علما اور مبلغین کے مقامی ہونے کی اہمیت و افادیت

Spread the love

علما اور مبلغین کے مقامی ہونے کی اہمیت و افادیت

تحریر محمد زاہد علی مرکزی

چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ

تبلیغ دین نہایت اہم فریضہ ہے جس کے متعلق رب العزت قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo

(آل عمران، 3/ 104)

ترجمہ : اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں۔

آج کل علما کو کیسی کیسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ ظاہر ہے، ساری مشقتیں برداشت کرنے والے علما و دعاۃ کے لیے وہ مرحلہ بڑی تکلیف اور شش و پنج کا ہوتا ہے جب ان کی زبان پر کنٹرول کی بات آتی ہے، ویسے تو وہ کافی کچھ برداشت کر ہی رہے ہوتے ہیں

اور وہ اسی لیے ہوتا ہے کہ کسی طرح دین کا کام ہوتا رہے، کچھ نہ سہی لوگوں کے عقائد کی حفاظت ہی ہوتی رہے یہی بڑ بات ہے – ان کی مساعیِ جاں سوز سے کوئی ایک بھی ہدایت پا گیا تو بقول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ ان کے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے ۔

عرب ممالک میں ائمہ کو ہر جمعہ، عیدین اور دیگر اہم مواقع پر سرکاری خطبہ دیا جاتا ہے اور سختی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ آپ کو بولنے کا اختیار نہیں ورنہ جیل کی سلاخیں آپ کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں – وہاں یہ کام معلنہ ہے اور انڈیا میں غیر معلنہ –

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ انڈیا میں تو کوئی ایسا سرکاری حکم نہیں ہے، جی ہاں! یہاں حکومتی حکم تو نہیں ہے لیکن ہماری مساجد کے متولیان اور صدور کے ذریعے ایسا ہی حکم ہوتا ہے، بسا اوقات حکومتی فرامین کو اظہار رائے کی آزادی اور پرسنل لا میں مداخلت سے جوڑتے ہوے ہم مخالفت بھی کر لیتے ہیں لیکن مساجد میں ایسا کچھ نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہاں کے حاکم یہی ٹرسٹی ہیں –

امام اگر چاہے کے وہ سیاست پر بول دے اگلے ہی دن بوریا بسترا بندھ جاتا ہے، یوں ہی بہت سی سنی مساجد میں ائمہ کو صاف کہا جاتا ہے کہ یہاں “سنی وہابی” نہیں کرنا، بہت سے مقامات پر مساجد سے منسلک خاص افراد جن غیر شرعی کاموں میں ملوث ہوں ان پر زبان بند رکھنے کا حکم ہوتا ہے جیسے جوا، شراب، سٹا، سود وغیرہ وغیرہ

سیاست دین کی اساس ہے اور اسی پر سخت ” زبان بندی ” ہے، چلیے اسے بھی چھوڑ دیجیے ہمارا عقیدہ تو ہمارے لیے اہم ہے لیکن وہاں بھی یہ حکم کہ “سنی وہابی” نہیں کرنا بتائیے کہاں کا انصاف ہے؟

– جب کہ دوسری جانب وہابیوں کی مساجد میں مکمل آزادی ہوتی ہے کہ آپ اپنا موقف کھل کر بیان کریے اور وہ کرتے بھی ہیں، اب اگر ہم اپنی مساجد میں بھی اپنا موقف بیان نہ کریں تو پھر وہ ہماری مسجد کتنے فیصد ہے اور کیوں ہے ؟

ہاں انداز مہذب اور زبان و بیان بہتر ہونا چاہیے – یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سنی مساجد میں آنے والے وہابیہ کی تعداد نا کے برابر ہوتی ہے لیکن ان کے ناراض ہونے کا ڈر ہمارے لوگوں میں ایسا ہوتا ہے جیسے سب کچھ انھیں کے حکم سے ہوتا ہو –

علما، ائمہ پر کہیں سود، جوا، شراب پر بولنے پر پابندی عائد ہے تو کہیں عقائد پر، کہیے یہ امام کی “زبان بندی” ہے یا نہیں؟ ایسے میں امام کیا تبلیغ کرے اور کیسے کرے؟۔

انفرادی راستے ہیں لیکن وہ تو مقامی لوگوں تک محدود، جمعہ و عیدین میں لوگ دور دراز سے آتے ہیں اور وہاں آنے والے سنیوں کے لیے امام کا بیان عقیدے کی درستگی کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے، یہاں امام ایک ہی وقت میں سیکڑوں، ہزاروں افراد تک اپنی بات پہنچا سکتا ہے، اتنے اہم پلیٹ فارم کو ہم نے چند لوگوں کی رضا کے لیے قربان کر دیا ہے ۔

 

بدلاؤ کی تدبیریں

یہ مذکورہ باتیں آپ اپنے ارد گرد آئے دن دیکھتے ہی رہتے ہونگے اس لیے اب ہم تدابیر کی طرف چلتے ہیں تاکہ ان پریشانیوں سے نجات پائی جا سکے

(1) جب تک لوگ خود نہیں بدلنا چاہیں گے تب تک کہیں بھی انقلاب کی امید نہیں کی جاسکتی، لہذا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ مساجد میں نیک لوگوں کو متولی صدر، ممبر بنایا جائے، نیک لوگوں سے مراد واقعی میں نیک لوگ ہیں وہ پنج وقتہ بھائی ٹائپ لوگ نہیں جنھیں لوگ ڈر کر نیک سمجھنے لگتے ہیں- ان کی انٹری اکثر ایسے معاملات کی بنا پر ہوتی ہے جس میں عام آدمی پڑنا نہیں چاہتا، پھر چند لوگوں کو لگتا ہے کہ یہی شخص متولی یا صدر بنانے کے لائق ہے

بس یہ ایک لمحے کی غلطی صدیوں پر بھاری پڑ جاتی ہے، پھر کون ہے جو انھیں مساجد سے دور کر سکے، پھر موروثیت جاری رہتی ہے اور مساجد کا نظام انھیں بھائی ٹائپ لوگوں کی کرم فرمائیوں سے بگڑا رہتا ہے – بسا اوقات ایسے لوگوں کے ہاتھ مسجد سونپ دی جاتی ہے جو صرف آٹھ کی، کھاٹ کی، اور تین سو ساٹھ کی پڑھتے ہیں – (آٹھ یعنی جمعہ، کھاٹ یعنی جنازہ اور تین سو ساٹھ، عیدین)

(2) دوسرے نمبر پر جو چیز مجھے سمجھ آتی ہے شاید آپ کو بھی سمجھ آئے وہ ہے ائمہ و دعاۃ کا مقامی ہونا، اگر امام قابل ہے تو مقامی امام کو ترجیح دیں، اس کے دو فائدے ہونگے پہلا امام رعب و دبدبہ کے ساتھ وہ سب کچھ کرے گا /بولے گا جو اسے بولنا /کرنا چاہیے، ہر ایک اسے ڈرا دھمکا نہیں سکے گا – دوسرا علما دور دراز کے سفر سے بچ جائیں گے جس میں فی زمانہ جان کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔

مقامی ہونے کا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بسا اوقات وہ لوگوں کو برائی سے ہاتھ پکڑ کر روک سکتا ہے، حق بات بولنے پر اگر اسے کچھ لوگ پریشان کرتے ہیں تو اس کے لیے اس کے خاندان کے افراد موجود ہیں جو ہر صورت اس کا ساتھ دیں گے ۔

بیرونی امام کو بظاہر تو بہت حمایت ملتی ہے لیکن جب معاملہ کوئی بڑا ہوتا ہے تو پھر سب پیچھے ہٹ جاتے ہیں، دوچار لوگ ساتھ دیتے بھی ہیں تو ان کے خاندان کے لوگ یہ کہہ کر خاموش کرا دیتے ہیں کہ جب سارا محلہ، گاؤں خاموش ہے تو تم کیوں بول رہے ہو؟

باہر سے آنے والے امام کو ہر ایک اپنے حساب سے استعمال کرنا چاہتا ہے جب کہ مقامی آدمی کے ساتھ ایسا کم ہوتا ہے – باہر سے آنے والے امام کے ساتھ یہ معاملہ بھی آسان ہوتا ہے کہ کمیٹی جب چاہتی ہے اسے نکال دیتی ہے اور لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں –

ہم نے بہت سے ساتھ دینے والوں کو دیکھا، مگر جب امام کو نکالا گیا تو وہی ساتھ دینے والے ایک دن بھی امام کو اپنے گھر نہ رکھ سکے

اب ہم قرآن مقدس سے کچھ مثالیں پیش کرتے ہیں تاکہ مقامی ہونے کی اہمیت مزید اجاگر ہو جائے ۔

حضرت شعیب علیہ السلام کے مقامی ہونے کا اثر

رب قدیر سورہ ھود میں فرماتا ہے

قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًاۚ-وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ٘-وَ مَاۤ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍ(91) قَالَ یٰقَوْمِ اَرَهْطِیْۤ اَعَزُّ عَلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اتَّخَذْتُمُوْهُ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِیًّاؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ(92)

ترجمہ: بولے اے شعیب! ہماری سمجھ میں تمہاری بہت سی باتیں نہیں آتیں اور بےشک ہم تمہیں اپنے میں کمزور دیکھتے ہیں اور اگر تمہارا کنبہ(خاندان) نہ ہوتا تو ہم نے تم پر پتھراؤ کردیا ہوتا اور ہماری نگاہ میں تمہاری کوئی عزت نہیں – شعیب نے فرمایا: اے میری قوم ! کیا تم پر میرے قبیلے کا دباؤ اللہ سے زیادہ ہے اور اسے تم نے اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال رکھا ہے بیشک میرا رب تمہارے تمام اعمال کو گھیرے ہوئے ہے۔

اس کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ جب مدین والوں پر حضرت شعیب علیہ السلام نے پیغام توحید پیش کیا اور ان کو غلط کاموں سے روکا تو وہ آپ کے دشمن ہو گئے اور قتل کی دھمکی دینے لگے اور بولے کہ ہم صرف آپ کے قبیلے کی وجہ سے آپ کو تکلیف نہیں پہنچا رہے،

اس پر آپ نے انہیں جواب دیا ’’اے میری قوم! کیا تم پر میرے قبیلے کا دباؤ اللہ تعالیٰ سے ز یادہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے تو تم میرے قتل سے باز نہ رہے جبکہ میرے قبیلے کی وجہ سے باز رہے – تم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی کا تو احترام نہ کیا جبکہ قبیلے کا احترام کیا۔ تم نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم کو اپنی پیٹھ پیچھے ڈال رکھا ہے اور اس کے حکم کی تمہیں کوئی پرواہ نہیں۔

دیکھیے اہل مدین کو کس کا خوف تھا ؟ حضرت شعیب علیہ السلام کے خاندان اور قبیلے کا، یہ مقامی ہونے کا فائدہ ہے، مبلغ مقامی ہوگا تو وہ اپنی بات مضبوطی کے ساتھ رکھ سکے گا

حضرت موسی علیہ السلام کی بھائی کے ذریعے مدد

قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ وَ نَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْكُمَاۚۛ-بِاٰیٰتِنَاۤۚۛ-اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ(35) ترجمہ: کنزالایمان

فرمایا قریب ہے کہ ہم تیرے بازو کو تیرے بھائی سے قوت دیں گے اور تم دونوں کو غلبہ عطا فرمائیں گے تو وہ تم دونوں کا کچھ نقصان نہ کرسکیں گے ہماری نشانیوں کے سبب، تم دونوں اور جو تمہاری پیروی کریں گے غالب آؤ گے یہاں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے ذیعے قوت بخشی

نبی کریم علیہ السلام کے مقامی ہونے کا اثر

نبی کریم علیہ السلام کی حفاظت اللہ رب العزت نے اپنے ذمہ کرم پر لے رکھی تھی – ڈرنے، جُھکنے جیسی کوئی چیز تصور بھی نہیں کی جاسکتی، لیکن آپ کی حیات طیبہ کو بطور داعی دیکھیے تو آپ پائیں گے کہ ایک طرف سارا مکہ مخالف ہے، کسی صورت آپ کو مکہ میں نہیں دیکھنا چاہتا

وہیں دوسری طرف آپ تنہا ہیں، ایسے میں آپ کا مکہ مکرمہ میں تبلیغ کرنا کس قدر مشکل امر تھا یہ بتانے کی ضرورت نہیں، ایسی صورت میں اگر تبلیغ کے تھوڑے بہت راستے کھلے ہوئے تھے تو اس میں خاندان اور قبیلے کا خوف ضرور تھا ۔

دسیوں بار قریش اکٹھا ہوکر ابو طالب کے پاس پہنچے کہ یا تو آپ اپنے بھتیجے سے دست بردار ہو جائیں یا سمجھا لیں، ہر بار ابو طالب قریش کا مطالبہ مسترد کردیتے، اور اہل مکہ سر پیٹ کر رہ جاتے، اس دوران آقا علیہ السلام کی تبلیغ جاری رہی، پھر زمانہ آیا بائیکاٹ کا اس عوامی بائیکاٹ میں شعب ابی طالب کی تین سالہ مدت نہایت تکلیف دہ رہی، اس گھاٹی میں آقا علیہ السلام کے ساتھ خاندانی حمیت میں وہ لوگ بھی محصور ہوگیے جو ابھی تک مسلمان نہ ہوے تھے، یہ سب کیوں؟

صرف اس لیے کہ آپ مقامی تھے اور یہاں آپ کے چچا، بھائی، بھتیجے، خاندان اور قبیلہ والے موجود تھے

حضرت حمزہ کا ابو جہل کا سر پھوڑنا

ہمارے پیارے نبی کریم علیہ السلام دین کی تبلیغ فرماتے رہتے تھے اسی سے چڑھ کر ایک دن ابو جہل نے اکیلا پاکر آپ کو بہت الٹا سیدھا کہا، آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، آپ صبح شکار کے لیے نکل جاتے اور شام کو واپس آتے، حسب معمول جب ایک روز گھر آئے تو معلوم ہوا کہ ابو جہل نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تنگ کیا ہے، آپ جس حالت میں تھے اسی حالت میں تیر کمان لیے ہوے خانہ کعبہ پہنچے، اور ابو جہل کو تلاش کرکے اس کے سر پر

کمان ماری جس سے اس کا سر پھٹ گیا، اور فرمایا کہ تیری ہمت کیسے ہوئی کہ تو میرے بھتیجے کو تنگ کرے – ابو جہل کے طرف دار بھی آگے بڑھے لیکن ابو جہل نے انھیں روک دیا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اگر معاملہ بڑھا تو پھر دونوں طرف کے لوگ شامل ہوں گے اور بڑی لڑائی کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے اس نے یہ کہہ کر انھیں روک دیا کہ تم لوگ دور رہو واقعی میں آج مجھ سے زیادتی ہوئی ہے اور یہیں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان بھی فرما دیا

مذکورہ چند مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مقامی علما، مبلغین اپنی بات رکھنے میں بیرونی کے مقابل زیادہ اثر دار ثابت ہو سکتے ہیں اس لیے عوام کو بھی چاہیے کہ وہ مقامی علما میں سے بہتر شخص کا انتخاب کریں تاکہ کام بھی بہتر ہو اور بیرونی علما کے ساتھ ہونے والے حادثات بھی نہ ہوں

چند روز قبل آسام میں ایک قابل عالم دین کو ایک بد بخت نے محض اس لیے شہید کر دیا کہ انھوں نے طلاق کے بعد بغیر حلالہ نکاح پڑھانے سے منع کر دیا تھا، اس حرام کاری کو کوئی عالم دین کیسے جائز کر سکتا ہے؟ اس کا بدلا انھیں جان دے کر چکانا پڑا

اللہ رب العزت حاسدوں کے حسد، شریروں کے شر سے علمائے اہل سنت کی حفاظت فرمائے – آمین ثم آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *