اندھیروں سے اجالے کی طر ف

Spread the love

(من الظلمات الی النور) اندھیروں سے اجالے کی طر ف

مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی

اللہ تعالی ان لوگوں کا دوست ہے اورانہیں ایسا ؛ روشنی بھرا ،علم حق اور سلامتی کا راستہ، دیکھلاتا ہے ان لوگوں کو جو حق پر چلنےکی فکر میں ہمیشہ کمر بستہ وسرگرداں رہتے ہیں !اور جو لوگ کفر پر چلنے کا فیصلہ کر بیٹھتے ہیں وہ ایسی اندھیری راہوں پر چلتے رہتے ہیں کہ، جنہیں کبھی بھی سکون و راحت والی منزل حاصل نہیں ہوتی اس لیے کہ فطرت سے بغاوت کرکے آدمی کبھی بھی سرخروی پا نہیں سکتا۔

اہل کتاب کے علما اور درویش لوگوں کے مال باطل طریقہ سے کھاتے ہیں

یہ حقیقت بھی ہر ایک آدمی کے سامنے رہنی چاہیے کہ انسان کے لیےعلم کی بہت بڑی اہمیت ہے یہ علم ہی ہے جس کی بناء پر آدمی کو صاف صاف نظر آتا ہے کہ وہ کون ہے اور اسکا آقا ومالک اور رب تعالی کون ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن حکیم کا نزول ہوا تو سب سے پہلے پڑھنے اور علم کی بات ارشاد فرمائی گئی۔

اس طرح اب قیامت تک کے لیے آدمی کو سیدھی راہ پر چلنا مقصود ہوتو اللہ نے جو علم نبی کریمؐ کے ذریعہ عطا فرمایا ہے جس کی تعلیم نبی ﷺ نے اپنی امت کو دی ہے اسی کے سہارے آدمی اپنے مقصد حیات اور کائنات کی حقیقت کو جان کر سلامتی کی راہ پر چلتا ہے۔ فرمان باری تعالی یوں ہوا کہ”اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ “ {:سورہ بقرہ آیت 257}‏ [ترجمانی]

جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی ومددگار اللہ ہے اور وہ ان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، ان کے حامی ومددگار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہی لوگ اہل دوزخ ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‏

”اندھیرے سے اجالے کی طرف“اللہ تعالٰی خبر دیتا ہے کہ اس کی رضامندی کے طلبگار کو وہ سلامتی کی راہنمائی کرتا ہے اور شک و شبہ کے کفر و شک کے اندھیروں سے نکال کر نور حق کی صاف روشنی میں لا کھڑا کرتا ہے، کفار کے ولی شیاطین ہیں جو جہالت و ضلالت کو کفر و شرک کو مزین کرکے انہیں ایمان سے اور توحید سے روکتے ہیں اور یوں نور حق سے ہٹا کر ناحق کے اندھیروں میں جھونک دیتے ہیں

یہی کافر ہیں اور ہمیشہ یہ دوزخ میں ہی پڑے رہیں گے، لفظ نور کو واحد لانا اور ظلمات کو جمع لانا اس لئے ہے کہ حق اور ایمان اور سچا راستہ ایک ہی ہے اور کفر کی کئی قسمیں ہیں، کافروں کی بہت سی شاخیں ہیں جو سب کی سب باطل اور ناحق ہیںجیسے اور جگہ ہے (آیت و ان ھذا صراطی مستقیما الخ سورہ الانعام 153)۔

میری سیدھی راہ یہی ہے تم اسی کی تابعداری کرو اور ، اور راستوں پر نہ چلو ورنہ اس راہ سے بھٹک جاؤ گے۔ یہ وصیت تمہیں تمہارے بچاؤ کے لیے کر دیاور جگہ ہے(آیت وجعل الظلمات والنور الانعام) اور بھی اس قسم کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حق ایک ہی ہے

اور باطل میں تفرق و انتشار ہے، حضرت ایوب بن خالد فرماتے ہیں، اہل ہوا یا اہل فتنہ کھڑے کئے جائیں گے جس کی چاہت صرف ایمان ہی کی ہو وہ تو روشن صاف اور نورانی ہوگا اور جس کی خواہش کفر کی ہو وہ سیاہ اور اندھیروں والا ہوگا، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائ۔(تفسیر ابن کثیرؒ سورہ بقرہ آیت 257)حضرت مولانا مودودیؒ طاغوت کی آسان و دلنشیں تشریح فرمائ ؛ وہ لکھتے ہیں کہ”طاغوت“ یہاں طواغیت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے،یعنی خدا سے منہ موڑ کر انسان ایک ہی طاغوت کے چنگل میں نہیں پھنستا، بلکہبہت سے طواغیت اسپر مسلط ہوجاتے ہیں۔ایک طاغوت شیطان ہے،جواسکے سامنے نت نئ جھوٹی ترغیبات کاسدا بہار سبز باغ پیش کرتا ہے۔

دوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے،جواسے جزبات وخواہشات کا غلام بناکر زندگی کے تیڑھے سیدھے راستوں پر کھینچے کھینچے لیے پھرتا ہے۔اور بیشمار طاغوت باہر کی دنیا میں پھیلے ہوے ہیں۔ بیوی اور بچے،اعزہ اور اقربا،برادری وخاندان،دوست اور آشنا،سوسائٹی اور قوم، پیشوا اور رہنما،حکومت اور حکام، یہ سب اس کے لیے طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں۔

جن
میں سے ہر ایک اپنے اغراض کی بندگی کراتاہےاور بیشمار آقائو ں کا یہ غلام ساری عمر اسی چکر میں پنھسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرے اور کس کی ناراضی سے بچے۔(تفہیم القرآن سورہ بقرہ آیت 257 حاشیہ288) آج ہماری نوجوان نسل ہر طرف طاغوت کے نرغے میں جکڑی ہوئ پائ جارہی ہے،انکی زندگی کے ہر پہلو تاریک نظر آرہے ہیں۔

لڑکیاں ہو یا لڑکے یہ اپنے مقصد حیات سے الاماشاء اللہ بلکل کورے معلوم ہورہے ہیں؛بے روک ٹوک شب روز و بے حیائ و بے حجابی عام طور پر نظر آرہی ہے، وعظ و نصیحت اور امر با لمعروف کا درس دیے جانے والے مقامات پر بھی الاماشاء اللہ شرعی پردہ کا اہتمام اور خیال کچھ کم ہی رکھا جا رہا ہے، شادی بیاہ کے موقع پر عورتوں ومردوں میں محرم وغیر محرم کی تمیز ختم ہوتے جارہی ہے!!!

علم اور حقیقت سے بے نیاز نوجوان اپنی لا قیمت جوانی کو مختلف قسم کی نشہ خوری وشراب نوشی کی لعنت میں مبتلا ہوکر؛ ہلاکت کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔”علم دین“ و ”علم نافع“ سے اچھی طرح واقف نہ کروانے کی وجہ سے ہماری نسل نو ایمان کی قرر منزلت سے واقف نہیں ،جوانی کی دیوانگی نے اس بات کا ہوش ان سے چھن لیا کہ کلمہ طیبہ اور ایمان کی حقیقت کیا ہے

رسالت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی اہمیت ہے، جس کے بغیر آدمی اندھیری راہوں سے باہر نکل ہی نہیں سکتا۔ہماری لڑکیوں میں ار تداد کی لعنت زور پکڑ رہی ہے،اسکی ساری ذمہ دارای گھر کے قوام کی ہے کہ انہوں نے اپنی اولاد کی دینی اخلاقی و روحانی تربیت پر توجہ نہیں دی۔

اللہ تعالی نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ؛اے لوگو جو ایمان لاے ہو اپنے آپکو اور اپنے {اولاد} اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچاو۔ آیت کریمہ ہمیں یہ سبق دے رہی ہیکہ پہلے ہم خود اپنی زندگیوں میں اندھیروں اور بداعمالیوں سے نکلنے کی جدوجہد کریں تاکہ پہلے اپنے شب روز روشن ہوجائیں اور ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تربیت کریں ،اگر گھر کا بڑا دین پر چلے گا نماز پنجگانہ پابندی سے پڑھے گا، جھوٹ دھوکا دہی رشوت خوری سے اجتناب کرے گا اور قول وفعل میں یکسانیت رکھے گا تو اولاد بھی اسی روش پر چلنے کی طرف آگے بڑھے گی۔

اور اسی طرح اگر گھر کی ذمہ دار عورت ماں کی شکل میں ایک بہترین نورانی ماحول و معاشرہ بنانے کا اہم رول ادا کرسکتی ہے،اگر وہ اپنے رات دن خداترسی میں گزارے ،نمازوں اور دیگر فرائض کی پابندی کرے، حجاب کو اپنے اوپر لازم کرلے ،لوگوں کی غیبت سے اجتناب کرے ، اپنے گھر کو ایک دین دار گھر کی حیثیت سےچلانے کی پوری کوشیش کرے تو یقیناً اسکے اچھے اثرات گھر کی بیٹیوں اور بہووں اور دیگر رشتہ دار خواتین پر پڑتے ہیں۔اسطرح اندھروں سے اجالے کاطرف کا سفر پہلے اپنے گھر اور اپنی ذات سے ہونا ہے۔

خاص طور پر گھر کے بڑوں سے اپنے ماتحتوں کے بارے میں پوچھ ہونے والی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے، فرمایاکلکم راع وکلکم مسئول عن رعیته (صحیح بخاری 2409)یعنی ہر ایک بڑے وذمہ دار سے یہ پوچھا جاے گا کہ تم نے اپنے نیچے والوں کا کہاں تک خیال رکھا؟

ان کی اخلاقی ودینی اور روحانی تربیت کے لیے کس طرح کی کوشیشیں کی؟۔
انہیں لقمہ حرام سے بچانے کے کیا کچھ جتن کیے،؟یہ اور اس طرح کے سوالات ہیں کل روز قیامت اللہ تعالی سب سے کرے گا !!!۔ضرورت اس بات کی ہیکہ اپنے نونہالوں کی حفاظت کرنے اور انہیں تاریکیوں میں ڈوبنے سے بچاے رکھنے کے لیے

اچھی تعلیم کا بندوبست کریں خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیوں پر شفقت بھری کڑی نگاہ رکھیں اور انہں دینی حلقوں و ماحول سے جوڑدیں،اور روز کی اساس پر یا ہفتہ میں ایک بار قرآن وحدیث کا درس اور صحابہ وصحابیات کے واقعات اور تاریخ اسلام پر مشتمل گھریلو اجتماع کرنے کا اہتمام کریں۔نوع انسانی پرجب اندیھرا پھیل جاتا ہے تب انکے دونوں جہاں منفیت سے خالی سمجھو!!!

مولانا محمد عبدالحفیظ اسلامی

سینئرکالم نگار وصحافی حیدرآباد۔

9849099228

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *