امن و سلامتی کا شہر
امن و سلامتی کا شہر : ٫،مکہ مکرمہ کے حدود٫، (حجاج کرام کی خدمت میں)
مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
ایک روایت کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے ہی میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حرم کے حدود پر کھڑا فرماکر وہاں نشانی کے طور پر پتھر نصب کروادیا۔
اس طرح حدود کی حد بندی کے کام کا شرف حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہوا اور فتح مکہ کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے تمیم بن اسد الخزاعی کو اس کام کی تجدید کے لیے ذمہ داری عطا فرمائی اور انھوں نے اسے کمال درجہ کی خوبی کے ساتھ انجام دیا۔ علاوہ ازیں بعد کے ادوار میں بھی حسب موقع، وقتاً فوقتاً مسلم حکمراں، خلفا اور صاحب اثر لوگ اور بھی کئی جگہ حرم کی حد بندی کے لیے علامات قائم کرتے رہے۔
اس طرح حرم کا ایک دائرہ بنادیا گیا تاکہ لوگوں کے لئے جائے امن ہوجائے اور یہ پورا رقبہ حرمت والا قرار دیا گیا اور اس کی حرمت قیامت تک کے لیے ہے۔ہم سب سے پہلے ’’تنعیم‘‘ جو حدود حرم میں سب سے نزدیک، حدِّ حرم ہے کو لیتے ہیں۔ یہ ایک عظیم یادگار ہے جو مکہ سے صرف 7½ کیلو میٹر پر مسجد حرام کے شمال کی جانب مدینہ روڈ پر واقع ہے۔
یہاں پر اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ حرم کے اس حد پر جہاں اب مسجد عائشہؓ بنادی گئی ہے، یہ اہل حرم کے لئے صرف عمرہ کا احرام باندھنے کی سب سے قریب ’’حد‘‘ ہے۔ ’’اہل حرم‘‘ وہ لوگ کہلاتے ہیں جو مکہ مکرمہ میں مستقل یا عارضی طور پر قیام کئے ہوئے ہوں اور اسی طرح وہ لوگ بھی اہل حرم میں شمار کئے جاتے ہیں جو اندرون حرم رہتے ہوں۔
لہٰذ یہ حضرات حج کے لیے اپنا احرام اپنی رہائش گاہ سے باندھیں گے۔ البتہ مذکورہ اہل حرم کو اگر عمرہ کرنا ہو تو انھیں حدود حرم کی کسی بھی حد پر جاکر احرام باندھنا پڑتا ہے۔ یہاں یہ تحریر کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے جو عازمین حج و عمرہ کے معلومات میں اضافہ کا باعث ہے۔
تنعیم کو جو شہرت ملی اور عالم اسلام میں عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کی دو وجوہ ہیں، پہلا یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حرم مکی کے حدود کی تجدید فرمائی (جس میں تنعیم بھی ایک ’’حد‘‘ حرم ہے)دوسرا یہ کہ اس مقام پر اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے نام سے ایک مسجد بنادی گئی۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ ایام عذر میں تھیں کہ آپؐ نے سارے ارکان و مناسک حج ادا کئے، صرف طواف نہ کرسکیں۔
جب عذر جاتا رہا تب آپؐ نے طواف کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم آپ نے حج و عمرہ دونوں فرمائے اور میں صرف حج ہی کرسکی؟
تب آپ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے بھائی عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اپنی ہمشیرہ کے ساتھ تنعیم جائو چنانچہ آپؐ وہاں (تنعیم) تشریف لے گئیں اور ماہ ذی الحجہ ہی میں عمرہ ادا فرمایا۔ (صحیح بخاری، کتاب الحج حدیث نمبر 1785)یہ واقعہ حج وداع کے موقع پر سنہ ۹ ہجری میں ہوا اور وہاں پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے نیت احرام کی تھیں اور بعد کے
دنوں میں محمد بن علی شافعی نے مسجد تعمیر کی۔ اس طرح اب یہ مسجد قیامت تک کے لیے اماں جان صاحبہ حضرت عائشہؓ کی ایک عظیم یادگار ہے۔
اس مسجد تنعیم کے شمال کی جانب چند سو قدم پر حضرت خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت گاہ ہے۔ سنہ ۴ ہجری کا یہ واقعہ جس میں سات افراد پر مشتمل صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی جماعت کو قبیلہ بنو لحیان کے لوگوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے قبیلے کے لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے روانہ فرمایا۔
جب یہ جماعت رجیع کے مقام پر پہنچی تو بنی لحیان کے لوگوں نے ان حضرات صحابہؓ میں سے پانچ کو تو شہید کردیا، اور باقی جو صحابہ بچ گئے تھے جن میں حضرت خبیب رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن دشنہ رضی اللہ عنہ کو قید کرکے مکہ والوں کے ہاتھ فروخت کردیا اور ان دشمنان اسلام نے جانثاران محمد ؐکو بھی، اب جہاں مسجد تنعیم ہے اس کے آگے شمال کی جانب کچھ فاصلہ پر شہید کردیا۔
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے شہادت پیش کرنے سے قبل دو رکعت نماز ادا کی اور اسلام کے نغمے گاکر اپنی جان کو راہِ خدا میں قربان کردیا۔’’مسجد جعرانہ‘‘ حرم سے شمال مشرقی جانب واقع ہے اور اس کا فاصلہ مسجد حرام سے 22 کیلو میٹر ہے۔ یہاں پر بھی اہل مکہ عمرہ کے لئے احرام باندھتے ہیں۔
جعرانہ وہ مقام ہے جہاں پر قبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون رہا کرتی تھی جس کا نام ریطہ اور لقب جعرانہ تھا۔
یہ خاتون عقل و دانائی سے محروم تھیں۔ یہ خاتون دن بھر محنت و مشقت کے ساتھ روئی سے دھاگا نکالتی پھر اسے توڑ دیتی، پارہ پارہ کر ڈالتی، جس کی مثال اللہ نے سورہ النحل آیت 92 میں دی ہے۔ (ترجمہ) : تمہاری حالت اس عورت کی سی نہ ہوجائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مطابق یہ آیت اسی عورت کی طرف اشارہ ہے۔یہاں یہ بات بھی تحریر کردینا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم فتح مکہ کے سال ۸ ہجری میں غزوہ حنین کے بعد واپسی کے دوران جعرانہ میں چند یوم قیام فرمایا اور مالِ غنیمت کی تقسیم کے بعد مدینہ طیبہ واپسی سے قبل آپ نے شب کی ساعتوں میں عمرہ کا احرام باندھا اور عمرہ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اسی رات مدینہ منورہ کی طرف نکل چلنے کا حکم فرمایا۔
اس طرح اب وہاں پر ایک یادگار کے طور پر مسجد جعرانہ بنادی گئی جس میں ایک ہزار آدمی نماز ادا کرسکتے ہیں۔اسی طرح حرم سے مغرب کی جانب کی حد ’’حدیبیہ‘‘ ہے جو 22 کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔
اس مقام کو عرف عام میں شمسی کہا جاتا ہے۔ یہ مقام بھی اسلامی تاریخ میں اہم ہے جہاں پر صلح حدیبیہ ہوئی اور اس صلح کے بعد اسلام کو تیزی کے ساتھ سارے عرب میں پھیلنے کی راہیں ہموار ہوئیں اور مشرکین مکہ کی ساری مکاریاں اور ہوشیاریاں خاک میں مل گئیں۔ اس مقام کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے معجزات کے ظہور ہونے کا شرف حاصل ہے۔
ایک یہ کہ خشک کنویں سے پانی کا نکلتا، دوسرا یہ کہ آپؐ کے دست مبارکہ کی انگلیوں سے پانی کے چشموں کا اْبل پڑنا۔ اگرچہ کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرامؓ کی تعداد 1500 پندرہ سو تھی لیکن دیکھنے والے یہ دیکھ رہے تھے کہ اگر ان کی تعداد ایک لاکھ بھی ہوتی تو سب کے وضو بنانے اور پینے کیلئے کافی سے زیادہ پانی دستیاب ہورہا تھا۔
اس سلسلہ میں ولی نے بہت خوب فرمایا ہے۔ان کا ہر معجزہ ایسا بھاری ہوا، جس سے باطل پہ ایک لرزہ طاری ہوا۔ ان کی انگشت سے چشمہ جاری ہوا۔ سرور انبیاء کی عجب شان ہے۔ ’’نخلہ‘‘ حرم شریف کے شمال مشرقی جانب 13 کیلو میٹر کے فاصلہ پر حرم مکہ کی حد پر واقع ہے اور یہ طائف اور مکہ کے درمیان میں پڑتا ہے۔
اسلامی تاریخ کے حوالے سے یہ مقام ’’نخلہ‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے، ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مقام نخلہ میں اپنے صحابہؓ کے ساتھ صبح کی نماز ادا فرمارہے تھے کہ اس طرف سے جنات کا گزر ہوا اور ان جنوں نے قرآن مجید کی تلاوت پر غور کیا اور دل جمعی کے ساتھ سنا تو مسلمان ہوگئے اور اپنی قوم کی طرف لوٹتے ہی انھوں نے قرآن مجید کے متعلق جو کچھ کہا وہ سورہ الجن کی آیت1 تا 2 میں موجود ہے یعنی انھوں نے اس قرآن کی دعوت کو اپنی قوم کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا : فَقَالْواِنَّا سَمِعنَا قُرآناً عَجَباً یَہدِیہ ِالَی الرّْشدِ فَآمَنَّا بِہِ وَلَن نّْشرِکَ بِرَبِّنَا اَحَداً ’’ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہ نمائی کرتا ہے اس لیے ہم اْس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے‘‘۔’’اضا لبن‘‘ (موجودہ نام)
’’عقیشیہ‘‘ یہ حد حرم جانب جنوب ہے اور اس کا فاصلہ حرم شریف سے 16 کیلو میٹر ہے۔ اسے اضا لبن اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ایک جھیل نما مقام ہے اور لبن کہتے ہیں دودھ کو اور اس کے نزدیک جو پہاڑ ہے وہ سفیدی مائل ہے اور اس کا عقیشیہ نام اس لئے ہے کہ عقیش نامی ایک شخص نویں ہجری میں اس علاقہ کا مالک تھا۔٭٭٭
مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔
9849099228
اللہ کی خاطر، ناصرِ دین رحمت بن جاؤ