کر بچے متاثرہوجاتے ہیں ،
پھر اگر انھیں غیر جانبداری کے ساتھ قائل نہ کیا جائے ، تووہ بروقت خاندان اور معاشرے کے دباؤ میں زبان تونہیں کھولتے ، لیکن ہوش سنبھالنے کے بعد باغی ضرورہوجاتے ہیں ۔
سوم یہ کہ ہر اس بات سے گھر میں اجتناب کیجیے ، جس سے بچوں کے دلوں میں اسلام کی محبت کمزور ہو، جیسے علما پر لعن طعن اور انھیں برا بھلا کہنا، اس لیے کہ بچے علما کی صورت میں دین اسلام کا مشاہدہ کرتے ہیں
، پھر اگر اس مشاہدے کی عظمت گرجائے ، توان کے دلوں میں اسلام کی عزت وعظمت بھی کم ہوجاتی ہے ۔
چہارم یہ کہ ہر ہفتے یا ماہانہ اپنے گھر میں دینی بزم کا انعقاد کیجیے ، جو درس وتدریس اور پڑھنے پڑھانے پر مشتمل ہو، نہ کہ صرف حمد ونعت اور قرأت قرآن تک محدودرہے۔
اس کے لیے یا توعلاقے کے عالم باعمل مدعوکیے جائیں ، یا گھر کے بزرگ کسی مستند کتاب کو بہ آواز بلند پڑھ لیں ، تاکہ تواتر کے ساتھ چند باتیں باقاعدی ساتھ مسلسل گھر میں گونجتی رہیں ۔ پیش نگاہ رہے کہ چند افراد کے اسلام سے دور ہوجانے سے دین ختم نہیں ہوجائے گا، لیکن اگر آنے والے مستقبل میں معاشرےمیں دین سے محبت کرنے والے تیارنہ کیے گئے ،
تویقینی طورپر وہ صورت حال پیدا ہوسکتی ہے ، جو نوک زبان پر آنے لائق نہیں ہے ۔ اس لیے قنوطیت ومایوسیت کی اوٹ سے باہر نکلیے اور اپنی نئی پود کی رگ رگ میں اسلام کی محبت سمودیجیے ۔
ڈاکٹر غلام زرقانی
چیئر مین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکہ
ghulamzarquani@yahoo.com