بندگی رب کی لذت سے نوع انسانی کو روشناس کروانا اہم فریضہ ہے

Spread the love

بندگی رب کی لذت سے نوع انسانی کو روشناس کروانا اہم فریضہ ہے !

محمد عبدالحفیظ اسلامی

ہم اللہ تعالی کے آخری نبی و رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں، جو انتہائ مشفق ہستی ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے ساری اولاد آدم کے لئے بشیر و نذیر بناکر مبعوث فرمایا۔ خوشخبری و بشارت ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی کبریائی کو تسلیم کرلیں

اور اسی کو اپنا الٰہ واحد و معبود بناتے ہوئے صرف اسی کی بندگی اختیار کرتے ہوں۔ اور نذیر اور ڈراوا ان لوگوں کے لیے ہیں جو اپنی من مانی کرتے ہوئے اپنی شام وسحر کرتے ہوے خود ساختہ طریقہ ہائے زندگی بسر کرتے ہوں ، اپنے حقیقی مالک کو چھوڑ کر کسی اور کی غلامی کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال چکے ہوں۔

انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرائیں کہ تم نے جو روش اختیار کررکھی ہے یہ خدا کے غضب کو دعوت دے رہی ہے، لہٰذا تم اپنی من مانی چھوڑ کر

سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ فون نمبر:9849099228 (۱) رب چاہی طریقہ حیات کو اپنا لو تو، اس میں تمہارا ہی بھلا ہے، تم دنیا کی ذلت ورسوائ سے بچ جائو گے

آخرت کی تمام بھلائیاں تمہارا مقدر بن جائیں گے۔ غرضیکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب اللہ کی طرف سے ڈرانے والا کوئی نبی و رسول آنے والے نہیں، کیونکہ قیامت تلک کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بابرکت کی لائی ہوئی تعلیمات اور آپ پر نازل کردہ کتاب قرآن حکیم ساری نوع انسانی کے لئے حرف آخر ہے اور آگے جو کوئی بھی خود ساختہ ؛ طبع زاد تعلیم لے کر اپنےکونبی ہونے کا دعویٰ لےکر اٹھتا ہے وہ قطعی طور پر بلا کسی شک وشبہ جھوٹا ہے !۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اپنی امت کو صراط مستقیم کی راہ بتلائی اور پورے ہمت و حوصلے کے ساتھ؛ اللہ کی بندگی سے آزاد ہوکر زندگی گزارنے والوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی ذات جو زمین و آسمان میں سب سے بڑی ’’اکبر‘‘ ہے اسی کی کبریائی ان کے سامنے رکھی تاکہ غافل لوگ اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے آگے سرنگوں ہوجائیں

اور عذاب الیم سے بچ جائیں، اس طرح یہ کام آپ کے بعد خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہج پر ساری دنیا میں اسے آگے بڑھایا اور بعد کے ادوار میں سلف صالحین و علماء امت نے اس کام کو اپنے اوپر لازم کرلیا اور ہر زمانے میں اللہ والے آتے رہے اور اپنے اپنے حصہ کا حق ادا کرتے رہے، غرضیکہ اللہ کی کبریائی کے نعرہ سے کوئی زمانہ خالی نہ رہا اور اللہ سے ڈرانے اور بشارت دینے والوں سے دنیا کبھی خالی نہ رہی۔

یہ اور بات ہے کہ اس نعرہ توحید و نعرہ تکبیر کو دبانے مٹانے،دنیا کے مختلف گوشوں میں نادان و ناواقف راہ یا خدا کے باغی و شریر انسانوں کی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا رہا ہے لیکن اسلام کا روشن چراغ ہمیشہ چمکتا رہا اور باطل پرست لوگوں کی پھونکوں سے بجھایا نہ جاسکا اور نہ یہ بجھے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اللہ ہی کی بڑائی قائم ہے اور قائم رہے گی۔ اگر انسان خود اپنی ساخت پر غور کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ وہ کتنا کمزور ہے، صحت کی تھوڑی سی خرابی اسے زمین پر لے آتی ہے، اور اسی طرح زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس پر غور و فکر کرے تو معلوم ہوجائے گا، یہ ایک عظیم کبیر ہستی ہی کی کاریگری ہے، لہٰذا وہ اس بات کو مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس ذات باری تعالیٰ ہی کو بڑا مانا جائے اور اسی کی بندگی کی جائے، اسی کے سامنے اپنا ماتھا ٹیکا جائے۔

غرضیکہ خدا سے غافل لوگوں کو جگانے کی ذمہ داری اب ہم پر عائد ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر امت بنایا ہے اور ہماری ڈیوٹی یہ بتلائی ہے کہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں، بری باتوں سے انہیں روکیں اور بحیثیت امتی{ نبی رحمت } ہم اپنا یہ مشن بنا لیں کہ غفلت میں پڑے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے آگاہ کردیں اسی کی بڑائ کی طرف متوجہ کریں، تاکہ اولاد آدم کا یہ سیلاب ٫ جہنم کا ایندھن بننے کے لیے بڑی برق رفتاری کے ساتھ جو آگے بڑھ رہا ہے، اسے روکنے کی مقدور بھر کوشش کی جائے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلے ہم خود عذاب الٰہی سے بچنے، دنیا و آخرت کی بھلائیاں تلاش کریں اور اس کے عین مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں، کیونکہ سب سے پہلے اپنی فکر آپ کرنا عقلمندی و دانائی ہے۔ جسے انفرادی اصلاح کہا جاتا ہے، پھر بہ توفیق الٰہی اپنے اطراف کے معاشرے کی اصلاح و سدھار کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی جو خیر امت کے لیے ضروری ہے۔

اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ ہماری تربیت یوں فرماتا ہے کہ ’’کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم (اللہ کی) کتاب پڑھتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘۔

اس طرح کے عمل کو اللہ تعالیٰ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے خبردار کرتا ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو۔ اللہ کے نزدیک بہت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے‘‘۔ (سورہ البقرہ و سورہ الصف)

نکاح کو آسان کیسے بنایا جائے

اللہ تعالیٰ کا ڈر (یعنی برے اعمال کے انجام بد سے ڈرنا) اور اس کی کبریائی و بڑائی کا احساس انسان کو راہ امن پر گامزن کرتا ہے، جس کی آخری منزل جنت ہے، اس طرح امت مسلمہ کو سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اس سلسلہ میں تاکید فرمائ گئ کہ ٫٫اے لوگو جو ایمان لاے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاو،، جس کے بغیر دوسروں کی اصلاح کا کام برکت سے خالی رہ جاتا ہے یا قرون اولیٰ میں زبردست و پُراثر نتائج جو ہم کو نظر آیا کرتے ہیں وہ اب ہماری موجودہ صورتحال میں عنقا و نایاب ہوجائیں گے۔

اس طرح ہم اولین طور پر فرد کی اصلاح یعنی مسلمانوں کی فکری و عملی ارتقاء کے لئے کوشاں رہیں اور دوسرے مرحلہ میں یا ساتھ ساتھ معاشرہ کی تعمیر کے لئے اخلاص کے ساتھ جدوجہد کریں، مختصر یہ کہ اللہ کا ڈر خوف اپنے اندر پیدا کرتے ہوئے اس کی بڑائی و کبریائی کو دل و دماغ پر حاوی کرلیں تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی طاقت کا مالک بنا دیتا ہے کہ پھر اس کے بعد دنیا کی بڑی سے بڑی قوت اس سے ٹکرا کر خود پاش پاش ہو جاتی ہے۔

رہے وہ لوگ جو خدا کی عظمت و بڑائی سے ناآشنا ہیں، دنیا میں ان کی بہت بڑی تعداد پائی جاتی ہے، انہیں اللہ تعالیٰ کا ڈر بتاکر راہ حق پر لانے کی کوشش کرنا بھی ہماراانتہائی اہم فریضہ ہے۔

یہ بات بھی ہمیں ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جو لوگ اللہ الٰہ واحد کی بندگی کی روحانی لذت اور جسمانی راحت سے ناواقف ہیں وہی لوگ دنیا میں اللہ کے حقیقی غلاموں سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں اور حد تو یہ ہوتی ہے کہ ان کی زندگی تنگ کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتے ہیں۔

آج ہم بھی اپنے اطراف میں یہی کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں ، روز کی اساس پر تجربات سے گزر بھی رہے ہیں، لیکن موجودہ جو صورتحال ہے اس کے ہم بھی ذمہ دار ہیں کہ ہم نے اپنے وطنی بھائیوں کو امن و سلامتی اور حق کا راستہ نہیں دکھایا، ان کے ساتھ سیاسی و گنگا جمنی دوستی رکھی

مگر ان اولاد آدم سے حقیقی محبت کا حق ادا نہیں کیا؛ یعنی انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ کر اپنے برادران وطن کو اس کے ثمرات سے مالا مال کیا لیکن انہیں خدا تعالیٰ بزرگ وبرتر کا غلام بناکر اس کی بندگی کی لذت سے روشناس نہیں کروایا، نہ دوزخ سے ڈرایا نہ جنت کی بشارت سنائی۔

خیر اب ہم اللہ کا نام لے کر اللہ ہی کی لئے اور اسی کی کبریائ بیان کرنے کھڑے ہوں گے تو یقینا اللہ کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے اندر سے مرعوبیت یا ظاہری طاقتوں کے آگے جھک جانے کے مرض سے نکلنا ہوگا۔

غیر الٰہی قوتیں بظاہر خوشنما نظر آرہی ہیں، ان کی تہذیب کو عروج حاصل ہوتے دیکھا جارہا ہے، اقتدار کی کنجیاں ان ہی کے ہاتھ میں نظر آرہی ہیں، ہر طرف ان کا ڈنکا بجتے دیکھا جاسکتا ہے، ان ساری چیزوں کو خاطر میں لائے بغیر اللہ کی مرضی کا کام کرنے کھڑے ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر بن جائے گا۔
ملت کو بیدار کرنے موجودہ ڈر و خوف کے ماحول سے باہر نکالنے ’’قُمْ فَأَنذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ‘‘ اٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو والے”قرآنی“ حکم پر عمل کرتے ہوے‘‘

لوگوں کو ان کی ذمہ داری کی طرف متوجہ کریں تاکہ ملک میں امن و امان کی فضاء قائم ہو نفرتوں اور کدورتوں کو الفتوں میں تبدیل کرنے رائے عامہ ہموار کی جاے۔ یہ بات بھی ضروری ہیکہ ملت اسلامیہ کو ان کی کوتاہیوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے نفسانی خواہشات پر مبنی شیطانی رسم و رواج سے بچنے اسراف سے اجتناب کرنے کی ترغیب دلائیں ،

ایسے نازک حالات میں تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اعمال کی اصلاح کی طرف توجہ دے تاکہ خدا تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائے اور ہم پر رحم و کرم کا معاملہ فرماتے ہوئے حالات حاضرہ کو شر اور فساد سے نکال کر٫ امن امان میں بدل دے۔ اس سلسلہ میں علمائے کرام کا بھی بہت اہم کردار ہونا چاہیے

کیوں کہ آج بھی وارث انبیاء کی بہت قدر کی جاتی ہے، وہ بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، انفرادی و اجتماعی ہر طور پر اپنا تعاون پیش فرمائیں۔ دوسری طرف تمام ائمہ کرام و متولیان مساجد بھی اپنے اپنے طور پر خطبات جمعہ و دیگر مواعظ کے موقع پر ملت کے اندر سے ڈر خوف کے ماحول کو دور کرنے کی پر امن و صالح کوشش کریں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوہ اور آپ کی سنت ہمیشہ ہمارے سامنے رہنی چاہیے کہ جس وقت سورہ مدثر نازل ہوئی جس کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فرما دیا کہ قُمْ فَأَنذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔ تو آپؐ نے اس دنیا سے رخصت ہونے تک اس پر عامل رہے۔ حاصل کلام یہ کہ ہم نے اپنے ملک عزیز ہندوستان کی باگ ڈور امن پسند ہاتھوں میں دینے کے لیے موجودہ انتخابات کے دوران مقدور بھر کوشش کی اور اللہ سے امید ہیکہ وہ ہمارے ملک کی حفاظت فرماکر اسے امن وامان کا گہوارہ بناے رکھے گا۔

لیکن۔۔۔۔۔! ہم اپنے ملک میں جہاں بھی رہیں ایک ساے دار درخت کی طرح رہیں اسکے لیے نفرت کی بیخ کنی اور الفت کے فروغ کے لیے سخت محنت کرنی پڑے گی ۔ بحیثیت خیر امت اپنا فریضہ ادا کرنا پڑے گا تاکہ مالک الملک کی بڑائی وکبریائ کا دنیا میں ہرطرف ڈنکا بجے ؛ کیونکہ لوگ جب اپنے پیدا کرنے والے کی بڑائ کبریائ تسلیم کرلے تو دھرتی پرحکو مت کرنے کے لیے ان کے درمیان نہ رسہ کشی ہوگی نہ رشوت ولالچ کا بازار گرم ہوگا ااور نہ دھاندلی سے کام لیا جاے گا۔

اک شجر ایسامحبت کا لگایا جاے

جس کاہمساےکے آنگن میں سایا جاے

محمد عبدالحفیظ اسلامی

سینئر کالم نگارو آزاد صحافی

فون نمبر:9849099228 

حج بیت اللہ کرنا بہت بڑی سعادت ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *