پرسنلٹی ڈیولپمنٹ اور فطرت اسلام

Spread the love

پرسنلٹی ڈیولپمنٹ اور فطرت اسلام

عصری تعلیم گاہوں میں پرسنلٹی ڈیولپمنٹ پر بہت زور دیا جاتا ہے۔شخصیت کے فروغ و ارتقا سے متعلق عصری نظریات اسلامی تعلیمات سے مکمل موافقت نہیں رکھتے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شخصیت کے فروغ و ارتقا کے جذبات نے ہی عہد حاضر کی متعدد شخصیات کو اسلامی افکار وتعلیمات سے کچھ کنارے دھکیل دیا ہے۔

شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا :

مٹا دو اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہو

کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتا ہے

جس کو پرسنلٹی ڈیولپمنٹ کا خیال ہو گا،وہ فروغ دین اور ترویج اسلام کے لیے اپنی جان ومال کی قربانی بھی نہیں دے سکے گا۔وہ تو اپنی عزت وعظمت اور قبولیت ومحبوبیت کی فکر میں مدہوش رہے گا۔

دین کے محافظین یعنی علمائے دین پرسنلٹی ڈیولپمنٹ کے مدہوش کن تخیلات سے دست بردار ہو جائیں۔ ارشاد خداوندی (تعز من تشاء) کو ملحوظ خاطر رکھیں۔نو فارغین دو حصوں میں تقسیم ہو جائیں۔

ایک طبقہ مساجد ومدارس کی ذمہ داری سنبھالے اور دوسرا طبقہ دیگر اسباب معاش کو اختیار کرے اور اپنے آس پاس کے انسانوں کے لئے مینارۂ نور اور شمع محفل بن جائے۔

اصحاب علم وفضل کی ضرورت مساجد ومدارس کے علاوہ دیگر مقامات ومواضع میں بھی ہے۔وہاں جائیں اور فروغ دین اور تبلیغ اسلام کی خدمت انجام دیں۔

متاخرین علماے اسلام نے بوجہ حاجت شرعیہ تدریس وامامت پر اجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے،ورنہ آغاز اسلام سے چند صدیوں قبل تک تدریس وامامت پر اجرت لینا ناجائز ہی تھا۔یہ بات بدیہی ہے کہ اجرت کے جواز سے قبل علمائے اسلام یقینا اسباب معاش سے منسلک تھے۔

جب تدریس وامامت پر اجرت ہی جائز نہیں تھی تو کوئی درس وامامت کو ذریعۂ معاش بھی نہیں بنا سکتا تھا۔آج کے فارغین کو درس وامامت کے علاوہ کوئی ذریعہ معاش نظر ہی نہیں آتا ہے۔ساری دنیا کے لوگ چوری ڈکیتی نہیں کرتے ہیں،بلکہ اسباب معاش سے منسلک ہیں۔اسی طرح قرون ماضیہ کے علمائے اسلام بھی ذرائع معاش سے منسلک تھے۔

شایان شان اسباب معاش کو اپنائیں اور اپنے آس پاس کے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے آشنا کرتے رہیں۔اتوار کے دن ان لوگوں کو کسی جگہ جمع کر کے ہفتہ واری درس دیں۔اشاعت اسلام اور ترویج دین سے متعلق جو مناسب خدمت انجام دے سکتے ہیں ۔ وہ انجام دیں۔

مدارس میں عوام کا آنا جانا بہت کم ہوتا ہے۔مساجد میں عوام ضرور آتے ہیں،لیکن وہ فرض وسنت پڑھتے ہی اپنی تجارت اور صنعت وحرفت کی طرف واپس چلے جاتے ہیں۔ایسی صورت میں لازم ہے کہ کسب معاش کے لیے عوام جن مقامات پر زیادہ وقت دیتے ہیں،قومی رہنماؤں کا ایک طبقہ بھی ادھر ہی رہے اور حسب موقع عوام کی صالح رہ نمائی کرتا رہے۔

بدمذہبوں نے ہوش مندی سے کام لیا اور وہ مختلف اطراف وجوانب میں پھیل گئے اور اب برصغیر میں اہل سنت وجماعت کی تعداد اسی فی صد ہرگز نہیں، لہذا فروغ سنیت کے لیے جماعتی مزاج کو بدلنا ہو گا۔

پرسنلٹی ڈیولپمنٹ کی فکر نہ کریں۔ دین کے فروغ وارتقا اور مسلک کی ترویج واشاعت کو مقصود اصلی بنائیں۔ اللہ تعالی آپ کی شخصیت کو فروغ و عروج عطا فرمائے گا اور دونوں جہاں کی نعمتیں بھی میسر آئیں گی۔

بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں

مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا

شخصیت سازی کی بیماری جہاں میں عام ہے

ہے ضرورت قصر دیں کا تم کوئی پتھر بنو

طارق انور مصباحی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *