سورۃ الاعراف ایک مختصر تعارف

Spread the love

سورۃ الاعراف ایک مختصر تعارف

محمد عبدالحفیظ اسلامیسینئر کالم نگار ،حیدرآبادفون نمبر : 9849099228سورۃ الاعراف مکی سورتوں میں شامل ہے اس میں 206 آیات ، رکوعات 24 ہیں اور کل الفاظ 3325 ہیں۔اس سورۃ مبارکہ کا نام اعراف اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس کی آیت 46 میں ’’ الاعراف ‘‘ آیاہے۔ علماء تفسیر لکھتے ہیں کہ اس کا زمانہ نزول بھی وہی ہے جو سورہ انعام کا ہے جہاں تک اس سورۃ کا تاریخی پس منظر ہے ، سورۃ انعام کے تحت میں لکھا جاچکا ، یعنی ان دونوں کا تاریخی پس منظر ایک ہی ہے۔ اس میں جو بحث کی گئی ہے وہ درج ذیل ہے۔’’اس سورۃ کا مرکزی مضمون دعوتِ رسالت ہے۔ ساری گفتگو کا مدعا یہ ہیکہ مخاطبوں کو خدا کے فرستادہ پیغمبر کی پیروی اختیار کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ لیکن اس دعوت میں انداز تنبیہ زیادہ نمایاں پایا جاتا ہے کیونکہ جو لوگ مخاطب ہیں (یعنی اہل مکہ) انھیں سمجھاتے سمجھاتے ایک طویل زمانہ گزر چکا ہے اور ان کی گراں گوشی ، ہٹ دھرمی اور مخالفانہ ضد اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ عنقریب پیغمبر اعظم ا کو ان سے مخاطبت بند کرکے دوسروں کی طرف رجوع کرنے کا حکم ملنے والا ہے۔ اس لئے تفہیمی انداز میں قبول رسالت کی دعوت دینے کے ساتھ ان کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جو روش تم نے اپنے پیغمبر کے مقابلہ میں اختیار کر رکھی ہے ، ایسی ہی روش تم سے پہلے کی قومیں اپنے پیغمبروں کے مقابلہ میں اختیار کرکے بہت بُرا انجام بھگت چکی ہیں۔ پھر چونکہ ان پر حجت تمام ہونے کے قریب آگئی ہے۔ اس لئے تقریر کے آخری حصہ میں دعوت کا رُخ ان سے ہٹ کر اہل کتاب کی طرف پھر گیا ہے اور ایک جگہ تمام دنیا کے لوگوں سے عام خطاب بھی کیا گیا ہے جو اس بات کی علامت ہیکہ اب ہجرت قریب ہے اور وہ دور جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب تمام تر اپنے قریب کے لوگوں سے ہوا کرتا ہے ، خاتمہ پر آلگا۔ دوران تقریر میں چونکہ خطاب کا رُخ یہود کی طرف بھی پھر گیا ہے ، اسلئے ساتھ ساتھ دعوت رسالت کے اس پہلو کو بھی واضح کردیا گیا ہے کہ پیغمبر پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ منافقانہ روش اختیار کرنے اور سمع و طاعت کا عہد استوار کرنے کے بعد اسے توڑ دینے اور حق و باطل کی تمیز سے واقف ہوجانے کے بعد باطل پرستی میں مستغرق رہنے کا انجام کیا ہے ؟ سورۃ کے آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو حکمت تبلیغ کے متعلق چند اہم ہدایات دی گئی ہیں اور خصوصیت کے ساتھ انھیں نصیحت کی گئی ہے کہ مخالفین کی اشتعال انگیزیوں اور چیرہ دستیوں کے باوجود صبر و ضبط سے کام لیں اور جذبات کے ہیجان میں مبتلا ہوکر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو اصل مقصد کو نقصان پہنچانے والاہو۔ (تفہیم القرآن جلد دوم از مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمت اللہ علیہ)اس سورۃ میں متعدد انبیاء کرام جیسے نوح ، ہود ، لوط ، شعیب علیہم السلام کا نام لیکر ان کے احوال بیان فرمائے اور ان کی قوموں نے جو ناروا سلوک اور معاندانہ برتاؤ اپنے مخلص و پاک باز رہنماؤں کے ساتھ کیا تھا ، اس کا ذکر کیا اور اس حقیقت کو بڑی فصاحت سے آشکار کیا کہ جب مزاج بگڑ جاتا ہے اور فطرت سلیمہ مسخ ہوجاتی ہے تو اس وقت حق پذیری کی استعداد بے کار اور مفلوج ہوجاتی ہے۔ دلائل کی زبان اعلان حق کررہی ہوتی ہے لیکن کان اسے سن ہی نہیں سکتے اور دل و دماغ حق سمجھنے کی توفیق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ افہام و تفہیم ، ترغیب و ترتیب کوئی چیز کارگر ثابت نہیں ہوتی۔مختلف رسولوں کے احوال بتانے کے بعد کئی رکوعوں میں حضرت موسیٰ ںکے واقعات تفصیلاً بیان فرمائے۔ آپ کو دو قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑا تھا۔ ایک فرعون اور اس کے حواری اور دوسرے آپ کی اپنی قوم بنی اسرائیل ۔ پہلا طبقہ حکمراں تھا جسے بے پناہ اختیارات اور مراعات حاصل تھے۔ ملک کی ساری دولت و ثروت ان کی ملکیت تھی۔ عیش و عشرت کے سب سامان میسر تھے۔ وہ کسی قیمت پر ان سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہ تھے۔ حتیٰ کہ جب ان کے مقرر کئے ہوئے معیار کے مطابق حق واضح ہوگیا اور ان کے بلائے ہوئے جادوگر معجزات نبوت کے سامنے اپنے نظر فریب سحر کی بے سروپائی کا اعتراف کرکے باطل سے تائب ہوگئے اور حضرت کلیم پر صدق دل سے ایمان لے آئے۔ تب بھی فرعونی ذہنیت نے قبول حق سے گریز اختیار کیا کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے ناجائز اختیارات اور مراعات سے محروم ہوجائیں۔ ان کی لوٹ کھسوٹ پر پابندی لگادی جائیں اور ان کی عیش و نشاط کی بساط اُلٹ دی جائے اور وہ اس کے لئے کسی طرح آمادہ نہ تھے۔دوسرا طبقہ جس سے آپ کو واسطہ پڑاتھا ، وہ آپ کی اپنی قوم بنی اسرائیل تھی جو مدت دراز سے غلامی کی زندگی گزار رہی تھی۔ ان کی ہمتیں پست اور ولولے سرد ہوچکے تھے۔ ذلت کی پستیوں میں پڑے رہنے میں وہ بڑی لذت محسوس کرتے تھے۔ ان کی تن آسانی کا یہ عالم تھا کہ عزت کی بلندیوں تک پہنچنے کیلئے وہ کسی جدوجہد کے لئے آمادہ نہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ لڑے بغیر فتوحات کے دروازے اِن پر کھول دیئے جائیں اور تو اور انھیں کھانے پینے کیلئے بھی ہاتھ پاؤں ہلانے نہ پڑیں بلکہ آسمان سے پکا پکایا کھانا ان کے دسترخوان پر چن دیا جائے۔ دوسروں کی تقلید اور پیروی کیلئے وہ ہر لمحہ آمادہ تھے۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ ں کی برکت سے وہ فرعون کی غلامی سے آزاد ہوکر وادی سینا میں پہنچے اور وہاں کے بت پرستوں کو دیکھا تو حضرت موسیٰ ں سے اپنے لئے ایسا ہی بت بنانے کی فرمائش شروع کردی اور آپؑ کی سرزنش پر بظاہر تو خاموش ہوگئے لیکن جب چلہ کشی کیلئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو خداوند ’’حی و قیوم ‘‘ کو چھوڑ کر فوراً سامری کے بنائے گئے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ ان تمام واقعات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ احکام الٰہی سے دانستہ اور پیہم سرکشی ، بے پناہ قوت و اختیار کا خمار اور ایسے ہی غلامانہ زندگی کے افراد و اقوام کے ذہنوں کو بگاڑ دیتی ہے اور انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ان بگڑی ہوئی ذہنیت کی اصلاح کی جائے تاکہ ایسا معاشرہ معرض وجود میں آجائے جو طاقتور ہونے کے باوجود انصاف پرست ہو۔لیکن جو بدنصیب اللہ کے پیغمبروں کی مشفقانہ پند و موعظت کو قبول نہیں کرتا اور اپنی گمراہی پر بضدرہتا ہے تو مکافات عمل کا قانون اسے پیس کر رکھ دیتا ہے اور اس کا نام و نشان تک صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا ہے۔ (از : مولانا پیر محمد کرم شاہ رحمت اللہ علیہ)ایک اور معروف مفسر نے آیات 137 تا 206 تک اس کا جو تجزیہ فرمایا ہے اسے من و عن نقل کیاجاتا ہے۔’’بنی اسرائیل کی تاریخ کے تمام ادوار پر نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہمیشہ بڑے کرم فرمائے لیکن اُنھوں نے ہمیشہ خدا کے انعامات کی ناقدری کی اور کسی تذکیر و تنبیہ سے کوئی پائیدار فائدہ نہیں اُٹھایا اور ان کی وہی روش رہی ہے چنانچہ جس حق کی علمبرداری کی ذمہ داری ان پر ڈالی گئی تھی ، وہ اس کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ یہ موقع ان کیلئے آخری موقع ہے جس کو ضائع کردینے کے بعد ان کیلئے دائمی ذلت کے سوا اور کوئی چیز باقی نہیں رہ جائے گی۔خاتمہ سورۃ : جس میں قریش کو عہد فطرت کی یاد دہانی کرائی گئی ہے اور بنی اسرائیل کے حالات سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ پھر ان کو عذاب الٰہی کی دھمکی دی گئی ہے اور خبردار کیا گیا ہے کہ جب اللہ کی پکڑ میں آجاؤ گے تو تمہارے یہ مددگار اصنام جو تم نے گھڑ رکھے ہیں ، کچھ کام نہیں دیں گے۔ آخرمیں پیغمبر ا کو صبر ، اعراض ہر آن یاد الٰہی کے ساتھ وابستہ رہنے کی ہدایت ہے۔ (حوالہ تفسیر تدبر قرآن جلد سوم صفحہ 208 ، از مولانا امین احسن اصلاحی نوراللہ مرقدہ ) کلام اللہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں کہیں پچھلی قوموں کے واقعات کا ذکر ہوتا ہے اور کبھی ان کی نافرمانیوں کا مختصر ذکر ہوتا ہے اور کبھی تفصیلی طور پر ان کے انجام بد کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں اور کلام الٰہی میں ایک خاص بات یہ بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو سمجھانے کیلئے دنیامیں موجود قدرت کے مظاہر کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے توحید کے دلائل ان کے سامنے رکھتاہے اور کبھی مثالیں پیش کی جاتی ہے۔ غرض یہ کہ کئی کئی طریقوں سے اللہ تبارک و تعالیٰ بندں کی اصلاح اور ان کی دنیوی و اُخروی کامیابی کیلئے قرآن حکیم اور اپنے انبیاء کے ذریعہ سامان فراہم کردیاہے۔ اس طرح اس سورۃ الاعراف میں بھی پچھلی قوموں کے واقعات اور تذکرہ کا مقصد بھی یہی ہے کہ اہل مکہ و قریش کو جوکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر اَڑ گئے تھے ، ان کیلئے سامان عبرت فراہم کیاجائے۔ اور قیامت تک اس میں ہر آدی کیلئے درس عبرت ہے جو اپنی سلامتی چاہتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *