درگاہ خواجہ غریب نواز اور گولڈن ٹیمپل ایک غیر ملکی سیاح کے چشم دید بیان کے حوالے سے چشم کشا تأثرات

Spread the love

پس پرد ہ
درگاہ خواجہ غریب نواز اور گولڈن ٹیمپل
ایک غیر ملکی سیاح کے چشم دید بیان کے حوالے سے چشم کشا تأثرات


ڈاکٹر غلام زرقانی


سب سے پہلے توواقعہ کے راوی سے متعارف ہولیجیے ۔تقریبا گیارہ بارہ سالوں پیشتر کی بات ہے کہ عشاکی نماز سے چندگھڑی پہلے ہمارے ادارے میں ایک صاحب داخل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج میری سالگرہ ہے اور میں مسجد کی تعمیر وترقی کے لیے کچھ چندہ دینا چاہتاہوں ۔

میں نے اشارے سے چندے کے ڈبے کی جانب نشان دہی کردی ۔ انھوں نے اس میں کچھ ڈالر ڈال دیے اور واپسی کے لیے مڑنے لگے ۔ میں نے ان سے کہا کہ عشا کی جماعت کھڑی ہونے والی ہے ۔ آپ نماز ادا کرکے جائیے ۔

انھوں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے صاف کہہ دیا کہ میں اسماعیلی ہوں ، مسلمان نہیں ہوں ۔ اس لیے نماز پڑھنے کا طریقہ نہیں جانتا۔ تھوڑی دیر کے لیے میں سوچتارہا، پھر ان سے مخاطب ہوکر رسمی گفتگوکردی۔

اسی دوران میں نے ان سے کہا کہ اگر مسجد آہی گئے ہیں ، توہمارے پیچھے نماز کی نقل ہی کرلیجیے ۔ وہ میری دلجوئی کی خاطر صفوں کے پیچھے کھڑے ہوگئے ۔


میں تویہ سمجھ رہا تھا کہ وہ اختتام جماعت کے بعد واپس چلے گئے ہوں گے، لیکن اس وقت میری حیرت دوچند ہوگئی ، جب میں نے انھیں دیکھا کہ وہ مسجد کے ایک کونے بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے ۔

سنت ، وتر اور نوافل سے فارغ ہوا ، تو وہ میرے قریب آئے اور کہنے لگے کہ مجھے سجدے میں وہ لطف محسوس ہوا ہے ، جو میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے سے پہلے سجدے میں اس قدر لطف محسوس ہواہے ، تو اندازہ لگائیے کہ مسلمان ہونے کے بعد سجدے میں کس قدرسکون، لذت اور اطمینان حاصل ہوگا ؟

وہ اس وقت توکچھ جواب نہ دے سکے ،تاہم دوتین دنوں بعد دوبارہ آئے اور مژدہ جاں فزا سنایا کہ وہ حلقۂ اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہیں ۔ میں نے بلاتاخیر انھیں کلمہ پڑھایا اور وہ باضابطہ مسلمان ہوگئے ۔

اب حال یہ ہے کہ وہ پنج وقتہ نمازی ہیں اور دین اسلام کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔


بہر کیف،یہ صاحب کل مجھ سے بیان کررہے تھے کہ میرے ایک قریبی اسماعیلی گذشتہ ہفتے ہندوستان کے سفر سے لوٹے ہیں ۔ وہ اپنی بوڑھی والدہ اوراہل خانہ کے ہمراہ مختلف شہروں کی سیاحت کرتے ہوئے پنجاب میں واقع گولڈن ٹیمپل بھی گئے ۔

آگے کی سرگذشت خود ان کی زبانی سماعت کیجیے ۔

وہ کہتے ہیں ہم سب مقررہ پروگرام کے مطابق گولڈن ٹیمپل کےقریب پہنچے ، توہمیں علاقے کی صفائی ستھرائی اور رکھ رکھاؤ دیکھ کر نہایت ہی حیرت ہوئی۔

سڑکوں پر آمد ورفت بھی سلیقے سے ہورہی تھی اور لوگ باوقار انداز میں ہولے ہولے چل رہے تھے ۔بہر کیف، ہم جوں ہی گولڈن ٹیمپل کے احاطے میں داخل ہوئے ، تو وہاں کھڑے رضاکار مدد کے لیے تیزی سے آگے آگئے اور گزارش کی کہ ہمیں خدمت کا موقع عطا کیجیے ۔

پھر وہ نہایت ہی مستعدی کے ساتھ میری بوڑھی والدہ کو کار سے اتارنے لگے۔ دوسرے ساتھی نے ویل چیئردرست کی اور ٹیمپل کے اندر جانے سے پہلے ان کے جوتے اتارے اور انھیں موزے پہنائے ۔وہ کہتے ہیں کہ انھوںنے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیے رکھا۔

کہیں بھی مجھے ویل چیئرچھونے تک نہ دیا، حتی کہ مختلف راہ داریوں سے گزر کر جب ہم ایک ہال میں پہنچے توسامنے ٹیبل پر رکھے ہوئے سکھ مذہب سے متعلق چند تحائف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو چیز پسند کریں ، ہماری طرف سے مفت لے سکتے ہیں ، تاکہ یہ آپ کے سفر کی یادگاررہے ۔ میں نے شکریے کے ساتھ ایک چیز اٹھالی ۔

میں نے واپسی پر پوچھ لیا کہ آخر کیا بات ہے کہ ہندوستان میں موجود دوسری زیارت گاہوں ، درگاہوں اور سیاحتی مراکز کے برخلاف یہاں مجھے ایک بھی بھکاری دکھائی نہیں دے رہا ہے ؟

انھوں نے جواب میں کہا کہ گولڈن ٹیمپل کے چاروں طرف چارپانچ سڑکوں تک کسی بھی بھکاری کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے ۔
راوی کہتے ہیں کہ وہ لوگ پنجاب سے سیدھے سلطان الہند بارگاہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کی زیارت کے لیے اجمیر شریف حاضر ہوئے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم درگاہ کے آس پاس کے علاقے میں گندھی اورسڑک کے کنارے بھکاریوں کی یلغار دیکھ کر حیران رہ گئے۔

پھرجوں ہی ہماری کار بلند دروازے کے قریب پہنچی ، توکار کا دروازہ کھولنا مشکل ہوگیا۔ بھکاری ایک دوسرے کو دھکا دے کر پیالہ ہمارے منہ کے سامنے کیے دے رہے تھے ۔

بہر کیف، بہت تگ ودو کے بعد میں نے کسی طرح ویل چیرباہر نکالی اور والدہ کو بٹھاکر اندر داخل ہوا۔ یہاں دور دور تک مجھے کوئی رضاکار دکھائی نہیں دیے ، ہاں یہ ضرور ہوا کہ چند نفیس لباس پہنے ہوئے افراد آگے بڑھے اور زیارت کروانے میں مدد کی پیشکش کی۔

میں نے ان میں سے ایک صاحب کو ساتھ لے لیا۔ مجھے حیرت یہ ہوئی کہ وہ جس طرف بھی لے کر جاتے اور کچھ بتانا چاہتے ، وہاں چند بھکاری سامنے آکر زور زور سے التجائیں کرنے لگتے ۔ اب ہم مزار مقدس کے دروازے کے قریب پہنچے ، تو دیکھا چند افراد فاتحہ خوانی اور لنگر کے اخراجات میں کچھ دینے کی درخواست کررہے ہیں

پھر جب مزار کے اندر داخل ہوئے ، تو یہاں بھی ایک صاحب نے چادر کا کونہ سرپر رکھااور پیالے میں کچھ ڈالنے کی التجا کر دی ۔

اور تواور جب ہم زیارت کرکے واپس جانے لگے ، توجس خوش لباس شخص کے ساتھ ہم نے زیارت کی تھی، وہ بھی نذرانہ لینے کے لیے میرے طرف دیکھتے رہے ۔


اب راوی مجھے سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب ، ہمارے اسماعیلی دوست حیران ہیں ۔ وہ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ جن کی وساطت سے برصغیر پاک وہند میں اسلام کی نشر واشاعت ہوئی

آخر ان سے منسوب عالمی شہرت یافتہ درگاہ کے ساتھ انصاف کیوں نہیں ہورہاہے ؟ ایک وہ مذہب ، جس کی بنیاد سراب پر ہے ، ان کے یہاں صفائی ستھرائی ، رکھ رکھاؤ اور خدمت انسانیت کے جذبات کس قدر موجز ن ہیں ؟

کیا یہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ بارگاہ خواجہ غریب نواز میں پہنچنے کے بعد دین اسلام کی تعلیمات اور روحانیت کے نورانی جلوؤں میں ڈوب کر بے خودی کی کیفیت طاری ہونے کے بجائے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر طرف سے نوچنے اور کھسوٹنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔

کیا یہی خواجہ غریب نواز رضی اللہ عنہ کاپیغام ہے اور کیا یہی ان کی تعلیمات تھیں ؟


صاحبو! میں خود سکتے میں ہوں ۔ یہ تاثرات ایک غیر مسلم کے ذریعہ ہم تک پہنچ رہے ہیں، مگرہیں توسچے ۔

مجھے یقین ہے کہ درگاہ خواجہ غریب نواز کے ارباب حل و عقد اگر چاہیں ، تو یہاں عہد جدید کے آئینے ایک پرسکون، باوقار اور روحانی جلوؤں سے سرشار حالات بنائے جاسکتے ہیں ، جہاں سے ساری دنیا میں دعوت وتبلیغ اور رشد وہدایت کی ایک منظم آفاقی تحریک شروع ہوجائے ، تو کوئی حیرت واستعجاب کی بات نہیں
ghulamzarquani@yahoo.com

7 thoughts on “درگاہ خواجہ غریب نواز اور گولڈن ٹیمپل ایک غیر ملکی سیاح کے چشم دید بیان کے حوالے سے چشم کشا تأثرات

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *