آبادی

Spread the love

آبادی

ابنِ آدم ابنِ حوا بڑھ رہے ہیں دن بدن

زندگی کے آسماں کو کڑھ رہے ہیں دن بدن

ہاں یہ فخرو نازکی باتیں ،مگر جب ایسا ہو

ہر طرف انساں ہی انساں ،کچھ نظر نہ آتا ہو

جب زمیں کم ہوتی جائے، زندگی دشوار ہو

آسماں آلود ہو جائے کہ دل بیزار ہو

جب وسائل کم پڑے انسان کو ہر کام میں

جب کروڑو پیڑ کو کاٹا گیا ہر شام میں

ہر طرف آباد ہو تی جارہی ہیں منزلیں

پھر عمارت بن رہی ہیں ،طے ہوئی ہیں منزلیں

ہاں یہ آبادی ہمیں مشکل میں ڈالے گی بہت

ہر وسائل کے لئے ہم کو رلائے گی بہت

ہے ابھی بھی وقت گر رکنا ہو تو رک جائیے

زندگی کو ایک نیا پوشاک دے کر آئیے

سیف علی شاہ عدمؔ بہرائچی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *