مسلمانوں کی ترقی و خوش حالی کا راز
مسلمانوں کی ترقی و خوش حالی کا راز
افتخاراحمدقادری برکاتی
یہ وقت کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ علم کے ہر شعبے کو اپنے فیضانِ شعور سے مالامال کرنے والی قوم، فکر کے ہر افق پر اپنی برتری کا جھنڈا گاڑ دینے والی ملت آج اپنی علمی و دینی پہچان کے لیے حیران و پریشان ہے- ہمیں یہ کبھی نہیں بھولتا چاہیے کہ آج دنیا میں جتنے بھی علوم و فنون کا سکہ کھنک رہا ہے وہ سب کا سب سر چشمہ کتاب و حکمت کا قطرہ ہے- اس خزینہ علم وآگہی کو اپنا کر گمنام قومیں نمایاں ہوگئیں، اور ہم غافل ہوکر گمنامی کی ظلمت میں ڈوبتے چلے گیے- وہ بھی کوئی ترقی ہے کہ دولت کی ریل پیل ہو، جن کی شادیوں میں تعلیم سے زیادہ خرچ ہوتا ہو اور ضروریات دین کی خبر تک نہ ہو، مسلمانوں کی ترقی و خوش حالی کا راز علم دین کی ترقی و خوشحالی میں مضمر ہے-
تاریخ شاہد ہے کہ وہی دور، دور زریں کہلایا ہے جس دور میں علی گھر گھر من و سلویٰ کی طرح برستا تھا- جب علم سے مسلمانوں کا سینہ معمور تھا تو عمل کے جذبے سے روح مست تھی، جب علم سے دوری ہوئی تو بد عملی نے اپنے سنگین پنجے میں قوم و ملت کو جکڑ لیا- یہ ہماری کمزوری ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے متاعِ دین پر ٹیڑھی ترچھی نظریں اٹھ رہی ہیں- معاشی نظریہ جسے آج خوشحالی کی کلید سمجھا جاتا ہے یہ 1990 عیسوی کے بعد وجود میں آیا، امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی کی پیش بینی دیکھیے کہ اُنہوں نے 1912 عیسوی ہی میں نظریہ روزگار و خوشحالی پیش فرما دیا تھا، آپ کی کتاب،، تدبیر نجات و فلاح و اصلاح،، اس کتاب میں قوم مسلم کی ترقی و کامیابی کے چارنکاتی فارمولہ آپ نے پیش فرمایا- اس کے چوتھے نمبر پر علم دین کی ترویج و اشاعت کو آپ نے رکھا ہے تاکہ مسلمان ترقی بھی کرے تو دینی اصول و تعلیمات کے اجالے میں کرے، مسلمانوں کے سامنے ہر وقت احکامِ الٰہیہ وسنت مصطفویہ کی چاندنی جلوہ ریز رہے، خوف خدا و عشق مصطفیٰ سے فرد، جماعت، گرد و پیش لبریز رہیں، یہ چار نکاتی فارمولہ اگر آج بھی مسلمان اپنا لیں توکسی اور فارمولے کی انہیں ضرورت نہیں پڑے گی، ان کی شخصیت خود ایک ایسا فارمولہ بن جائے گی کہ زمانہ اس فارمولے سے اکتساب فیض کرے گا- بڑوں کے نقوشِ فکر سے آنکھیں موند نے کا یہ صلہ ہے کہ آج لوگ اپنے مدہم و مبہم نقوشِ فکر کو منوانے کے لیے آنکھیں دکھا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ اپنے نقوشِ گم شدہ کی جلوہ آرائی کے بجائے انجمن آرائی میں لگے ہوئے ہیں، ایسے حالات میں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے مدارس کی سلامتی کی فکر کریں، اصل میں یہی دین کے قلعے ہیں جنہیں موجودہ حکومت میں بچانے کی ضرورت ہے- ابھی ایک اخبار میں خبر پڑھی کہ آسام میں اب تک کئی سو مدارس کو نیست و نابود کر دیا گیا ہے اس لیے ان مدارس کی سلامتی کے لیے مسلمانوں کو لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے- کیونکہ مذہبِ اِسلام کے احیاء اور تبلیغ و توسیع میں مدارسِ اسلامیہ کا قرنا بعد قرن بنیادی رول نظر آتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ مسجد نبوی کے صحن میں جس چبوترے کو معلم کائنات صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے عالمی جامعہ ہونے کا شرف بخشا تھا، سبھی دینی مدارس اسی کی کہیں جگمگاتی اور کہیں جھلملاتی کرنیں ہیں، یہی بات مذہب اسلام کے دشمنوں کو کھٹک رہی ہے کہ اتنا طویل زمانہ گزر گیا، اس عرصہ دراز میں کتنے ادیان و مذاہب میں تبدیلی آگئی، کتنے دھرموں کا چراغ گل ہوگیا، مگر مذہب اسلام ہے کہ جیسا روز اول تھا ویسا ہی آج بھی ہے- یاد رہے کہ اس کی ہریالی و سرسبزی یونہی نہیں ہے، اس کے جلوؤں کی تازگی و نیرنگی کے لیے اس کے جیالے سپوتوں نے جو، جوکھم اُٹھائے ہیں وہ اس قوم کے جزبہ دینی و ایمانی کا انوکھا باب ہے- اور آج بھی تیر ملامت کا ہدف خود بننا مگر اسلام کے چہرے پر گرد ملال نہ آنے دینا، یہ صرف اسی قوم کا حصہ و خاصہ ہے، اسی جذبے کی آنچ کو سرد کرنے کی عالمی سطح پر تدبیریں سوچی جارہی ہیں، لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ یہ جذبہ ایمانی جب تک سلامت رہے گا مذہبِ اسلام پھیلتا، پھولتا رہے گا، قوم ہری بھری رہے گی، لہٰذا اس جذبے کی شہ رگ کاٹ دو، قوم خود بخود مر جائے گی، محبت و جانبازی کی یہ لہر جہاں سے اٹھتی ہے اسی منبع کا نام مدارسِ اسلامیہ ہے-
. کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت، مغربی اتر پردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com