آم کی چٹنی
آم کی چٹنی
انس مسرورؔانصاری
ا ک پھو ل سے آجا تی ہےویرانےمیں رونق
ہلکا سا تبسّم بھی مر ی جا ن بہت ہے
گرمیوں کے موسم کاآغازہوچکاہے۔آم کے پیڑوں پرامولیاں آگئی ہیں ۔آم کے باغوں میں بچے گھومنے پھرنے لگے ہیں۔
ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھرلیے امولیوں کوللچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔خواتین اوربچوں کے لیے یہ امولیاں بڑی کشش رکھتی ہیں۔ان کی کھٹاس من کوبہت بھاتی ہے۔ ان دنوں گھروں میں آم کی چٹنی کابڑارواج ہے۔
خوشبو،کھٹاس،لذّت،کیاکچھ نہیں ہوتاآم کی چٹنی میں۔آم کی ریڈیمیڈچٹنیاں بھی کئی کمپنیاں بناتی ہیں،مگران میں وہ بات کہاں۔آم کی چٹنی پنڈت دیارام کوبہت پسند تھی۔
پنڈت دیارام اورمولوی قدرت اللہ میں بڑی گہری دوستی تھی۔دونوں لنگوٹیایارتھے۔دونوں میں چھوت چھات کی بیماری بھی نہ تھی۔مزے کی بات یہ تھی کہ دونوں ہی اپنے اپنے مذہبوں کے پیشواتھے۔پنڈت جی ایک ودّیالیہ میں سکچھاپردان کرتے تھے
جب کہ مولوی قدرت اللہ ایک عربی مدرسہ میں در س تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔اتنے زیادہ فرق کے باوجود پنڈت اورملّا میں گاڑھی چھنتی تھی۔بس پنڈت جی کوایک ہی بات بہت بُری لگتی تھی۔جب بھی مولوی قدرت اللہ ‘‘گلاب جامن’’کانام لیتے،پنڈت جی چڑھ جاتے اورانھیں بہت بُرابھلاکہتے۔کھری کھوٹی سناتے۔
بھلا‘‘گلاب جامن ’’بھی کوئی مٹھائی ہے۔ بالکل واہیات۔مولوی صاحب کوبھی انھیں چھیڑنے میں بڑالطف آتا۔کسی نہ کسی بہانے وہ بات ہی بات میں گلاب جامن کاذکرچھیڑہی دیتے اورپنڈت جی کاپارہ گرم ہوجاتا۔
پنڈت جی کوتمام مٹھائیوں میں گلاب جامن سے الرجی تھی۔اُن کے سامنے کوئی بھولے سے بھی گلاب جامن کانام بھی لے لیتاتواُس کی خیر نہ تھی۔مزالینے کے لیے بچے اکثر اُنھیں دیکھ کر گلاب جامن کہتے اورپنڈت جی دیرتک اُنھیں اوراُن کے آباواجدادکوکھری کھری سناتے رہتے۔
آخرایک دن مولوی قدرت اللہ نے پوچھ ہی لیا:‘‘پانڈے!ایک بات بتاؤ۔؟’’
‘‘کون سی بات۔؟’’ ‘‘یہی کہ گلاب جامن جیسی بڑھیامٹھائی سے اتناچڑھتے کیوں ہو۔گلاب جامن نے تمھارا کیا بگاڑاہے۔؟’’ ‘‘دیکھومولوی کے بچے!خبردارجواب تم نے اُس کانام بھی لیا۔اچھانھیں ہوگا۔سمجھے۔’’ ‘‘اچھاپیارے یہی بتادوکہ تمھیں کون سی چیزسب سے زیادہ پسندہے۔؟’’
پنڈت جی دیرتک سوچتے رہے۔پھربولے۔‘‘مجھے آم کی چٹنی بہت پسندہے۔دال بھات کے ساتھ مزادے جاتی ہے۔’’
‘‘اچھایادرکھناکہ تمھیں آم کی چٹنی بہت پسندہے۔’’
‘‘بھلایہ بھی کوئی بھولنے کی چیزہے۔بھگوان قسم آم کی چٹنی کاتوجواب ہی نہیں ہے۔’پنڈت جی چٹخارے لیتے ہوئے بولے۔مانو منھ میں پانی آگیاہو۔
ایک ہفتہ بعد مولوی قدرت اللہ نے اپنے چندشاگردوں کوتیارکیااورانھیں سمجھایاکہ تمھیں کون ساکام کس طریقے انجام دیناہے۔کام چونکہ مزیدارتھااس لیے شاگرد لڑکے خوشی سے تیارہوگئے۔
گرمی کاموسم تھا۔دوپہرتپ رہی تھی۔پنڈت جی پسینے میں شرابوراسکول سے بھوجن کے لیے گھر لَوٹے تھے۔ہاتھ منھ دھوکربھوجن کے لیے بیٹھے۔اُن کی پتنی پنڈتائن نے بھوجن پروساہی تھاکہ مولوی قدرت اللہ کاایک
شاگردلڑکاپہنچا۔‘‘پنڈت جی مہاراج!مولوی صاحب نے آم کی چٹنی مانگی ہے۔’’
‘‘بیٹا!آج توآم چٹنی نھیں بنی ہے،کل بھیج دوں گا۔’’ لڑکاواپس آگیا،لیکن ابھی پنڈت جی نے بھوجن شروع بھی نہیں کیاتھاکہ دوسرالڑکاپہنچا۔‘‘پنڈت جی !پنڈت جی!مولوی صاحب نے آم کی چٹنی مانگی ہے۔’’
‘‘بھئی ایک بالک چٹنی کے لیے آیاتھالیکن افسوس کہ آج آم کی چٹنی بنی نہیں ہے۔بنی ہوتی توبھلاکیوں نہ دیتا۔مولوی صاحب سے کہناکہ آم کی چٹنی بنے گی توبھیج دوں گا۔’’پنڈت جی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
دوسرالڑکابھی واپس گیا۔پنڈت جی نے جیسے ہی بھوجن شروع کیا،تیسرالڑکاپہنچ گیا۔‘‘پنڈت جی!مولوی صاحب نے آم کی چٹنی مانگی ہے۔’’اب توپنڈت جی کاپارہ گرم ہوناشروع ہوگیا۔نہایت خفگی سے بولے۔
‘‘ایک بارنہیں بلکہ تین بارکہہ چکاہوں کہ آج میرے گھرآم کی چٹنی نہیں بنی ہے۔اپنے مولوی سے آخری بارکہہ دینا۔بنے گی توبھیج دوں گا۔’’ پنڈت جی کے گھرسے تیسرالڑکاباہرنکلاتوفوراََچوتھاپہنچ گیا۔
‘‘پنڈت جی!پنڈت جیــ…….!’’
‘‘کیاہے؟کیابات ہے؟’’ پنڈت جی نے لڑکے کوقہربھری نظروں سے دیکھا ۔
‘‘وہـــ…..وہ….’’لڑکاہکلایا۔‘‘وہ جی ہمارے مولوی صاحب نے آم کی چٹنی…….’’ ‘‘آم کی چٹنی کے بچّے!ابھی میں تھکاماندہ اسکول سے چلاآرہاہوں۔بھوجن تک نہیں کیااورتم کم بختو!میراجیناحرام کیے دے رہے ہو۔کتنی بارکہوں کہ آم کی چٹنی نہیں بنی۔
کہاں سے لاؤ ں آم کی چٹنی۔؟ بھاگ جاؤ بدبختو۔’’پنڈت جی کوغصّہ میں بھرے دیکھ کرلڑکابھاگ نکلا۔یہ چوتھالڑکاجیسے ہی دروازہ کے باہر ہوا۔پانچواں لڑکاپنڈت جی کے سرپرپہنچ گیا۔
‘‘پنڈت جی!آم کی چٹنی…….!’’پانچواں لڑکاابھی اتناہی کہہ پایاتھا کہ پنڈت جی آپے سے باہرہو گئے۔بھوجن سے بھری تھالی لڑکے پر کھینچ ماری۔لڑکاجھکائی نہ دے جاتاتواُس کاسرہی پھٹ جاتا۔وہ لڑکابھاگاہی تھاکہ چھٹواں لڑکاآدھمکا۔ ‘‘پنڈت جی……….!’’
‘‘ہاں.ہاں…..کہوبیٹا۔!’’وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔
‘‘مولوی صاحب………آم کی چٹنی۔’’ ‘‘ہاں ہاں….کیوں نہیں۔ابھی دیتاہوں آم کی چٹنی۔’’پنڈت جی نے لپک کرکونے میں کھڑی بید کی چھڑی اُٹھائی اورلڑکے کی طرف بڑھے۔لڑکابھاگ کھڑاہوا۔وہ چیخنے لگے۔
‘‘بلاؤ مولوی قدرت کو۔آج ہی میں اُسے آم کی چٹنی کھلاؤں گا۔حرام خور…….بدمعاش…… کمینہ……میں سب سمجھتاہوں۔ارے کیاتم کبھی ملوگے نہیں……..سمجھ لوں گابیٹا۔!میں بھی پنڈت دیا رام ہوں۔گن گن کے بدلہ لوں گا۔’’
‘‘اجی کیاہوا۔؟کیوں چیخ رہے ہو۔؟؟’’پنڈتائن ہانپتی کانپتی ہوئی کمرے میں آئیں توساراکمر ہ کباڑخانہ بناہواتھا۔ ‘‘یہ سب کیاہے ؟کیوں چلّارہے ہو۔’’وہ حیران وپریشان کبھی اپنے پنڈت کودیکھتیں اورکبھی کمرے کو۔
‘‘بس کچھ مت پوچھوساویتری۔!وہ کم بخت مولوی کابچہ ….!وہ آم کی چٹنی….. !’’پنڈت جی بُری طرح ہانپ گئے۔
‘‘آم کی چٹنی…..؟کیامطلب….؟’’پنڈتائن نے حیرت سے پوچھا۔
‘‘بس بس ساو یتری !آگے کچھ بھی نہیں۔’’وہ بوکھلائی بوکھلائی اپنے پتی دیوکاچہرہ تک رہی تھیں۔آم کی چٹنی کامطلب وہ نہیں سمجھ پارہی تھیں۔ پنڈت جی کے ہاتھ میں بیدوالی چھڑی تھی اوروہ دروازہ کے باہرجھانک رہے تھے۔
شاید وہ ساتویں لڑکے کی راہ تک رہے تھے۔لیکن ساتواں لڑکاآم کی چٹنی کے لیے نہیں آیا۔اُنھیں غصّہ کے ساتھ سخت مایوسی بھی ہوئی۔البتہ اس دن کے بعدسے وہ ‘‘گلاب جامن’’کے ساتھ‘‘آم کی چٹنی’’ سے بھی چڑھنے لگے۔
یہ گزرے ہوئے زمانوں کی باتیں ہیں۔جب ہندومسلم ایک قوم ہواکرتے تھے۔بھائی چارہ اور یک جہتی تھی۔ایک دوسرے کے ساتھ خوشی اورغم میں جینامرناتھا۔ہولی کے تیوہارمیں مسلمان دل کھول کرشریک ہوتے۔محرم میں ہندوامام حسین کاماتم کرتے اورتعزیئے رکھتے۔ منتیں مانتے۔
ہولی اوردیوالی کے تیوہاروں پر مسلمانوں کے گھروں میں بھی قسم قسم کے پکوان بنتے۔ دیوالی کے چراغاں میں مسلمان بھی برابرکے شریک ہوتے۔
عیدکے روزعیدگاہ کے باہر ہندوبھائی گلاب جل لیے کھڑے رہتے۔جیسے ہی مسلمان عیدکی نماز پڑھ کرعیدگاہ سے باہرنکلتے،اُن پرگلاب جل کاچھڑکاؤ کرتے ۔گلے ملتے۔مبارک سلامت کی صدائیں گونجتیں۔گزراہوازمانہ ہے خواب سازمانہ۔میری اِن بوڑھی آنکھوں نے اُن حسین منظروں کوبارباردیکھاہے۔اُن خوبصورت رنگین زمانوں کی یادیں آج خون کے آنسورلاتی ہیں۔کیسے بے ریااورمخلص لوگ تھے۔
ایک دوسرے کے دکھ سُکھ میں برابرکے شریک۔! ہندوپڑوسی جنازہ کے ساتھ گورستان جاتے۔
مسلم پڑوسی ارتھی کے ساتھ شمشان گھاٹ جاتے ۔ایک دیوارپرکئی کئی لوگ اپنی اپنی چھتیں ڈالتے اوردیوارکے مالک کوذراسابھی اعتراض نہ ہوتا۔ اُن میں ہندومسلم کی کوئی تفریق نہ ہوتی۔غریبی میں بڑی خوش حالیاں تھیں۔
انس مسرورؔانصاری
قومی اُردوتحریک فاؤنڈیشن(رجسٹرڈ)
سَکراول،اُردوبازار،ٹانڈہ۔امبیڈکرنگر(یو،پی
رابطہ/۹۴۵۳۳۴۷۷۸۴۔
Pingback: کڑوا شربت اردو دنیا انس مسرورانصاری
Pingback: موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس ⋆ اردو دنیا
Pingback: قومی اساتذہ تنظیم کی نشست میں سرکار سے پنچایتوں میں اردو پرائمری، مڈل، سیکنڈری و ہائیر سیکنڈری اسکول قائم کرنے کی اٹھی مانگ