ایسے لوگوں پر غصہ آتا ہے جو اپنی ذمہ داری کو ثانوی سمجھتے ہیں

Spread the love

ایسے لوگوں پر غصہ آتا ہے جو اپنی ذمہ داری کو ثانوی سمجھتے ہیں 

اور اسے ‘خواتین کو بااختیار بنانے’ اور ‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ’ جیسے میٹھے اور دلکش نعروں میں لپیٹ دیتے ہیں۔ یہ سن کر کتنا اچھا لگتا ہے کہ لڑکیاں اپنی زندگی میں کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ لیکن، کیا واقعی ایسا ہے؟

پورا معاشرہ پوچھتا ہے

کہاں ہیں بیٹی بچانے والا ؟

کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ہندوستان میں لوگ خواتین کے تئیں اس قدر غیر انسانی ہو جائیں گے۔ لیکن دانستہ یا نادانستہ آج معاشرہ اسی طرح کے خوفناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

ظلم اس قدر ہے کہ عام عورتوں کی عصمت ریزی تو ہر روز ہو ہی رہی ہے اپ تو چار سال کی بچیاں ہیں اور نہ بوڑھی عورتیں وحشیوں کی نظروں سے محفوظ ہیں۔ یہ ہر روز کہیں نہ کہیں آسمانی بجلی گر رہے ہیں۔ مہذب معاشرہ اس طرح کی بربریت سے بار بار شرم سے سر جھکا رہا ہے۔

لیکن، جن کے پاس لڑکیوں اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی انتظامی اور آئینی ذمہ داری ہے، وہ شرم محسوس نہیں کر رہے۔ ایسے لوگوں پر غصہ آتا ہے جو اپنی ذمہ داری کو ثانوی سمجھتے ہیں اور اسے ‘خواتین کو بااختیار بنانے’ اور ‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ’ جیسے میٹھے اور دلکش نعروں میں لپیٹ دیتے ہیں۔ اسے ان کی بے شرمی ہی کہا جا سکتا ہے کہ انہیں زمینی حقیقت سے کوئی سروکار نہیں۔

اس کا منفی اثر یہ ہے کہ نہ صرف کسی خاص علاقے میں بلکہ تقریباً پورے ملک میں انسان نما بھیڑیے اپنے مذموم اعمال سے انسانیت کو شرمسار کر رہے ہیں۔ وہ پولیس انتظامیہ کی نا اہلی کو بھی بے نقاب کر رہے ہیں۔

معاشرہ بے بس ہو چکا ہے اور اس بات پر انتہائی پریشان ہے کہ نہ صرف بہنیں اور بیٹیاں بلکہ بوڑھی عورتیں بھی نہ اپنے گھروں میں محفوظ ہیں اور نہ ہی سکولوں میں۔ نہ ہسپتال میں اور نہ ہی نوکری کی جگہ پر۔ ایسی کئی جگہوں پر درندوں کی گرجدار آنکھیں انہیں گھورتی رہتی ہیں۔

جب انہیں موقع ملا تو وہ جانوروں کے جیسے جھپٹ پڑتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایسے کئی دردناک واقعات ہوئے ہیں جو اس تصور کو تقویت دے رہے ہیں کہ ہندوستان میں بیٹیاں اب محفوظ نہیں ہیں۔چاہے وہ کولکتہ، مغربی بنگال کا واقعہ ہو یا بدلا پور، مہاراشٹر کا۔ بہار کا مظفر پور ہو، ہر طرف ظلم کی انتہا نظر آتی تھی۔ ایسی کہ لڑکیاں گھر سے نکلنے سے ڈرنے لگیں۔

سڑک پر ہی نہیں آس پاس کے علاقوں کا تقریباً ہر چہرہ انہیں خوفناک نظر آنے لگا ہے۔ والدین اپنی بچیوں کو سکول بھیجنے سے خوف محسوس کرنے لگے ہیں۔ آخر یہ خوف کیوں اور کب تک رہے گا؟

یہ سن کر کتنا اچھا لگتا ہے کہ لڑکیاں اپنی زندگی میں کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ لیکن، کیا واقعی ایسا ہے؟ ہرگز نہیں۔

حقیقی زندگی میں لڑکیوں کو ہمیشہ دبایا اور کچلا جاتا ہے۔ گھر ہو یا دفتر۔ یا عوامی جگہ۔ مرد انہیں استعمال کی چیزوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ جس کی وجہ سے وہ خود کو بے بس اور بے بس محسوس کرتی ہیں۔ یہ ستم ظریفی ہوگی کہ ہمارے ملک میں اب بھی کسی کو انصاف کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔

انصاف نہ ملنے پر جب عوام احتجاج کرتے ہیں تو انتظامیہ مجرم کو گرفتار کرنے کے بجائے عام لوگوں کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔

تھانے کا بدلاپور اس کی روشن مثال ہے۔ تین اور چار سال کی لڑکیوں کو 24 سالہ سکول سویپر نے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ مشتعل لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ لوگوں نے اپنی بیٹیوں کو انصاف دلانے کے لیے احتجاج کیا۔ انتظامیہ نے ملزمان کے بجائے مشتعل افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔ تقریباً 300 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ 32 افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔

انتظامیہ کی اس ناانصافی سے فطری طور پر انصاف ہل گیا۔ 9 اگست 2024 کو مغربی بنگال سے خاتون ڈاکٹر کے ریپ کے بعد قتل کا معاملہ سامنے آیا۔سوشل میڈیا پر ان کے لیے انصاف کی آواز بلند ہو رہی تھی ۔ اس ظالمانہ واقعے نے انسانیت کو اس قدر چونکا دیا کہ ہر کسی کو 2012 میں دہلی میں نربھیا کے ساتھ ہونے والی لرزہ خیز واردات کی یاد تازہ ہو گئی۔

لیکن، نربھیا کے ساتھ یہ ظلم رات کے اندھیرے میں ایک سنسان سڑک پر ہوا۔ کولکتہ میں، ایک خاتون ڈاکٹر پر بربریت دن کی روشنی میں ایک سرکاری اسپتال کے سیمینار ہال میں ہوئی جہاں لوگ ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں۔

یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ نربھیا واقعہ کے 12 سال گزرنے کے بعد بھی ایسے معاملے میں سماج کی صورتحال بالکل نہیں بدلی ہے۔ یہ واقعی ایک سنگین تشویش کا معاملہ ہے۔ عصمت دری اور قتل کا معاملہ اب بھی ہر طرف گرم ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے گھناؤنے واقعات پر بھی خواتین ارکان اسمبلی اور خواتین وزراء منہ نہیں کھولتیں۔ ایک یا دو مستثنیات کو چھوڑ کر تقریباً ہر ایک کے منہ میں دہی آتی ہے۔ لڑکیوں اور خواتین کی عصمت دری اور قتل کے واقعات میں بے پناہ اضافہ پر پورے ملک میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ لوگ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور خواتین کے حقوق سے لے کر ان کی آزادی تک کے مسائل اٹھا رہے ہیں۔ بعض مقامات پر قانون کو سخت کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور بعض جگہوں پر ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کے لیے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ مغربی بنگال سے دہلی تک لوگ سڑکوں پر موم بتیاں لہرا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہر کوئی لڑکیوں کو آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔

وہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے ساتھ کچھ بھی غلط ہو رہا ہو اور نہ ہی سنیں۔ لڑکیاں بھی معاشرے کو اس طرح اپنے حق میں کھڑا دیکھنا چاہتی ہیں۔ لیکن، عجیب بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات اسی معاشرے میں ہو رہے ہیں جو عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف ناراض ہے، اور کوئی ان پر قابو نہیں پا رہا ہے۔

ذرا سوچئے، کیا 9 اگست 2024 کے واقعے کے حوالے سے جس طرح کے احتجاج ہوئے، اس کا بحث پر کوئی اثر ہوا؟ کیا ایسے واقعات میں کمی آئی ہے؟ ایسا بالکل نہیں ہوا۔ یہاں آئے روز ظلم کی حدیں طے کی جاتی ہیں۔

بدلاپور کا معاملہ دیکھ لیں۔ یہ 9 اگست 2024 کے بعد کا واقعہ ہے۔ یہ مہاراشٹر کے تھانے سے ہے جہاں تین اور چار سال کی بچیوں کو اسی اسکول کے ایک سویپر نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ لڑکیاں اس جھاڑو دینے والے کو ‘دادا’ کہہ کر پکارتی تھیں اور اسے اپنا سمجھتی تھیں۔ لیکن، اس جاننے والے نے ان کے ساتھ کیا کیا؟

اس معصوم بچی کی کپڑے اتارے اور اس کے نازک بدن کے اعضاء کو چھوا اس معصوم بچی کو اپنی ہوس پرستی کا شکار بنایا اور مجرمانہ جرم کا ارتکاب کیا۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ لڑکیوں کو موقع ملتے ہی یہ اِنسان کی شکل میں بھیڑئے معصوم بچی ہو یا ضعیف خواتین اس کے ساتھ درندگی کی انتہا پاڑ کر دیتے ہیں، یہاں تک یہ وحشي درندہ اب جانوروں کی عصمت ریزی کرتے ہیں اور ظلم کی حدیں پار کرتے ہوئے اسے بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔

بہار کے مظفر پور کے پارو تھانہ علاقے کی میں۔ 12 اگست 2024 کو جس بے دردی کے ساتھ ایک مہادلت لڑکی کو قتل کیا گیا اس سے انسانیت کانپ اٹھی۔ اِنسانیت کا قتل کیا گیا اس نابالغ لڑکی کے اعضاء کے بہت حصہ کو کاٹ دیا گیا اور خانہ پُری کے لیے اسے خود سپردگی کروا گیا،،،اس واقعے کے چند دن بعد 16 اگست 2024 کو راجستھان کے ضلع سروہی کے ابو روڈ ریکو تھانہ علاقے میں وحشیوں درندہ نے گھر میں گھس کر 63 سالہ خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت ریزی کی ۔

لعنت ہے ایسے سفاکوں پر کہ انہوں نے ایک بوڑھی عورت کو بھی نہیں بخشا۔ ہوس کا نشانہ بنایا۔ مندرجہ بالا دونوں واقعات پر غور کریں۔ ایک کیس میں چھوٹی لڑکیاں اور دوسرے میں بوڑھی عورت۔ لڑکیوں اور بوڑھی خواتین کے لیے ہر شخص کے جذبات مختلف ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کو دیکھ کر دل پیار سے بھر جاتا ہے تو بزرگ عورت کے لیے عزت و احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن بد روح ان میں نہ تو چھوٹی بچی دیکھتی ہے اور نہ بڑھاپا، انہیں صرف ہوس نظر آیا ۔

بچہ ہو یا بوڑھا، یہ عفریت انہیں سڑک پر یا بند کمرے میں بھی پکڑ سکتے ہیں۔ معاشرے کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قوانین کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جہاں اِس طرح کے ظالم کو 24 گھنٹہ کے اندر پھانسی دی جائے تبھی قانُون کا ڈر ان وحشی کو ہوگا،،،۔ بات تو یہ بھی ہے اِس طرح کے لوگوں کو جلد ہی سياسی اور سماجی مدد مل جاتی ہے لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ کیا صرف قانون کو مزید سخت کرنے سے ہم اس برے رجحان سے چھٹکارا پا لیں گے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ اس کے لیے معاشرے کو اپنی سوچ اور ذہنیت کو بدلنا ہو گا۔

کیوں کہ مجرم آسمان سے نہیں گرتے ان کا تعلق اسی معاشرے سے ہے۔ حکومتی سطح پر سختی کی ضرورت ہے، معاشرہ ہی گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لا سکتا ہے۔

لیکن، یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا موجودہ معاشرہ اتنا قابل ہے؟۔

نزہت جہاں

گرمی کی شدت کو دیکھتے ہوئے اسکولوں کو کیا جائے بند

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *