علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور عربی زبان وادب
علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور عربی زبان وادب
✍️مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری کا نام آتے ہی ان کی علمی عبقریت وعظمت ، احادیث پر ان کی خدمات ، تحقیق کے میدان میں ان کی بے مثال مساعی اور ان کے غیر معمولی حافظہ کے احوال وواقعات پڑھ اور سن کر دل ودماغ سر نگوں ہوجاتے ہیں۔
اور احساس ہوتاہے کہ دار العلوم دیو بند نے کیسی کیسی علمی شخصیات کو پیدا کیا اور انہوں نے کس قدر علمی ، ملی ، دینی کاموں میں جفا کشی کی اور کیسے کیسے گہر آبدار ہم پیچھے آنے والوں کے لیے چھوڑا، واقعہ یہ ہے کہ حضرت کشمیری کی ذات اقدس اپنے وقت میں مرجع علما تھیں
اور اب ان کی کتابیں مرجع کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں، صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ان کی شخصیت کثیر الجہات تھی اور ان کے علم وتحقیق کا دائرہ تفسیر ، حدیث، فقہ ، عقائد ، تاریخ عربی ادب، لغت اور تصوف تک وسیع تھا، ہر صنف میں ان کی خدمات وقیع ہیں، اسی لیے پوری مسلم دنیا ان کی عظمت کے سامنے سرجھکاتی ہے ۔ عربی زبان وادب میں بھی ان کی خدمات وقیع ہیں۔
ان کی اکثر بیشتر تصنیفات وتالیفات کی زبان عربی ہے، ان کی یہ خدمت حدیث کے مقابلہ دب سی گئی ہے اور سوانح نگاروں کی توجہ اس طرف ذرا کم ہوئی، عربی میں مولانا یوسف بنوری کی عربی سوانح نفحہ العنبر فی حیاۃ امام العصر الشیخ انور میں ان کی عربی زباندانی اور اس فن میں ان کی مہارت کا ذکر ذرا تفصیل سے آیا ہے
بقیہ مولانا عبد الرحمن کونڈو کی الانور، مولانا ازہر شاہ قیصر کی حیات انور، مولانا انظر شاہ صاحب کی نقش دوام اور بہت سارے مضامین ومقالات میں عربی ادب کے حوالہ سے ان کی خدمات کے ذکر سے محققین سرسری گذر گیے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم کتاب ڈاکٹر عبد المالک مظفر خان کی العلامہ انور شاہ کشمیری حیاتہ وشعرہ ہے جو بلا واسطہ اس موضوع سے متعلق ہے
مولانا محمد نافع عارفی کی یہ کتاب اردو میں مولانا کی عربی ادب کی خدمات کا تفصیلی ، تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ ہے ، جو تحقیق کے نئے زاویے اور عصری جہتوں کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے ۔ اور میرے مطالعہ کی حد تک اس موضوع پر پہلی کتاب ہے۔
ابو حمزہ محمد نافع عارفی بن حضرت مولانا محمد سعد اللہ صدیقی بن حضرت مولانا عبد الرحمن ہر سنگھ پوری ایک علمی خانوادے کے چشم وچراغ ہیں، علم وصلاح ان کا خاندانی ورثہ ہے ، تصوف کے حوالہ سے بھی اس خاندان کی بڑی خدمات رہی ہیں، مولانا نافع عارفی نے مدرسہ رحمانیہ سوپول ، جامع العلوم مظفر پور، دار العلوم دیو بند اور المعہد العالی الاسلامی حیدر آباد سے علمی اکتساب کیا ہے اور تحقیق وفتاویٰ کے رموز سیکھے ہیں
پھر اس صلاحیت کو صیقل کرنے کے لیے مدرسہ عبد اللہ بن مسعود حیدر آباد ، مدرسہ چشمہ فیض ملل ، دارالعلوم سبیل الفلاح جالے، معہد الولی الاسلامی ہر سنگھ پور میں پڑھایا بھی ہے ، ان کی دس کتابیں اسلام کا نظام زراعت ، کتابت وحی اور کاتبین ، مذہبی رواداری اور اسوۂ نبوی ، حیات عارف، الحدیقۃ العربیۃ (2حصے) نخبۃ دروس اللغۃ العربیۃ ، الزھرۃ العربیۃ ، عربی زبان وادب کی تاریخ، تسہیل القواعد اور زاہیۃ الادب، تصیف ، تالیف ، تحقیق اور ترتیب کے طور پر سامنے آچکی ہیں، یا آنے والی ہیں، جس سے ان کی صلاحیت اور اردو عربی زبان میں تصنیفی قدرت کا پتہ چلتا ہے، بدقسمتی سے زیر تبصرہ کتاب کے علاوہ ا ن کی کوئی دوسری کتاب میری نظر سے نہیں گذری، قصور اپنی طلب اور نظر کا ہی ہے ۔
تین سو چھ صفحات کی یہ کتاب اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے جزوی مالی تعاون سے اشاعت پذیر ہوئی ہے، کمپوزنگ ابو نصر ہاشم ندوی اور نا شر کتب خانہ نعیمیہ دیو بند سہارن پور ہے، جب قیمت کتاب پر درج نہ ہو تو مفت ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، ملنے کے چار عدد پتے درج ہیں، آپ حیدر آباد میں المعہد العالی الاسلامی ، دربھنگہ میں معہد الولی الاسلامی ہرسنگھ پور، پھلواری شریف میں ابو الکلام ریسرچ فاؤنڈیشن اور دیو بند میں کتب خانہ نعیمیہ سے یہ کتاب حاصل کر سکتے ہیں
البتہ ان جگہوں سے لینے پر مفت ملنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔ کتاب کا انتساب دار العلوم دیو بند ، والدین اور عاشقان جمال انور کے نام ہے جو مصنف کے عقیدت وتعلق کا مظہر ہے ، کتاب کا پیش لفظ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، دامت برکاتہم نے لکھا ہے ، مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ کی تقریظ اور مولانا ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی کی کلمات تحسین ہے، ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی کے نام کی پٹی فہرست میں بعد میں چپکائی گئی ہے ، اس سے لگتا ہے کہ یہ جگہ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کے لیے مختص تھی
لیکن یا تو ان کی تحریر نہیں مل سکی، یا وہ لکھنے کے پہلے ہی راہیٔ آخرت ہو گیے، اس راز کا پتہ مولانا نافع عارفی کے مقدمہ سے چلتا ہے ، جس میں انہوں نے اظہار تشکر میں مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کے نام ذکر کیا ہے ، اور ڈاکٹر شکیل قاسمی کاتذکرہ رہ گیا ہے، میں نے چشمہ اوپر نیچے کرکے بار بار فہرست اور کتاب میں ان کا نام اور ان کی تحریر تلاشنے کی کوشش کی ۔
لیکن ناکام رہا، پھر ساری قلعی فہرست مضامین کی پٹی اور عنوان کی تبدیلی ’’کلمات تحسین‘‘ نے کھول دیا، اگر مقدمہ سے اسے ہٹا دیا جاتا تو یہ تسامح نہیں ہوتا۔بے اختیار علامہ اقبال کے دور قدیم کی ایک غزل کا ایک شعر یاد آگیا ، جو داغ اسکول کی نمائندگی کرتا ہے۔ تمہارے ’’پیامی‘‘ نے سب راز کھولا خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی کتاب کا پہلا باب دار العلوم دیو بند کی علمی خدمات کی تحقیق اور ابناء دار العلوم کی مختلف موضوعات واصناف پر ان کی تصنیفی فہرست پر مبنی ہے
اس میں تحقیق بھی ہے اور تاریخ بھی، یہ فہرست مختصر ہے، لیکن اجمالی واقفیت کے لیے مفید مطلب ہے ، اس باب کو ’’عربی زبان وادب کی ترقی میں ابنائے دار العلوم کی کاوشیں ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے ، دوسرا باب، علامہ کشمیری کے احوال وآثار اور نسلوں کی تعلیم وتربیت سے متعلق ہے ، اس میں ان کی تعلیمی وتدریسی زندگی کا بھر پور جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں تحقیق کے جدید تقاضوں کو برتا گیا ہے ، اس باب کا عنوان ’’علامہ انور شاہ کشمیری کی علمی زندگی کی داستان ‘‘ ہے۔ تیسرے باب میں عربی زبان وادب کے حوالہ سے حضرت کشمیری کی زبان دانی ، نثر نگاری اور شاعری پر تفصیلی بحث کی گئی ہے
ان کے اسلوب ، محاسن اور ندرت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ، یہ اس کتاب کا تیسرا باب ہے ، جس کا عنوان مصنف نے ’’عربی زبان وادب کے میدان میں علامہ کشمیری کے فتوحات‘‘ رکھاہے، یہ باب صفحہ 205 سے شروع ہوتا ہے اور 216 پر ختم ہوتا ہے، اس باب میں علامہ کشمیری کے ادبی ذوق ، شعر وسخن ، مرثیے، اصلاحی اشعار آپ کی شاعری کی اہم خصوصیات اور محاکمہ کے طور پر شاعری میں علامہ کشمیری کے مقام کی تعیین کی کوشش کی گئی ہے
مصنف اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ ’’اردو فارسی شاعری میں جو رتبہ میر وغالب کا ہے ، عربی شاعری میں حضرت کشمیری کو وہی مقام حاصل ہے، علامہ کی عربی نثر نگاری کا محاکمہ کرتے ہوئے مولانا نافع عارفی نے لکھا ہے ‘‘۔
علوم شرعیہ میں انشاء پردازی کے جو جوہر دکھلائے ہیں وہ انہیں اپنے زمانہ کے ممتاز ادباء کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔ (صفحہ 393) 295؍ سے ان شخصیات ، کتابیات اور رسائل وجرائدکا ذکر ہے، جن کے حوالہ سے تحقیق کے دشوار گذار مراحل کومصنف نے طے کیا ہے ، جن شخصیات کا ذکر کتاب میں آیا ہے، اس پر قیمتی حاشیہ درج کرنے کا انتظام کیا ہے، جس میں انکی شخصی اور علمی احوال وکوائف کے ذکر نے اس کتاب کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے ۔
مولانا اس کتاب کی تصنیف پر علمی دنیا سے شکریہ کے مستحق ہیں، کتاب اس لائق ہے کہ اہل علم اس کا مطالعہ کریں اور لائبریری میں ماخذ ومرجع کے طور پر محفوظ کر لی جائے۔