دلت مسلم ریزرویشن اور کانگریس
دلت مسلم ریزرویشن اور کانگریس !!!
تحریر:جاوید اختر بھارتی
1947 میں وطن آزاد ہوا اور 1950 میں آئین کا نفاذ ہوا اور 1952 میں پہلا الیکشن ہوا اور اس وقت اٹھارہویں پارلیمنٹ چل رہی ہے 1947 سے لے کر اب تک سب سے زیادہ کانگریس نے ملک میں حکومت کی ہے اور کانگریس کی یہ خاصیت رہی ہے اور ہے کہ جب وہ اقتدار سے باہر ہوتی ہے تو اس کا رنگ کچھ اور ہوتا ہے اور جب اقتدار میں ہوتی ہے تو اس کا رنگ کچھ اور ہوتا ہے یعنی ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دیکھانے کے اور اسی راہ پر کانگریس چلتی رہی ہے۔
آج اگر کانگریس پارٹی آرایس ایس کی مخالفت کررہی ہے تو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ کانگریس نے ہی آر ایس ایس کی پرورش بھی کی ہے بابری مسجد اور رام مندر کا معاملہ اور مسئلہ کانگریس کی دین ہے انگنت بار ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر چلی ، قتل وغارت گری ہوئی ، صنعت و معیشت کی بربادی ہوئی اور پھر مذہبی بنیاد پر ناانصافی ہوئی یہ بھی کانگریس کی دین ہے جب منڈل کمیشن کی سفارشات کے نفاذ کے نتیجے میں وی پی سنگھ کی حکومت سے بی جے پی نے حمایت واپس لی تھی تو پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اٹل بہاری واجپئی نے کہا تھا کہ کانگریس کے لئے اقتدار سے دور رہنا بہت مشکل ہے
واضح رہے کہ کانگریس حکومت سے بھی ملک کی عوام اوب چکی تھی کہیں مذہبی بنیاد پر ناانصافی کا بول بالا تھا تو کہیں ذات برادری کی بنیاد پر تفریق برتنے کا بول بالا تھا آج وہی کانگریس ہے جو کبھی بھارت جوڑو یاترا چلاتی ہے تو کبھی ذات برادری کی بنیاد پر مردم شماری کے لئے مہم چلاتی ہے لیکن خود کانگریس نے اس ملک میں دلت مسلمانوں کے ساتھ اتنی بڑی ناانصافی کی ہے جسے کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا اسی ناانصافی کی دین ہے
کہ ملک میں مسلمانوں کی سیاسی شناخت گم ہوگئی جب ملک میں آئین کو ترتیب دیا جارہا تھا تو اس کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے جن کے سینے میں اپنے سماج و اپنی قوم کا درد تھا اور وہ اپنے سماج کو ایک مخصوص طرح کی سہولت فراہم کرنا چاہتے تھے۔
مسلمانوں کی سوچ اور مسلمانوں کا ووٹ
کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ میرا سماج دبا کچلا ہے اس کے ساتھ قدم قدم پر بھید بھاؤ کیا جاتا ہے جسے اوپر اٹھانے کے لیے واحد راستہ یہی ہے کہ اسے مخصوص انداز میں ریزرویشن دیا جائے ساتھ ہی ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے یہ بھی محسوس کیا کہ جس طرح ہندوؤں میں ذات برادری ہے اسی طرح مسلمانوں میں بھی ذات برادری ہے جس طرح یہاں بھید بھاؤ ہے اسی طرح وہاں بھی بھید بھاؤ ہے گویا کہ جس طرح ہندوؤں میں دلت ہیں
اسی طرح مسلمانوں میں بھی دلت زمرے میں آنے والی برادریاں ہیں اسی وجہ سے انہوں نے دفعہ 341 کے تحت ریزرویشن دیا،، یہ مخصوص سہولت کانگریس کو مذہبی بنیاد پر کھٹکتی تھی تو وہ مسلمان بھی تھے جو اپنے کو بہت برتر سمجھتے تھے جنہوں نے خود مسلمانوں کو ارذال، اجلاف اور اشراف کٹیگری میں بانٹا ہے
اس وقت انہوں نے اسلام کا نعرہ لگانا شروع کردیا اور اسلامی مساوات کا نعرہ لگانا شروع کردیا کہ سب مسلمان ایک ہیں یہ نظریہ دیکھ کر اور یہ باتیں سن کر کانگریس جو پہلے ہی سے فراق میں تھی اسے موقع مل گیا اس نے دفعہ 341 پر پیرا 3 لگا کر مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس سے محروم کردیا غرضیکہ دلت مسلمانوں کے لیے ترقی کا راستہ بند ہوگیا کانگریس مسلم دشمنی میں اس قدر اندھی ہوگئی کہ اسے اس بات کا بھی لحاظ نہیں رہا کہ جب مذہبی بنیاد پر ریزرویشن نہیں ہے تو مذہبی بنیاد پر پابندی عائد کرنے کا کیا مطلب یعنی جب مذہب کے نام ریزرویشن نہیں تو مذہب کے نام پر پابندی کیوں ؟
کانگریس اس کا جواب کب دے گی ؟
کانگریس اپنی مختلف تحریکوں میں اس غلطی کو تسلیم کب کرے گی ؟ کانگریس اپنے انتخابی منشور میں مسلمانوں کی پیٹھ میں سیاسی خنجر گھونپنے پر معافی کب مانگے گی اور دوبارہ اقتدار میں آنے پر 341 کے پیرا 3 کو ختم کرانے کا اعلان کب کرے گی کیا کسی کانگریسی لیڈر و مسلم کانگریسی لیڈر نے آج تک سوال کیا نہیں آخر کیوں نہیں کیا ،، ۔
کل تک پسماندہ مسلم لفظ کی بھی مخالفت ہوتی تھی اور دلت مسلمان لفظ کی بھی مخالفت ہوتی تھی مگر لفظ پسماندہ مسلمان ایسا رائج ہوا کہ آج ہرایک کی زبان پر ہے بلکہ اب تو دلت مسلمان کا لفظ بھی زبان پر آنے لگا ہے یہ الگ بات ہے کہ ابھی بھی نیت صاف نہیں ہے اکثر و بیشتر کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے اول تو جو دلت کی مثال دی جاتی ہے وہ بھی غلط ہے کیونکہ اس ملک کا دلت سیاسی طور پر بیدار ہوگیا آج اسے مایاوتی جیسے کئی لیڈر مل گئے
اور جو لیڈر دلت نہیں ہیں وہ بھی دن رات دلتوں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں ۔ لیکن کیا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ، علماء مشائخ بورڈ، جمیعۃ علماء ہند، مسلم مجلس، مسلم فورم ، ائمہ آرگنائزیشن ، مدارس و خانقاہوں سے کبھی یہ آواز بلند ہوئی کہ جس آرڈینس کے ذریعے دلت مسلمانوں کا ریزرویشن چھینا گیا ہے اس آرڈیننس کو رد کیا جائے اور دلت مسلمانوں کا ریزرویشن بحال کیا جائے ؟ ۔
آخر جب اس ملک میں پاسی، سونکر، ہریجن، دھوبی، نٹ وغیرہ جیسی برادریوں کے پارلیمانی و اسمبلی کی نشستیں محفوظ ہیں تو مسلمانوں میں نٹ، بنجارہ، بھانٹ، دھوبی، حلال خور کھٹک یہ بھی ان مخصوس و محفوظ نشستوں کا فائدہ اٹھاتیں اور پارلیمنٹ و اسمبلی میں جاتیں تو کیا حرج تھا آخر رہتے تو مسلمان مگر نہیں ۔
آج تک مسلم ممبران پارلیمینٹ نے بھی کوئی ایسا وفد تشکیل نہیں دیا اور وزیراعظم و صدر جمہوریہ سے ملاقات کرکے مطالبہ نہیں کیا اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ کل بھی مسلمانوں کے تئیں خود مسلمانوں کی سوچ غلط تھی اور آج بھی ہے کل بھی نیت صاف نہیں تھی اور آج بھی نیت صاف نہیں ہے اور اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔
اور حوالہ سچر کمیٹی کا دیاجاتاہے جب کہ سچائی یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے کہ اس کی حالت دلتوں سے بدتر ہے اور اسی دلت و پسماندہ مسلمانوں نے کانگریس کی ڈوبتی ہوئی سیاسی کشتی کو بچایا ہے اور اسی نے سماجوادی پارٹی کا دجود بھی بچایا ہے
باقی اشراف مسلمانوں کا طبقہ تو ہواکے رخ پر چلنا جس کی طاقت اس کا نعرہ لگانا اس کی ٹوپی پہننا یہ راستہ 1947 سے لے کر آج تک اختیار کررکھا ہے اور ہمیشہ سیاسی پارٹیوں کو غلط مشورہ بھی دیا ہے پسماندہ اور دلت مسلمانوں کی بھیڑ دیکھا کر خود کو ان کا لیڈر بتایا ہے اور جہاں انہیں سہولت فراہم کرانے کی بات آتی ہے تو خود مسلمان بن جاتے ہیں باقی پچاسی فیصد مسلمانوں کو ذات برادری میں بانٹ دیتے ہیں اور یہ ذات برادری پر مبنی خاکہ خود اشراف مسلمانوں نے تیار کیا ہے اور اس پر مہر کانگریس نے لگایا ہے۔
کانگریس نے مسلمانوں کی سیاسی شناخت مٹانے میں اہم کردار ادا کیا ہے دلت مسلمانوں کے ریزرویشن پر حملہ کیا ہے ان کے مستقبل کو تباہ کیا ہے ان کی سیاسی زندگی کو اپاہج اور مفلوج بنایا ہے اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو شاہ بانو کیس ، بابری مسجد اور رام جنم بھومی ، تین طلاق، وقف ترمیمی ایکٹ ، سی اے اے جیسا مسلہ پیدا نہیں ہوتا مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر نہیں چلتا آئے دن ماب لنچنگ نہیں ہوتی مساجد ومدارس پر انگشت نمائی نہیں ہوتی
کیوں کہ یہ سارے مسائل سیاسی ہیں اور سیاست سے ہی سارے مسائل حل ہوں گے عالیشان کاروں میں چلنے سے۔ عالی شان ہوٹلوں میں میٹنگ کرنے سے ، کھوکھلی بیان بازی سے ، کھوکھلے نعروں سے ، گائے کو روٹی اور کیلا کھلانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے
بلکہ سیاست میں حصہ داری سے مسائل حل ہوں گے اس لیے بی جے پی کو ہرانے کی ٹھیکیداری سے باز آنا ہوگا، کسی پارٹی کی اندھی حمایت کرنے سے باز آنا ہوگا ، سیاسی کھیل بنانے کے ساتھ بگاڑنے کا راستہ بھی اختیار کرنا ہوگا اور کانگریس کی گھٹیا پالیسی و مسلم دشمنی کا منہ توڑ جواب دینا ہوگا اور 341 کے پیرا 3 کو ختم کرانے کے لئے مجبور کرنا ہوگا تبھی مسلمانوں کی ترقی کا راستہ ہموار ہوگا پھر اس ملک میں مسلمان ، پسماندہ مسلمان اور دلت مسلمان سرخرو ہوگا ۔
جاوید اختر بھارتی
(سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
Pingback: ذرا ہاتھ سینے پر رکھ کرغور کریں ⋆ اردو دنیا
Pingback: اب امی کے معنیٰ و مفہوم کا جھگڑا ⋆ اردو دنیا