نوزائدہ سیاسی متحدہ محاذ

Spread the love

نوزائدہ سیاسی متحدہ محاذ

مسئلہ کسی ایک فرقے ، مذہب، ذات ،یا گروہ کا نہیں ، بلکہ ملک میں جہوریت کی سلامتی وبقا کا ہے

ڈاکٹر غلام زرقانی

چیئر مین حجاز فاؤنڈیشن ، امریکا

گذشتہ آٹھ نو سالوں سے جو صدائیں ملک کے گوشے گوشے سے آرہی تھیں، وہ بالآخر پیکر محسوس میں ڈھل کر زمینی سطح پر دکھائی دے رہی ہیں ۔

ارباب حل وعقد بار بار کہہ رہے تھے کہ ملک میں جمہوریت کی سلامتی وتحفظ کے لیے اپنے آپ کو سیکولر سمجھنے یا کہنے والی سیاسی پارٹیوں کو باہم متحدہونا ہوگا، ورنہ حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے ۔

تاہم ، دیر سے ہی سہی ، اب کہیں جاکر افق سیاست پر گرم جوشی کی کرن طلوع ہوسکی ہے ۔

ویسے نوتشکیل شدہ محاذ سے بہت زیادہ امید توہمیں بھی نہیں ہے ، لیکن اس قدر امید ضرور ہے کہ حالات جیسے ہیں ، ویسے نہیں رہیں گے اور میرے خیال میں یہ بھی کسی حدتک غنیمت ہے ۔

نئی نسل نے جمہوریت اور غیر جمہوریت میں فرق اپنے ماتھے کی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے ، اس لیے شاید وہ حالات کی سنگینی کا کما حقہ ادراک نہ کرسکیں

لیکن وہ لوگ جنھوں نے کسی ایسے ملک میں شب وروز گزارے ہیں ، جہاں ڈکٹیٹرشب ہے ، یا جمہوریت نام کو ہے ، وہ بہتر بتاسکتے ہیں کہ جب زبان کھولنے ، قلم اٹھانے اوراختلاف کرنے پر بھی مصنوعی آفات وبلیات ٹوٹ ٹوٹ کر برسنے لگیں ، توزندگی کے لمحات کس قدر کربناک ہوجاتے ہیں ۔

بات کہنے کی نہیں کہ ابھی حال ہی میں یورپ میں رہنے والے ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص کا ’اورسیز انڈین سیٹزن شب ‘ یعنیOCI کارڈصرف اس لیے منسوخ کردیا گیا کہ انھوں نے کسی معاملے میں تنقید کی تھی ۔

اسی طرح ماضی میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں کہ کسی بڑی سیاسی پارٹی کے مشہور ومعروف لیڈر پر بعض تنقیدی کلمات کی پاداش میں پارلیمنٹ کی نشست ہی چلی گئی ہو ۔

یہ دوچند مثالیں توصرف اس لیے دی گئی ہیں تاکہ آپ یہ سمجھ سکیں کہ جب خواص اور مشہور ومعروف شخصیات بھی ظلم وستم کے آہنی پنجے سے محفوظ نہیں ہیں ، تو عام مخالفین اور ناقدین کے ساتھ کیسے کیسے سلوک روا رکھے جارہے ہوں گے ۔

اور کہنے دیجیے کہ جمہوریت اور غیر جمہوریت میں سب سے پہلی چیز یہی ہے کہ بولنے ، لکھنے اور چیخنے کی آزادی سلب کرلی جائے ۔ بہر کیف، پٹنہ سے شروع ہونے والی تحریک اتحاد اب بنگالورو میں ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے

جہاں حزب اختلاف کی تقریباتمام موثر سیاسی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر شانہ بشانہ دکھائی دیں ۔

اس اجتماع کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے صرف یہی خبر کافی ہے کہ مدمقابل کو بھی عین اسی تاریخ کو اپنے حواریوں کی نشست دہلی میں بلانی پڑی تاکہ یہ بتانے کی کوشش کی جائے کہ ہمارے خیمے میں بھی کچھ کم سیاسی پارٹیاں نہیں ہیں۔

یہ حقیقت سب پر آشکار ہ ہے کہ بھلے ہی دونوں طرف سیاسی پارٹیوں کی مجموعی تعداد کے اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں ہے ،لیکن انتخابات میں اثر انداز ہونے کے اعتبار سے زمین آسمان کا فرق ہے ۔ اسے یوں سمجھیے کہ این ڈی اے میں جو حلیف پارٹیاں ہیں

ان میں بی جے پی کے علاوہ کوئی ایسی قابل ذکر پارٹی نہیں ، جس کی کسی صوبے میں گہری پکڑ ہو، جب کہ نوزائیدہ ’انڈیا‘ میں ایسی پارٹیاں شامل ہیں ، جن کی جھارکھنڈ، بہار ، بنگال ، کرناٹک، راجستھان، چھتیس گڑھ، دہلی ، پنجاب،تمل ناڈو اورہماچل پردیش میں حکومت ہے ۔

اس طرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ بظاہر یہ اتحاد کافی مضبوط دکھائی دے رہاہے ۔ ظاہرہے کہ ایوان میں موجودگی کے اعتبار سے حزب اقتدار کے مقابلے میں حزب مخالف کی حیثیت کم توہوگی ہی

لیکن ایسی بھی نہیں ہے کہ جسے نظر انداز کیا جاسکے۔ ایک سرسری اندازے کے مطابق ’انڈیا‘ کی جھولی میں اس وقت ۱۴۰لوک سبھا ممبر اور ۱۰۰ کے قریب راجیہ سبھا ممبر ہیں ۔ اس لیے توقع یہی ہے کہ آنے والے انتخابات میں مقابلہ کانٹے کا رہے گا۔

زیر تذکرہ محاذ بنام ’انڈیا‘ میں تقریبا۲۶ سیاسی پارٹیاں ہیں، لیکن بہوجن سماج پارٹی کی شرکت نہیں ہے ، جب کہ یوپی میں اب بھی مایاوتی اپنی برادری میں موثر ہیں ۔ اس کا اندازہ لگانے کے لیے سابقہ صوبائی انتخابات کے نتائج پر غور کریں ۔

آپ محسوس کریں گے کہ یوپی کے سابقہ انتخابات میں اگر سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان نشستوں پر سمجھوتہ ہوگیا ہوتا، توبی جے پی کا وہی حال ہوتا، جو آج متذکرہ دونوں پارٹیوں کا ہے ۔

یعنی صوبے میں بہ آسانی غیر بی جے پی حکومت ہوتی۔ اس لیے آنے والے انتخابات میں مستحکم نتائج کے لیے بہوجن سماج پارٹی کو بھی ساتھ رکھنا چاہیے ۔

میرے خیال میںصوبائی سطح پر حزب مخالف کی کرسی پر پورے پانچ سالوں تک بیٹھنے کے مقابلے میں یہ کہیں زیادہ بہتر ہے کہ متذکرہ دونوں پارٹیاں ڈھائی ڈھائی سال حزب اقتدار بن کر رہیں ۔

ایک دوسرے پس منظر میں یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ متذکرہ اتحاد میں چوں کہ AIMMشامل نہیں ہے ، اس لیے مسلمانوں کی حیثیت زیرو کردی گئی ہے ۔

پہلی بات تویہ سن لی جائے کہ متذکرہ اتحاد سے مسلمان پوری طرح غائب نہیں ہیں ، بلکہ چار پارٹیاں ایسی بھی اس میں شامل ہیں ، جن کی قیادت مسلمان کررہے ہیں؛NC,IUML,MMK اورPDP ۔ جہاں تک رہی بات اے آئی ایم ایم کی عدم شمولیت کی، تومیرے خیال میں جس لب ولہجے میں اس کے قائدین گفتگوکرتے ہیں ، ملک کی کوئی بھی قابل ذکر سیاسی پارٹی ان سے قربت نہیں چاہے گی۔

صاف سیدھی بات یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اقتدار کے مزے لے اور زیادہ سے زیادہ نشستوں میں وہ کامیاب ہوں ۔ تاہم اگر کسی کے قریب ہونے سے ان کے ووٹوں کی تعداد بڑھنے کے بجائے کم ہوجائے ، تویہ گھاٹے کا سودا کون کرتاہے ؟

ہم بھی چاہتے ہیں کہ ملک میں مسلمان سیاسی طاقت بنیں اور اقتدار تک پہنچ کر اپنے حقوق کی پاسداری کریں ۔

بلاشک وشبہ یہ ایک نہایت ہی اہم ہدف ہے ، جس تک پہنچنے کے لیے حکمت عملی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔

صرف جذباتی نعروں اور شعلہ بیانی سے یہ مقصدہرگز حاصل نہیں ہوسکتا، خصوصیت کے ساتھ ایسے ماحول میں ، جب کہ مذہبی شدت پسندی سے ملک کی سیاسی فضابری طرح مکدر ہواور ایک طبقہ اسے ہی اپنی جدوجہد کا محور بناکر باربار کامیابی کے مراحل طے کررہاہو۔

صاحبو! کہتے ہیں کہ ’ہر کمالے رازوال است‘ ، بلاشبہ یہ مقولہ ایسی حقیقت ہے ، جس کی تصویر ہمیں ماضی میں بارہا دیکھنے کو ملی ہے ، اور کوئی عجب نہیں کہ آئندہ بھی دیکھنے کو ملے ۔

دنیا میں ایسی کئی مثالیں ملیں گی، جب کوئی پارٹی عوامی مقبولیت کے عروج پر ہوتی ہے، اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے زمیں بوس بھی ہوجاتی ہے ۔

ٹھیک ہے کہ موجودہ حکومت میں عالمی سطح پر اپنی ایک ساکھ بنائی ہے اور اسے ترقی کی علامت کے طورپر دیکھا جارہاہے

لیکن سچی بات یہ ہے کہ لوگ اس لیے ووٹ نہیں دیتے کہ آپ دنیابھر میں شہرت حاصل کرلیں اور بس ، بلکہ لوگ سب سے پہلے اپنے حالات میں بہتری چاہتے ہیں ۔

اس لیے باہر کے لوگ چاہے جس قدر توصیف وتعریف کرلیں ، دراصل حقیقت سے وہ لوگ آشنا ہیں ، جو گھر کی خبر رکھتے ہیں ۔

اورخیال رہے کہ اگر ہندوستان کی بنیادی عظمتـ’ جمہوریت‘ میں پنہاں ہے ، توکہنے دیجیے کہ آج اسی بنیادپر شب خون مارے جارہے ہیں ۔

اس لیے ضروری ہے کہ ہم شانہ بشانہ ہوکر اس کی بنیاد کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں ۔

ghulamzarquani@yahoo.com

One thought on “نوزائدہ سیاسی متحدہ محاذ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *